... loading ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکی ابڑو
سناہے جنگلوں کابھی کوئی دستورہوتاہے
شیرکاجب پیٹ بھرجائے
توحملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جاکرلیٹ جاتاہے
ہواکے تیزجھونکے جب درختوں کوہلاتے ہیں
تومینااپنے انڈے چھوڑکر
کوے کے بچوں کوپروں سے تھام لیتی ہے
سناہے گھونسلے سے کوئی بچہ گرپڑے تو
ساراجنگل جاگ جاتاہے
سناہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کاگندمی سایہ لرزتاہے
توندی کی روپہلی مچھیلیاں
اس کوپڑوسی مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آجائے کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری،سانپ،بکری اورچیتاساتھ ہوتے ہیں
خداوند جلیل ومعتبر
داناں وبینا منصف و اکبر
میرے اس شہرمیں اب
جنگلوں کاہی کوئی قانون نافذکر۔
ٓیہ مشہورنظم شاعری کاایک معتبرحوالہ ظہرہ نگاہ کی ہے جوآج کے منظرنامے پرپورااترتی ہے، پچیس اور 26 جنوری کو شب شارع فیصل کراچی میں نامعلوم افراد کی جانب سے راتوں رات موجودہ ’’سسٹم‘‘کیخلاف بینرآویزاں کردیاگیا جس پر ”سسٹم نیڈ گبر”درج تھااورساتھ ہی یہ لکھاتھاکہ۔ حکومتی ادارے اپنا کام نہیں کررہے؟رشوت کا بازارگرم ہے؟ تو پھرعام آدمی کہاں جائے؟ نامعلوم افراد کی جانب سے آویزاں کیا جانے والایہ بینر ہمارے ملک کا’’سسٹم‘‘چلانے والوں سے ظہرہ نگاہ کی طرح روزایساسوال کرتاہے؟ معاشرے میں چاروں اور اژدھام کی صورت پھیلے گھمبیر مسائل ایسے ہیں کہ جن سے نبٹنے کیلئے بینرلگانے والوں کو ایک ‘گبر” کی تلاش ہے جو انہیں ان مسائل سے چھٹکارا دلانے بندوق ہاتھ میں لیے کسی فلمی کردار کی طرح گھوڑے پرسوارہوکرکہیں سے نمودارہوجائے؟ آج کل جہاں نظر دوڑائیں ایک سیاسی بھونچال ہے؟ نیاسال 2022ء آتے ہی’’سسٹم‘‘ چلانے والے وزیر اعظم سے لے کر دفترمیں لیٹا؟گھرمیں بیٹھا؟اورلنگوٹ باندھے فٹ پاتھ پرلیٹا؟ہر شخص پریشان ہے، شارع فیصل کے ’’پیڈسٹل برج‘‘پرنامعلوم افراد کی جانب سے لگا یہ’’بینر‘‘سندھ کے ناکارہ،چور بازاری سسٹم کو سدھارنے کیلئے انڈین فلم میں ’’ولن‘‘ کے ایک خونی کردار”گبر” کو پکاررہا ہے؟یوں لگتا ہے کہ جیسے آئے روز لوڈشیڈنگ، اوور بلنگ، مہنگائی، چوربازاری، اسٹریٹ کرائم،دن دیہاڑے نہتے شہریوں سے لوٹ ماراور قتل وغارت گری سے تنگ عوام تمام مصیبتوں سے چھٹکارے کاحل اس فلمی کردار”گبر”میں ڈھونڈ رہی ہے ’’گبر‘‘کو برسوں پہلے بھارتی فلم شعلے میں لٹیروں کاایک سرداردکھایاگیاتھا؟ہماری بھولی بھالی عوام یہ ساراگند اب اس”گبر”سے اٹھواناچاہتی ہے جوخودایک لٹیراہے؟ہم پر دوہراعذاب آن پڑا ہے کہ ملک میں پھیلی ہوئی غربت، مہنگائی،ماراماری،لوٹ مار،کرپشن کیخلاف وہی لوگ سڑکوں پر’’سسٹم‘‘کیخلاف نعرے لگارہے ہیں جنہوں نے یہ ’’سسٹم‘‘ ہم پرمسلط کررکھاہے؟ ’’سسٹم‘‘چلانے والوں میں سے ایک ثانوی کردار ’’گبر‘‘ ہے ؟جس کاجسم لندن میں اور روح ہمیشہ پاکستان میں رہتی ہے‘‘سسٹم کے دوسرے ’’گبر‘‘کے پیسے سوئس اکائونٹ اور سیاست پاکستان میں ہے؟کسی’’گبر‘‘ کا اکاؤنٹ چپڑاسیوں کے نام اور بیٹے انگلستان میں ہیں؟ایک جعلی ڈگریوں کے سوال پر ’’ڈگری؟ڈگری ہوتی ہے کاشور مچاتاہے؟
ایک سابق صوبائی فنانس سیکریٹری کے گھرسے چونسٹھ کروڑکی رقم برآمدہوتی ہے؟اورکسی اسپیکرکے گھرپربنے اسٹرانگ روم میں پڑی کروڑوں روپے کی خفیہ رقم کو آگ لگ جائے تواسے بجھانے کے لیے جہازپہنچ جاتاہے اورکسی کوکچھ نظرنہیں آتا؟حالیہ منظرنامے میں ایک سابق میونسپل کمشنر کورنگی بھی کسی ”گبر”سے کم نہیں؟ ان کے گھرسے ایک کروڑ98 لاکھ کے جعلی بلز؟قیمتی گھڑیاں کئی تولہ سونے کے بسکٹ،سونے کے کنگن،جھمکے،ین،ریال اور ڈالر کی صورت میں نکلنے والی غیرملکی کرنسی اتنی نکل آتی ہے کہ اسے گننے کے لیے بھی ایک مشین درکارہوتی ہے؟ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن میں پہلے نمبرپرمشرف اوردوسرے پرعمران خان کایہ دورہے جس نے گزشتہ پچیس سالہ ریکارڈتوڑدیئے ہیں ؟تیسرے پرپیپلزپارٹی اورچوتھے پرنوازکادورگناجاتاہے؟پوری دنیامیں کرپشن کے حوالے سے پاکستان کا اکتا لیسواں نمبر ہونے کے باجود وزیراعظم صاحب کویہ کہناپڑتاہے کہ ہمارے دورمیں کرپشن کاکوئی کیس سامنے نہیں آیا؟کرپشن ہمارے معاشرے کا ایسا ناسورہے جوانہی ’گبر‘‘کے ادوارمیں پروان چڑھاہے؟ جنہیں ملک وقوم سے کوئی سروکارنہیں یہ ”گبر” تو جنگل کے اس قانون پربھی پورانہیں اترتے جہاں گھمسان کارن پڑے تو سب ساتھ ہوتے ہیں؟ان’گبروں ’‘کوایساخون منہ لگاہے کہ یہ آج درندہ بن چکے ہیں جو صرف اپنے اصولوں پرجیتے اوردنیاکے سب سے بڑے ’’گبر‘‘آئی ایم ایف کی آشیرباد سے غریبوں کاخون پیتے ہیں ؟ ایک طرف معاشرے کے یہ ناسور’’گبر‘‘ملکی خزانہ خالی کرکے”نیب” سے ڈیل کرتے ہیں اورہم جیسے غریب مزدور اپنا پیٹ کاٹ کربلوں کی لائنوں میں لگے بجلی،گیس ،پانی جیسے انگنت ٹیکس اداکرکے قومی خزانہ بھرتے ہیں؟ ہم آج انسانی تاریخ کی اس دوراہے پر ہیں کہ جہاں کم وبیش 8 ہزاربچے کورونانہیں؟ بلکہ’’ بھوک کے وائرس‘‘ سے مررہے ہیں؟بینرزآوایزاں کرنے والے نامعلوم افرادشاید یہ تحریرپڑھ کرآج اس خونی کردار”گبر” سے واقف ہوچکے ہوں گے؟میں نامعلوم افراد کو یہ باورکرادوں کہ وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کی فلموں سے متاثرہوکر کسی’گبر‘‘ کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے کے بجائے اگراپنا’’رول ماڈل‘‘ بناناچاہتے ہیں تو حکمرانی میں ‘ ‘ قائد محمد علی جناح” اور قوم کی خدمت کیلئے ’’عبدالستارایدھی‘‘ جیسے ہیروز کو فالوکریں تو ہمیں کسی ”گبر” کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔