وجود

... loading ...

وجود

مر۔ری

جمعه 14 جنوری 2022 مر۔ری

دوستو، کالم کے عنوان سے آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ ہم بھی روایتی کالم نگاروں کی طرح سانحہ مری سے متعلق انسانیت سوز واقعات لکھ کر آپ کو مغموم کردیں گے۔۔ اتوار کے روز سے نیشنل میڈیا ہو یا ورقی و برقی میڈیا، یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر مسلسل مری کے حوالے سے نت نئی خبریں اور ٹینشن والی چیزیں سامنے آرہی ہیں۔۔ مری واقعہ کے بعد ہمارے باباجی نے بالکل سوفیصد درست کہا کہ۔۔ہم بے حس قوم ہمیشہ کسی سانحہ کے بعد ہی جاگتے ہیں۔۔ ملک کے بڑے کالم نگارہوں یا بڑے بڑے اینکرز سب ہی اپنی اپنی جگہ مری کا رونا رو رہے ہیں۔۔اور حکمران طبقہ ’’مری بیوریجز‘‘ کے مشروب کا استعمال کرتے ہوئے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے۔۔انہیں یہ خوشی تو ہے کہ ایک لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوگئیں لیکن مری بیوریجز کے مشروبات کے زیراثر انہیں اس بات کا اندازہ نہ ہوسکا کہ یہ ایک لاکھ گاڑیاں پارک کہاں ہوں گی؟ اس میں سوار لوگ کہاں شب بسری کریں گے؟
مری کا نام سنتے ہی ہمیں اپنا بچپن یاد آجاتاہے،ہماری ٹیچر کہا کرتی تھیں کہ کبھی بھی برے الفاظ منہ سے نہ نکالا کرو، فرشتے آمین کہتے ہیں۔۔ ہم نے گھر آکر اپنی ماں سے ٹیچر کے کہے کی تصدیق چاہی تو امی حضور نے بھی اس پر اپنی مہر ثبت کردی،جس کے بعد ہمارے ذہن میں بیٹھ گیاکہ برے الفاظ منہ سے نہ نکالو۔۔ اگلے دن اسکو ل کی بریک میں ہمارے ایک کلاس فیلو نے پوچھا، تمہیں کس علاقے کی سیر کا دل چاہتا ہے، سب نے اپنے اپنے فرمائشی پروگرام سے آگاہ کیا، ہماری باری آئی تو ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔ اللہ کرے میں مری جاؤں۔۔۔بس پھر کیا تھا،ہمارے تمام کلاس فیلوز نے بریک ختم ہونے کے فوری بعد کلاس ٹیچر کو ہماری شکایت لگادی۔ٹیچر نے ہمیں کلاس میں کھڑا کردیا اور پوچھا کہ واقعی ایسا کہا تھا۔۔ ہم نے اثبات میں گردن ہلادی اور کہا، یس ٹیچر، یہی کہا تھا۔۔ٹیچر کا پارہ اچانک ہائی ہوگیا،غصے میں بولیں۔ کل میں نے کیا سمجھایا تھا،کبھی برے الفاظ منہ سے نہ نکالاکرو، فرشتے آمین کہتے ہیں۔۔ ہم نے کہا، یس ٹیچر،بالکل یہی کہا تھا ، لیکن ہم نے کوئی برے الفاظ منہ سے نہیں نکالے، ہم نے تو پنجاب کے شہر ’’مری‘‘ جانے کی خواہش کا اظہارکیاتھا۔۔ جب ٹیچر کو ہمارے جملے کی سمجھ آئی تو وہ بھی بے ساختہ ہنس پڑیں۔۔ اور ہمیں بٹھادیا۔۔
کسی نے ایک حسین دوشیزہ سے سوال کیا، شادی کے بعد تم کیسی ساس چاہتی ہو؟ وہ بولی۔۔ ساس چنگی ہووے یا اودی فوٹو دیوار تے ٹنگی ہووے۔۔کہتے ہیں کہ عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے۔۔آپ اپنے اطراف کا جائزہ لے لیں، یہ شوہر کی خفیہ گرل فرینڈ تو برداشت کرلیتی ہیں لیکن سوکن کبھی برداشت نہیں کرسکتیں۔۔باباجی فرماتے ہیں، زمانہ قبل از مسیح سے لے کر آج تک عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ساس،بہو کا تو چھتیس کا آکڑا ہے، ان کی کبھی نہیں بنتی،پہلے ساس بہو پر حاوی ہوتی تھیں اور آج بہوئیں ساس پر حاوی ہوتی ہیں، بات دراصل یہ ہے کہ عورت خواہ وہ ماں اور بہن کی شکل میں ہو یا پھر ساس اور بہو کی روپ میں وہ ہر صورت میں انتہائی تنگ نظر واقع ہوئی ہیں،دوسروں کے حقوق تو انہیں بالکل یاد نہیں رہتے لیکن جب کوئی دوسرا ان کے حقوق کی ادائیگی میں کچھ کمی بیشی کردے، تو یہ آسمان سر پر اٹھالیتی ہیں، ان کی زبانوں پر شکایتوں کے انبار لگ جاتے ہیں، ناشکری کی انتہا ہو جاتی ہے، ہمیشہ اپنی بیوی کے نان و نفقہ کا خیال رکھنے والا شوہر اگر ایک دفعہ بھی کسی مجبوری کی بناپر اہلیہ کی مانگ پوری نہیں کرپایا،تو بیوی کی زبان قینچی کی طرح چلنے لگتی ہے کہ آپ نے میری لیے پوری زندگی کیا کیا ہے، زندگی بھر تو آپ سے دکھ اور تکلیف ہی ملی ہے، کبھی آپ کے ساتھ چین کی زندگی نصیب نہیں ہوئی وغیرہ وغیرہ۔۔اسی طرح اپنی ماں کا ایک فرمانبردار اور اطاعت گذاربیٹا اگر شادی کے بعد بیوی کو تھوڑی زیادہ توجہ دے دے، تو ماں طعنے دینا شروع کردیتی ہیں کہ ہاں ہاں اب تو تیری شادی ہوگئی نا!اب تو مجھے وقت کیوں دیگا؟، اب تو تمہارے لیے جو کچھ ہے،وہ تمہاری بیوی ہے۔۔
ساس ہو یا بہو، فی زمانہ ہمارے خیال میں دونوں ہی دل ہی دل میں ایک دوسرے کو مخاطب کرکے کہتی ہوں گی۔۔مر۔ری۔۔۔ان دونوں فریقوں کے درمیان شوہر بے چارہ سینڈوچ بن کر رہ جاتا ہے۔زیادہ تر گھرانوں میں ساس نامی شخصیت،نئی نویلی دلہن کو اسی قسم کے لفظی نشتر چبھوکر اپنی ’’زنانہ بھڑاس‘‘ نکالتی ہے۔ساس کے قلب و ذہن میں اپنی ہم صنف کی دشمنی اس کی کم عمری کے باعث پلتی ہے یا اس کے حُسن وجمال سے حسد کی وجہ سے پروان چڑھتی ہے، اس ضمن میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ساس، بہو کے لئے ایک بھیانک وجود ثابت ہوتی ہے جو بہو کی دشمنی میں اتنی آگے نکل جاتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا گھر برباد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ ایسے میں ہر ذی شعور دلہن ساس کے زہریلے جملے ہنس کر برداشت کرتی ہے اور اسی تحمل کے باعث وہ اپنا گھر ٹوٹنے سے بچا پاتی ہے۔ اصولی طور پر اگر دیکھا جائے تو لڑکے کے گھر والوں اور رشتہ داروں کو اس طرح کے جملے شادی کے بعد نہیں کہنے چاہئیں کیونکہ اس لڑکی کو وہی گھر والے اپنے بیٹے کے لیے پسند کر کے لاتے ہیں۔۔ہمارے ایک دوست بتارہے تھے کہ ۔آج بیگم اور ماں کے بیج زبردست جھگڑا ہوگیا اور ہم بیچ میں پھنس گئے ماں کی سائیڈ لو تو بیگم ناراض۔۔ اور بیگم کی لو تو ماں ناراض ۔۔پھر اچانک ماں نے ایک ایسا جملہ کہہ دیا جس سے ایک دم خاموشی چھا گئی اور میری ساری ہمدردیاں ماں کی طرف ہوگئیں آپ بھی سن لیں وہ جملہ۔۔پتر تو دفعہ کر اس چڑیل نوں میں تیرا دوسرا ویاہ کرانی آں۔۔ایک دوست نے اسٹیٹس اپڈیٹ کیا۔۔زوجہ کی طبیعت خراب ہے، دعاؤں کی درخواست ہے۔۔ہم نے کمنٹس میں جاکردعا دے دی۔۔اللہ کریم شفاکاملہ عاجلہ عطافرمائے۔۔ دوست نے جواب دیا۔۔ دعاؤں کی گزارش کی تھی۔۔ہم چونکہ پٹھان ہیں اس لیے اپنے دوست کا جملہ اگلے روز جاکر سمجھ آیا،اور ہم اس باریک جملے کا کافی دیر تک لطف اٹھاتے رہے۔۔ باباجی سے کسی نے پوچھا۔۔گھڑی اور بیوی میں کیا قدر مشترک ہے؟باباجی مسکراکرکہنے لگے۔۔گھڑی بگڑ جائے تو رک جاتی ہے۔بیوی بگڑ جائے تو شروع ہو جاتی ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔باباجی کہتے ہیں، ہم بحیثیت قوم ’’مری‘‘ والے ہی ہیں بس برف باری ہونے کی دیر ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر