... loading ...
1985 میں پروفیسر لجپال سیال نے ملتان سے قومی اسمبلی کیالیکشن میں حصہ لیا.
تو اسے صرف 3 ہی ووٹ ملے تب اس نے حکومت سے سیکورٹی کا مطالبہ کیا تو اسے اس وقت کے ایس ایس پی ملتان نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو صرف 3 ہی ووٹ ملے ہیں.
پھر ہم آپ کو سیکورٹی کیسے دے سکتے ہیں؟
اس پر پروفیسر لجپال سیال نے کہا کہ جس شہر میں اتنے سارے لوگ میرے خلاف ہیں کیا مجھے سیکورٹی نہیں ملنی چاہیئے. پروفیسر صاحب کو سکیورٹی ملی یا نہیں البتہ سیاسی حلقوں میں ان کی یہ توجیح “لجپال لاجک” کے طور پر ہمیشہ کے لیے “مثال” بن گئی۔ اسی طرح کا ایک کردار شہزادہ عنبر لاہور میں بھی ہے جو خود کو نیم کرپٹ کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے خود کو نیم کرپٹ سمجھنے والا یہ کردار دراصل اس معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرتا ہے۔ عام انتخابات ہوں یا وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ یا پھر صدارتی انتخاب وہ ہر الیکشن کے لیے خود کو پیش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے وزٹنگ کارڈ پر بھی سابق امیدوار برائے صدر پاکستان لکھوا رکھا ہے۔ ہمارے بچپن میں بہاولپور کے نواحی علاقے میں سلیم کرلا نامی ایک شخص بھی ہر الیکشن میں امیدوار کے طور پر سامنے آتا تھا۔ اس کا اصل نام تو محمد سلیم تھا لیکن قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے لوگ اسے سلیم کرلا کے نام سے پکارتے تھے لوگوں نے جو نام اس کی تحقیر کے لیے رکھا اس نے اسے اپنی مقبولیت سمجھ کر اپنے نام کا حصہ بنا لیا وہ مرتے دم تک اپنے پوسٹرز پر اسی نام سے اپنی انتخابی مہم چلاتا رہا۔ پروفیسر لجپال ہو یا شہزادہ عنبر یا پھر سلیم کرلا یہ آج بھی کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی سیاسی کردار کے طور پر آج بھی زندہ ہے وہ اسی “فلسفے” پر کاربند ہے جو لجپال لاجک کے نام سے مشہور ہے۔ آج کے سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو آپ کو “یو ٹرن” تو اچھے ہوتے ہیں جیسی “لاجک” کے حامل سیاست دان انتہائی اہم منصب پر دکھائی دیں گے۔
ہم سے پہلی نسل اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ اس “فلسفے” پر فخر محسوس کرنے والے وہ کردار کبھی اقتدار میں نہ آئے اس لیے وہ ان تکالیف سے بچ گئی جو آج ہماری نسل اٹھا رہی ہے۔ آج ہمیں ایسے حکمران سے پالا پڑا ہے جس میں بقول خواجہ آصف کوئی شرم ہوتی ہے کوئی ہوتی ہے نامی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی وہ کل تک جسے اپنا چپڑاسی بھی نہیں رکھنا چاہتا تھا وہ آج اس کا وزیر داخلہ۔ جسے وہ پنجاب کا سب بڑا ڈاکو کہا کرتا تھا آج وہ اس کا اتحادی ہے۔ جسے وہ قاتل قرار دیتا تھا وہ آج اس کی کابینہ میں شامل ہیں۔ ایک بہت ہی مشہور محاورہ ہے “جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے” اس پر یوں صادق آتا ہے جہاں بھی گئے “نظام” لے آئے۔ سعودی عرب کے دورے پر جائیں تو سعودی نظام پسند۔ چین جائیں تو چینی طرز سیاست کے گرویدہ۔ بات صرف کہیں جانے تک ہی محدود نہیں کوئی یہاں آ بھی جائے تو اس سے بھی “متاثر” ہوئے بنا نہیں رہتے وہ ایران اور ترکی جیسے نظام کو بھی لاگو کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں غرض دنیا کا کوئی بھی نظام ہو جس میں وہی “گھنٹہ گھر” ہو انہیں پسند ہے۔ وہ یو ٹرن کو بڑے لیڈر کی پہچان قرار دیتے ہیں۔ آج ہم اگر کسی سیاسی بحران کا شکار ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی “سوچ” ہے کہ گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے۔ ہماری مقتدرہ نے یہی سوچ کر انہیں مرزے کا یہ “کردار” نبھانے کا پورا پورا موقع دیا۔ آج جب ساڑھے تین سال گزارنے کے بعد پلے ککھ نہیں تو وہ “تڑی” لگاتے ہیں کہ میں عوام میں جاؤں گا۔ میں بہت خطرناک ہو جاؤں گا۔ انہوں نے جو حشر عوام کا کیا ہے انہیں واقعی “لجپال لاجک” کے مطابق سکیورٹی کی ضرورت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔