وجود

... loading ...

وجود

دھرنے،احتجاج اور مظاہرے

هفته 22 جنوری 2022 دھرنے،احتجاج اور مظاہرے

وطنِ عزیر میں سیاسی بے یقینی نئی بات نہیں یہاں کسی کے آنے کی خبریں اور جانے کے اعلانات معمول ہیں جمہوری دورمیں خاص طورپر ایسی خبریں اور اعلانات عروج پر ہوتے ہیں عام انتخابات کا موسم قریب آنے کی بنا پر سیاسی جماعتیں متحرک ہونے لگی ہے اورہر جماعت انتخابی میدان میں اُترنے سے قبل عوام کو یہ یقین دلانا چاہتی ہے کہ اُسے ہی ووٹ دیں کیونکہ صرف وہی اُن مفاد کی نگہبانی کر سکتی ہے مگر ابھی مستقبل کے انتخابی نتائج بار ے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے جوں جوں انتخابی ماحول بنے گاعوامی پسندیدگی بارے بات کی جا سکتی ہے جیسا کہ 2008 میںعوام نے بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کوکیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے 2013 میں بجلی کا مسئلہ تمام مسائل میں سرفہرست رہا اور ن لیگ ساری انتخابی مُہم کے دوران حل کرنے کی یقین دہانی کراتے رہی 2018 کے عام انتخابات میں بڑھتی کرپشن کا خاتمہ عوام کی پہلی ترجیح ٹھہرا لوگ بدعنوان سیاستدانوں کے محاسبے کے متمنی دکھائی دیے موجودہ حکمران جماعت پی ٹی آئی نے انسدادِ کرپشن کے نکتے پر ہی انتخابی مُہم چلائی اورحیران کن طور پر لوگوں نے پزیرائی بھی دی اب اگلے برس 2023میںملک گیر عام انتخابات متوقع ہیں اگر کوئی اور اہم واقعہ نہ ہوا تودگرگوں ملکی معیشت انتخابی مُہم کا مرکزی نکتہ ہوگی اور ہر جماعت کی اولیں کوشش ہو گی کہ وہ عوام کو یہ یقین دلا سکے کہ صرف وہی ملکی معیشت درست کر سکتی ہے ابھی تک کسی جماعت نے کوئی وعدہ ایفا نہیں کیا بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا ملنا تو درکنا ر ابھی تک ملوث لوگوں کا تعین بھی نہیں ہوسکا اسی طرح بجلی کے مسائل آج بھی موجود ہیں جبکہ انسدادِ کرپشن کا وعدہ کا کرتے کرتے حکومت اپنا عرصہ اقتدار پوراکرنے کے قریب آگئی ہے لیکن کرپشن کا خاتمہ تو ایک طرف اُلٹا ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوگیا ہے آمدہ برس معیشت کی بحالی کی آس کون سی جماعت دلاتی ہے جلد ہی اِس سوال کا جواب مل جائے گاماضی کے تجربات کو مدِنظر رکھتے ہوئے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ کاش کوئی جماعت معیشت کی بحالی کا وعدہ پورا کردے۔
مریم نواز نے پورے اعتماد سے کہا ہے کہ حکومت کے جانے کا وقت آچکا اب مہینوں یا ہفتوں کی بات نہیں بلکہ دنوں کی بات ہے اتنی بڑی بات انھوں نے کیوںکر کی آیا اُن کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں یا انھیں کسی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی ہے اِس بارے کچھ معلوم نہیں نہ ہی بظاہرتبدیلی کے آثار ہیں اِس لیے فوری طور پر کسی بڑی تبدیلی کی بات پر یقین کرنے کو دل نہیں مانتا تبدیلی کی بات کوتسلیم کرنے میں تامل کی وجہ یہ نہیں کہ حکومت بہت مضبوط ہے یا اُس کی کارکردگی مثالی ہے اور یہ کہ تبدیلی کی صورت میں عوام اپنی حکومت کے شانہ بشانہ ہوسکتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ایک تو ایوانوں میں حکومتی اکثریت محض چنداتحادی ووٹوں کے سہارے قائم ہے اور یہ اتحادی بھی سخت خفا ہیں دوم مہنگائی اور بے روزگاری کی بنا پر عوام کا حکومت کی حمایت میں نکلنا بہت مشکل ہے سوم حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے اپوزیشن کے پاس کوئی ایسی حکمتِ عملی ہی نہیں بلکہ ڈیل اور ڈھیل کے چکروں میں الجھی اپوزیشن خودبے بسی اور لاچارگی کی ایسی عملی تصویرہے جس کے پیشِ نظراِن ہائوس یا زوردارتحریک کے زریعے کسی نوعیت کی تبدیلی کا کوئی ایجنڈانہیں تبدیلی کی ایک ہی صورت ہے کہ عمران خان خود اسمبلیاں توڑ کر اپنی حکومت کا خاتمہ کردیں اور ایسا ہونا بعید از قیاس ہے ذیادہ امکان یہی ہے کہ مدتِ اقتدار مکمل کرنے کے بعد اپنی اچھی یا بُری کارکردگی کے ساتھ وہ آئندہ عام انتخابات میں جانے کی کوشش کریں گے ۔
دھرنے ،احتجاج اور مظاہروں کا وقت قریب آرہا ہے ویسے تووفاقی حکومت کوسندھ حکومت کی طرف سے مسلسل ٹکرائو کا سامنا ہے دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزام تراشی ہوتی رہتی ہے مگراب تلخی بڑھتی جا رہی ہے اپوزیشن کی نا اتفاقی سے وفاقی حکومت آسودہ ہے کیونکہ رُخصت کرنے کی دعویدار اپوزیشن احتجاجی تحریک کے حوالے سے بھی ایک نہیں بلکہ منتشر ہے پی ڈی ایم کا 23مارچ کو اسلام آباد کی طرف اگر مارچ کا اِرادہ ہے تو پیپلز پارٹی نے اُس سے پہلے ہی یعنی فروری کے آخری ہفتے اسلام آباد کی طرف روانہ ہونے کا اعلان کر رکھا ہے21جنوری کولاہور میں ہلکا پھلکا کسان مظاہرہ کر چکی اپوزیشن کے احتجاج کو غیر موثر کرنے کے لیے تحریکِ انصاف نے سندھ حکومت کے خلاف 27 فروری کو گھوٹکی سے کراچی لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے جس سے پیپلز پارٹی کے لیے کافی مشکل صورتحال پیدا ہو گئی ہے اگر وہ ساری توجہ اسلام آباد لانگ مارچ پر دیتی ہے تو سندھ میں پی ٹی آئی ،جی ڈی اے اورایم کیوایم وغیرہ عوام کو اکٹھا کرکے کامیاب مظاہرہ کر سکتی ہیں جس کے نتائج عام انتخابات میں پی پی کی نشستوں کمی کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں اگر سندھ میں اپوزیشن کے احتجاج کو بے اثر کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے تو اسلام آباد کا لانگ مارچ متاثر ہو سکتا ہے اِس لیے نوجوان بلاول کو وسائل کے باوجود سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا ہوگا وگرنہ مستقبل میں کسی اچھے منصب کے حصول کا خواب تعبیر سے محروم ہو سکتا ہے بلدیاتی ترمیمی قانون کے خلاف پاک سرزمین پارٹی نے 30 جنوری کو تبت سنٹر سے وزیرِ اعلٰی ہائوس تک عوامی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اسی طرح ملکی سیاست میں نہ تین میں نہ تیرہ میں شمار کی جانے والی جماعتِ اسلامی بھی خود کو منوانے کے لیے کوشاں ہے اور آج سندھ اسمبلی کے باہر شروع اُس کے کیے دھرنے کو23دن ہوگئے ہیں مگر سندھ حکومت نے بلدیاتی قانون کی واپسی کا عندیہ نہیں دیا اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ جماعت اسلامی کے اچھے دن گزر چکے اگر آئندہ بھی اُس نے کسی مقبول جماعت سے اتحادنہ کیا تو اسمبلیوں سے بالکل ہی باہر ہو نے کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتاس۔
کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں تحریکِ انصاف کو غیر متوقع طور پر شکست ہوئی ہے مگر ن لیگ اور پی پی کی بجائے مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت بڑے شہروں میں واضح اکثریت سے جیت گئی جس سے اِس میں شائبہ نہیں رہا کہ حکمران جماعت کو بُری کارکردگی کی وجہ سے گرتی مقبولیت کا سامنا ہے اگر دوسرے مرحلے میں بھی اسی طرح کے نتائج آتے ہیں تو یہ اگلے برس کے عام انتخابات کو متاثر کر سکتے ہیں جس سے عام انتخابات کا نقشہ موجودہ حکمران جماعت کے لیے غیر ہموار ہو سکتا ہے علاوہ ازیں پندرہ مئی سے پنجاب میں شروع ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ہارنے کی صورت میں حکمران جماعت پر اپوزیشن کے دبائومیں اضافہ ہو جائے گامگر یہ کہنا کہ تبدیلی کی راہ ہموار ہوجائے گا ابھی اِس پر یقین سے کچھ نہیں کیا جا سکتا البتہ حکومتی جماعت اگراپنا عرصہ اقتدار پورا کرتی ہے توایسامنقسم اپوزیشن کی بدولت ہی ممکن ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر