... loading ...
۔
اترپردیش سمیت ملک کی پانچ صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کی تیاری شباب پر ہے۔انتخابات کے موسم کو پرندوں کی ہجرت کے موسم سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ہمیشہ اقتدار میں رہنے کے شوقین کپڑوں کی طرح اپنی وفاداریاں بدلتے ہیں۔ اس سلسلہ کا سب سے بڑا بازار اس وقت ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں لگا ہوا ہے۔ حکمراں جماعت بی جے پی کے کئی وزیر اور ممبران اسمبلی پالا بدل کر سماج وادی پارٹی کا دامن تھام چکے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ ڈبل انجن کی سرکار کے دعویدار آنکھیں پھاڑے ہوئے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لیے بی جے پی نے اسی نفرت کا وائرس پھیلانا شروع کردیا ہے، جو اس کی سب سے مرغوب غذا ہے۔لیکن اس بار ماحول میں جس قسم کا زہرگھولنے کی تیاری ہورہی ہے،وہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ یعنی بی جے پی ہندتو کے ایجنڈے پر کاربند رہتے ہوئے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی۔ اسی لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اعلانیہ طورپر ایک ایسی لکیر کھینچ دی گئی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھینچی گئی تھی۔ انھیں پوری طرح دوخانوں میں بانٹ کر ان کے خلاف اعلان جنگ کیا جارہا ہے۔
اس بار ایسامحسوس ہوتاہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی سب سے زیادہ دھجیاں اڑیں گی اور ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ اس کا آغاز یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بڑے بھونڈے انداز میں کردیا ہے۔ ایک نیوز چینل کے کانکلیو میں دیا گیاان کا بیان نہ صرف انتخابی ضابطہ اخلاق کی واضح خلاف ورزی ہے بلکہ ملک کے سیکولر جمہوری دستور کے بھی صریحاًخلاف ہے۔ یوگی کے اس بیان سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نہ تو انھیں سماجی ہم آہنگی سے کوئی سروکار ہے اور نہ اپنے اس حلف کا کوئی پاس ہے جو انھوں نے ریاست کا وزیراعلیٰ بنتے وقت اٹھایا تھا۔80 فیصد بنام 20 فیصد کی لڑائی کا عندیہ دے کر انھوں نے اپنے پتّے پوری طرح کھول دیے ہیں۔ ایسا کرکے انھوں نے اپنی فرقہ وارانہ اور مسلم مخالف ذہنیت پر ہی مہر لگائی ہے۔
یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یوں تو ماضی میں بھی ایسے فرقہ وارانہ بیانات دیتے رہے ہیں، لیکن انھوں نے عین چناؤ کے موقع پر سماج میں پھوٹ ڈالنے اور فرقہ وارانہ فضا کومسموم کرنے کے لیے جو کچھ کہاہے، اس نے پچھلی تمام اشتعال انگیزیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ یہ الیکشن 20 فیصد بنام80فیصد کے درمیان ہوگا۔اپنے بیان کی تشریح انھوں نے ان الفاظ میں کی ہے کہ80 فیصد وہ لوگ ہیں جو حکومت کے ترقیاتی کاموں سے خوش ہیں اور باقی 20 فیصد وہ ہیں جو بدعنوانی،مافیا،فسادیوں اور دہشت گردوں کو پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ انھوں نے کسی مذہب یافرقہ کا نام نہیں لیا ہے لیکن ان کا روئے سخن جس طرف ہے، وہ سبھی کو معلوم ہے۔ اسی لیے اس بیان کو الیکشن کوہندو بمقابلہ مسلمان کرنے کی شاطرانہ چال سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ یوگی سرکار نے اپنے پانچ سالہ دوراقتدار میں ڈھول تو ترقی اور خوشحالی کے پیٹے ہیں، لیکن عملی طورپر انھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ انھوں نے کھلے عام ایسے کام کئے ہیں جو آئین کا حلف لینے والا کوئی وزیراعلیٰ کرہی نہیں سکتا۔ سب کے ساتھ بلاتفریق مذہب وملت انصاف کرنے کا ان کا دستوری عہد فریب ثابت ہوا ہے۔ انھوں نے کھلے عام مسلمانوں کو فسادیوں اور دہشت پسندوں سے تشبیہ دی ہے۔ یہاں تک کہ اپنے چناؤی پروپیگنڈے کے لیے جو مہنگے اشتہارات جاری کئے ہیں، ان میں سے بعض اشتہاروں میں مسلمانوں کو فسادیوں کے طورپر پیش کرنے میں بھی انھیں کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی۔
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ وکاس کے نام پر چناؤ لڑنے کا زبانی دعویٰ کرنے کے باوجود ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ انھیں اکثریتی فرقہ کازیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل ہوجائے، لیکن یہ ان کی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ ان سے سماج کا ہرطبقہ ناراض ہے۔ ان کے دوراقتدارکا سب سے تلخ تجربہ عوام کو گزشتہ سال اس وقت ہوا جب کورونا وبا کی وجہ سے پورے صوبے میں ہا ہاکار مچی ہوئی تھی۔خطرناک وباکے شکار لوگ دردر بھٹک رہے تھے اور انھیں کہیں جائے اماں نہیں مل رہی تھی۔سرکاری اسپتالوں کا سب سے براحال تھا۔ وہاں نہ بیڈ تھے، نہ آکسیجن، نہ دوائیاں تھیں اور نہ ویکسین۔ یہاں تک کہ اس وبا کا شکار ہوکر جان دینے والوں کی آخری رسومات کا بھی کوئی بندوبست نہیں تھا۔لوگ اپنے اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر شمشان گھاٹوں کے چکر کاٹ رہے تھے۔ حالانکہ یہ وہی سرکار تھی جس نے کہا تھا کہ پچھلی سرکار نے سرکاری پیسہ قبرستانوں پر خرچ کیا تھا جبکہ ان کی سرکار نے شمشان گھاٹ بنوائے ہیں، لیکن جب ضرورت پیش آئی تو شمشان گھاٹوں کا کوئی اتہ پتہ ہی نہیں تھا۔بے حسی کی انتہا یہ تھی کہ سینکڑوں لاشیں گنگا کے ساحل پر تنکوں کی طرح بہہ رہی تھیں اور سرکاری مشنری ان کی پردہ پوشی کررہی تھی۔اس سرکاری بدنظمی سے لوگ اتنے بیزار ہوئے کہ انھوں نے حکمراں جماعت کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بی جے پی نے ’گڈگورننس‘ کے نام پر ووٹ مانگ کر بدترین حکمرانی کا ثبوت پیش کیا۔یوگی کواس الیکشن میں اپنی شکست صاف نظر آرہی ہے اوریہی وجہ ہے کہ ان کی پارٹی میں بھگدڑمچی ہوئی ہے۔ غیراوبی سی طبقہ کے لیڈر سوامی پرساد موریہ نے سمیت تین وزیروں نے یوگی کابینہ سے مستعفی ہوکر سماجوادی پارٹی کا دامن تھام لیاہے۔بی جے پی کے ایک درجن سے زائدممبران اسمبلی سماج وادی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے تیاربیٹھے ہیں۔
اپنے پیروں تلے سے نکلتی ہوئی زمین کو سنبھالنے کے لیے یوگی نے اپنا پسندیدہ ’ہندو کارڈ‘کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے، مگروہ بھی اس کے کام آتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔وزیراعلیٰ یوگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپناکام سلیقے سے انجام دینے کاہنر بھی نہیں جانتے۔انھوں نے بہت ہی بھونڈے انداز میں سماج کو مذہب کے خانوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ وہ ہندتو ایجنڈے کے پیروکار ہیں، لیکن ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کی جلدی میں معمولی شرم وحیا کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ان کی پارٹی کا نعرہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ ہے۔ جب ان کی پارٹی کے لیڈر یہ نعرہ لگاتے ہیں تووہ اس میں سماج کے ان طبقوں کو بھی شامل کرتے ہیں جو ان کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہیں۔ زیب داستاں کے لیے
مسلمانوں کو بھی اس میں شامل کیا جاتا ہے، لیکن اب انھوں نے کھلے عام مسلمانوں اور ہندوؤں کو 80فیصدبنام 20فیصدکے خانوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے کی مذموم کوشش کی ہے،لیکن اس میں بھی انھیں کامیابی ملتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ چناؤ کی ابتداء میں ہی ان کی عمارت کی اینٹیں نکلنا شروع ہوگئی ہیں۔
اس موقع پر سب سے بڑی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے کہ وہ فرقہ وارانہ صف بندی کھلی کودعوت دینے والی اس قسم کی کوششوں کا نوٹس لے، کیونکہ بی جے پی کے لیڈران اپنی عادت سے مجبور ہیں اور وہ انتخابی میدان میں ہندو کارڈ کھیلنے سے باز نہیں آئیں گے۔ لیکن اگر وہ اپنی پراگندہ ذہنی کا نشانہ مسلمانوں کو بنائیں گے تو اس کے خلاف لازمی طورپر احتجاج ہو گا اور انھیں یہ باور کرایا جائے گا کہ مسلمان سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں ہیں کہ جب جو چاہے ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالے اور وہ خاموش تماشائی بنے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔