وجود

... loading ...

وجود

یوکرین کی بربادی کا اصل ذمہ دار کون؟

جمعرات 10 مارچ 2022 یوکرین کی بربادی کا اصل ذمہ دار کون؟

’’قومیں شاعروں کے دلوں میں جنم لیتی ہیں،ادیبوں کے ہاتھوں میں پروان چڑھتی ہیں ،جبکہ وہ سیاست دانوں کے ہاتھوں میں آکر مرجاتی ہیں ‘‘ عظیم ، شاعر،مصلح اور مفکر جناب علامہ اقبال ؒکی ذاتی ڈائری میں رقم یہ جملہ یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی پر پوری طرح سے منطبق ہوتاہے کہ جن کے صرف ایک غلط فیصلے نے جہاں ہنستی بستی یوکرینی قوم کو عذابِ دربدری کی دوزخ میں دھکیل دیا ہے وہیں خوب صورت اور پرشکوہ ملک یوکرین کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔یاد رہے کہ یوکرینی قوم روس کے ساتھ جنگ کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی اور یہ بات یوکرینی صدر زیلنسکی اور اس کی کابینہ کے افراد بھی روزِ اوّل سے جانتے تھے مگر یوکرینی صدر کو زعم تھا کہ جیسے ہی روسی افواج نے یوکرین کی سرحد پر اپنا پہلا قدم رکھنے کی غلطی کی تو اگلے ہی لمحے امریکااور یورپی یونین کا عسکری اتحاد یعنی نیٹو افواج روس پر ہر طرف سے حملہ آور ہوجائیں گی۔ المیہ تو یہ ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین میں لشکرکشی کیے ہوئے دو ہفتے سے زائد ہونے کو آئے ہیں لیکن یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی، ابھی تک اِسی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ وہ روس کو شکست دے کر یہ جنگ باآسانی جیت سکتے ہیں۔
خدا جانے یوکرینی صدر کے نزدیک جنگ میں جیت کا اصل معنی و مفہوم کیاہے ۔شاید ولادمیر زیلنسکی تباہ حال سرکاری و رہائشی عمارتوں پر یوکرینی جھنڈا لہرانے کو جیت سمجھتے ہیں ؟ یا پھر وہ لاشوں اور زخمیوںسے بھرے ہوئے ہسپتالوں کے سامنے کھڑے ہوکر وکٹری کا نشان بنا کر ویڈیو ،سوشل میڈیا ویب سائیٹ یوٹیوب پر اَپ لوڈ کرنے کو اپنی جیت گردانتے ہیں ؟ یا جیت سے اُن کی مراد پورا ملک روسی افواج کی دسترس میں دے کر یورپی ممالک سے امداد سمیٹنا ہے ؟۔اگر اِن ہولناک اور دل خراش واقعات کے رونما ہونے کو دنیا کی کسی بھی لغت میں جیت کہا جا سکتاہے تو پھر واقعی یوکرین کو روس کے خلاف جنگ میں واضح اور غیرمعمولی’’ جیت ‘‘حاصل ہوچکی ہے۔ لیکن اگر دو حریف ممالک کے درمیان ہونے والی جنگ میں جیت کا اصل مطلب حریف ملک کوزیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر اپنے ملک اور عوام کی جان و مال کا بھرپور انداز میں تحفظ کرنا ہوتا ہے توپھر یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کا حقیقی فاتح روس ہے اور ولادی میر زیلنکسی کی حیثیت ایک مفتوح ملک کے شکست خوردہ صدر سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یوکرینی صدر کے پاس اپنے ملک کو جنگ کے عفریت کے منہ میں جانے سے بچانے کے بے شمار آپشن موجودتھے ۔ جس میں سب سے بہتر آپشن امریکا ، نیٹو اور روس کے درمیان موجود تنازعات میں اپنے ملک کو مکمل طور پر غیر جانب دار رکھنا تھا۔ ویسے بھی روسی صدر ولادی میر پوٹن کا یوکرینی قیادت سے صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ وہ امریکا اور روس کے معاملہ میں اپنی غیرجانب دارانہ حیثیت کو واضح کرے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جنگ شروع ہونے سے ایک روز قبل غیر متوقع طور پر یوکرینی صدر زیلنکسی نے اِس بات پر اپنی آمادگی کا اظہار بھی کردیا تھا کہ ’’یوکرین کے لیے بہتر یہ ہی ہوگا کہ وہ ایک ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دے جس میں روس اور امریکا کے ساتھ ایک جیسے سفارتی تعلقات برقرار رکھنا ممکن ہوسکے‘‘۔ یوکرینی صدر کا یہ ہی وہ بیان تھا ، جس سن کر دنیا کے اکثر تجزیہ کاروں کو یہ اُمید ہوچلی تھی کہ شاید اَب روس اور یوکرین درمیان کے باقاعدہ جنگ کی نوبت نہ آئے۔
مگر افسوس صد افسوس کہ یوکرینی صدر زیلنکسی اپنے اس بیان پر چند گھنٹے بھی قائم نہ رہ سکے اور امریکی صدر جوبائیڈن کی جھوٹی سچی یقین دہانیوں میں آکر روس کو اپنے ملک پر حملہ آور ہونے کے لیے للکار بیٹھے۔ جس کے بعد روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے بلاکسی تاخیر اپنی افواج کو یوکرین پر حملہ آور ہونے کے احکامات جاری کردیئے۔ آخری موصولہ اطلاعات تک روسی افواج یوکرین کے تمام بڑے اور شہروں پر اپنا قبضہ مستحکم کرچکی ہے ۔نیز اِس جنگ میں یوکرینی افواج کی 90 فیصد سے زائد عسکری تنصیبات بھی تباہ و برباد کردی گئی ہیں ۔ جبکہ یوکرین میں موجود تمام ایٹمی ری ایکٹر ز پر بھی روس قابض ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں یوکرین کے تمام قابل ذکر ساحلی شہر اور بندرگاہیں روس کے قبضے میں چلے جانے سے یوکرین مکمل طور پر ایک لینڈ لاک ملک بن چکا ہے۔ اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد صدر زیلنسکی کا یہ کہنا کہ ’’مغرب نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے ،جبکہ یورپی ممالک نے یوکرین کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے لیے روس کے سامنے تنہا چھوڑ دیا ہے‘‘۔اعترافِ شکست نہیں تو اور کیا ہے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی کے درج بالا بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے رویے سے کس قدر مایوس ہو چکے ہیں۔ مگر دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اَب اُن کی جانب سے کسی بھی قسم کی پشیمانی یا مایوسی کا اظہار یوکرینی عوام کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ بظاہر مغربی ذرائع ابلاغ یوکرینی صدر زیلنسکی کو دنیا بھر کے سامنے ایک ہیرو بنا کر پیش کر نے کے لیے دن رات مصروف ِ عمل ہے لیکن اگر اپنا پورا ملک گنوانے اور اپنی قوم کو دربدر کرنے کے بعد اُنہیں ’’ہیرو‘‘ کا خطاب حاصل بھی ہوجاتا ہے تو ایسے’’کاغذی ہیرو‘‘ کو یوکرین کی تاریخ میں ایک قومی مجرم کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کیونکہ تاریخ کے طالب بخوبی جانتے ہیں کہ تاریخ اپنا فیصلہ اور نتیجہ جنگ کے دوران نہیں بلکہ جنگ کے ختم ہوجانے کے بعد سنایا کرتی ہے۔
اگرچہ اس وقت ساری دنیا روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کا ذمہ دار ، روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو بتا رہی ہے لیکن میری دانست میں یوکرین کو جنگ کا ایندھن بنانے کی تمام تر ذمہ داری اگر کسی ایک شخص پر عائد کی جانی چاہیے تو وہ یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی ہیں کہ جنہوں نے اپنے ملک کی عسکری بے سروسامانی اور اپنی قوم کی ناتوانی کو یکسر نظر انداز کر کے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے اتحاد نیٹو کے بھروسے پر یوکرین کو روس کے خلاف میدان ِ جنگ میں اُتار دیااور اَب جنگ کا بدترین نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ یوکرین مکمل طور پر تباہ و برباد ہوچکا ہے اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کسی محفوظ بم پروف بنکر میں چھپ کر روزانہ مغربی اور یورپی ممالک سے مدد و اعانت کی بھیک مانگنے کی اپنی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈکرکے سمجھ رہے کہ یوکرین یہ جنگ جیت رہا ہے۔بقول شاعر
بڑا شاطر سیاست دان ہے وہ
اُسے معلوم ہے بھاؤ سروں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر