وجود

... loading ...

وجود

بچے "غیر سیاسی" ہوتے ہیں

جمعه 18 فروری 2022 بچے

پاکستان میں اس وقت سیاسی ہل چل اپنے عروج پر یے۔ سیاست اقتدار و اختیار کی راہداریوں سے ہوتی ہوئی ڈرائنگ رومز میں پہنچی اور اب بات میل ملاقاتوں تک آن پہنچی۔ لاہور کی معروف ترین شاہراہ پر قائم ظہور الہٰی پیلس سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں نمایاں مقام رکھنے والے سیاسی رہنما ق لیگ سربراہ اور جہاندیدہ سیاست دان چودھری شجاعت حسین کی تیمارداری کے بہانے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری۔ پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمٰن۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف اور اہم کیو ایم کے قائدین کا آنا ملکی سیاست میں بھونچال پیدا کر چکا ہے۔ چودھری برادران سے آپ لاکھ اختلاف کر لیں لیکن یہ بات آپ کو ماننا پڑے گی کہ چودھری برادران سیاست کے بڑے کھلاڑی ہیں اپنے دھیمے مزاج اور سب کے ساتھ بنا کر رکھنے میں انہیں جو ملکہ حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی دوسرے سیاسی رہنماؤں کو میسر نہیں۔ گجرات کے ان چودھریوں کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب ترین جانا جاتا ہے اور اس تعلق کو وہ چھپاتے بھی نہیں۔ چھپانا تو دور کی وہ اس تعلق پر ہمیشہ سے نازاں ہیں۔ اس بات کا برملا اظہار گزشتہ دنوں ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے مختلف ٹی وی چینلز پر انٹرویو میں کیا۔ اس تعلق کو نا پسند کرنے والی نمایاں سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی۔ پی ڈی ایم اور ن لیگ جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بہت اہتمام کے ساتھ کے ساتھ چودھریوں کے ڈیرے پر جانا اور “روٹی شوٹی” کھانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آج بھی سیاست کے “گرو” ہیں۔ ان سے “فیض” حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے اہم ترین سیاسی کھلاڑیوں کا چکر لگانا انتہائی اہم ہے۔
ان رہنماؤں کا ظہور پیلس جانا کوئی اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے اس کے لیے باقاعدہ ہوم ورک کیا ہوگا۔ ملاقات کا ایجنڈا طے کیا گیا ہوگا ان ملاقاتوں کی گرد ابھی بیٹھی نہ تھی کہ چودھری پرویز الٰہی کے صاحب زادے اور وفاقی کابینہ کے رکن چودھری مونس الٰہی نے ایک تقریب میں وزیراعظم عمران خان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ جو ہمارے سیاسی تماشہ لگا ہوا ہے آپ اس سے نہ گھبرائیں۔ ہم سیاسی لوگ ہیں ایسی سیاسی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ہم تعلق نبھانے والے لوگ ہیں آپ سے یہ تعلق نبھانے کے لئے بنایا ہے۔ مونس الٰہی کی یہ بات سن کر وزیراعظم کا چہرہ کھل اٹھا۔ مونس الٰہی کے اس بیان سے دو باتیں سامنے آئیں کہ وہ سیاسی رہنما جو دعویٰ کرتے ہیں کہ میں 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچے ہیں۔ وہ ایک “بچے” کے دو جملوں کی مار ثابت ہوئی۔ دوسری جانب یہی دو جملے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی کئی دہائیوں پر محیط سیاسی زندگی پر بجلی بن کر گرے۔ سننے میں آیا ہے چودھری پرویز الٰہی نے اپنے اس “ہونہار” سپوت کے کان کھینچے ہیں کان کھینچنے بھی چاہئے تھے کہ ان کا بچہ ہی ان کی کئی نسلوں کی روایات جو صرف ایک وزارت یا اپنی نا سمجھی کی وجہ سے دریا برد کرنے پر تل گیا تھا۔ سنا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو اپوزیشن رہنماؤں سے معزرت بھی کرنا پڑی اور اس کے ثبوت کے طور پر وزیراعظم سے طئے شدہ ملاقات منسوخ کرکے اسلام آباد بھی جانا پڑا شائد اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بچوں کو سیاست سے دور رکھیں کہ بچے “غیر سیاسی” ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر