وجود

... loading ...

وجود

نئے بلدیاتی قانون کے خلاف ، جماعت اسلامی، کراچی کا دھرنا

پیر 10 جنوری 2022 نئے بلدیاتی قانون کے خلاف ، جماعت اسلامی، کراچی کا دھرنا

 

پاکستان کی احتجاجی سیاست میں دھرنا متعارف کروانے کا سہرا تو بلاشبہ جماعت اسلامی کے سر ہی بندھتاہے۔ لیکن ماضی گواہ ہے کہ فقط دو ،چار احتجاجی دھرنوں کے ناکام ہونے کے بعد ہی جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو احساس ہوگیا تھا کہ صرف’’ دھرنا سیاست ‘‘کے بل بوتے پر خاطر خواہ سیاسی فوائد حاصل نہیں کیے جاسکتے ۔جبکہ یہ احتجاجی طرز سیاست صرف ملک کے لیے ہی نہیں بلکہ خود اُن کے کارکنان کے لیے بھی سخت باعث زحمت ثابت ہوا ہے۔ لہٰذا، ایک مدت ہوئی جماعت نے دھرنا طرزِ سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تیاگ دیا ہوا تھا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے بعد ’’دھرنا سیاست‘‘ کے میدان میں جن سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی دھرنے کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف اور مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی، اُنہیں بھی اپنی پیشرو جماعت اسلامی کی مانند ہر بار شدید مایوسی اور زبردست ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا اور زیادہ تر سیاسی و مذہبی دھرنوں کا اختتام ’’ سیف سیونگ‘‘کے خطرناک موڑپر جاکر ہوا۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں ’’دھرنا سیاست ‘‘وقتی طور پر مقبول ہونے کے باوجود کچھ زیادہ موثر’’طرز ِ احتجاج‘‘ ثابت نہیں ہوسکی ۔
ہماری دانست میں اس حقیقت کا سب سے زیادہ ادراک جماعت اسلامی سے زیادہ کسی دوسری سیاسی جماعت کو ہوبھی نہیں سکتا،کیونکہ جماعت اسلامی نے فقط اپنے ناکام دھرنے ہی نہیں بھگتائے ہیں ،بلکہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے احتجاجی و انقلابی دھرنوں کی عبرت ناک ناکامیوں کو بھی بہت قریب سے ملاحظہ کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود ، امیر جماعت اسلامی کراچی ،جناب حافظ نعیم کی قیادت میں سندھ اسمبلی کے باہر دیا جانے والا احتجاجی دھرنا ایک ہفتے کی نفسیاتی حدکو عبور کرچکاہے اور سخت سرد موسم کے باوجود بھی دھرنے کے شرکاء کی جانب سے ابھی تک کوئی ایسا اشارہ ظاہر نہیں کیاجارہا ہے ،جس سے یہ پیش گوئی کی جاسکے کہ اگلے ایک ،دو روز میں اس دھرنے کی بساط منتظمین کے جانب سے رضاکارانہ طور پر لپیٹ دی جائے گی ۔ بلکہ امیر جماعت اسلامی کراچی ، حافظ نعیم نے دھرنے سے کیے گئے اپنے تازہ ترین خطاب میں اس بات کا ایک بار پھر سے اعادہ کیا ہے کہ ’’وہ اپنے مطالبات کے تسلیم کیے جانے تک دھرنے کو ختم نہیںکریں گے‘‘۔
خدالگتی تو یہ ہے کہ امیر جماعت اسلامی کراچی ، اپنے ہزاروں کارکنان اور عام افراد کے ہمراہ سندھ حکومت کے منظور کردہ نئے بلدیاتی قانون کی جن شقوں میں ترمیم یا تنسیخ کے لیے سندھ اسمبلی احاطے میں دھرنا دے رہے ہیں ، اُن میں سے کم و بیش تمام مطالبات، صرف جائز ہی نہیں بلکہ اس قابل بھی ہیں کہ اگر سندھ حکومت کو کراچی کے شہریوں کو درپیش سیاسی و انتظامی تکالیف کا ذرہ برابر بھی احساس ہوتو وہ دھرنے میں پیش کردہ مطالبات کو تسلیم کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیرسے بھی کام نہ لے۔ یعنی صوبے بھر میں نافذ العمل نئے بلدیاتی قانون کے خلاف بھرپور احتجاج کا راست جواز تو بہر صورت جماعت اسلامی کراچی کے پاس موجود ہے لیکن بدنام زمانہ ’’دھرنا سیاست‘‘ کو کراچی کو اس کے اصل حقوق واپس دلانے کے لیے اس لیے ایک درست سیاسی اقدام ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتاکہ دھرنے کا نام آتے ہی ایک عام پاکستانی کے ذہن میں توڑپھوڑ، جلاؤ گھیراؤاور قتل و غارت گری کی بدنما تصویریں گھومنے لگتی ہیں ۔
حالانکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی، کراچی کا سندھ اسمبلی کے باہر دیا جانے والا مذکورہ احتجاجی دھرنا نہ صرف مکمل طورپر پراَمن ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے معین کردہ سیکورٹی حصارتک محدود بھی ہے ۔مگر اس کے باوجود اس اندیشے کو تو خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ بعض شر پسند عناصر محفوظ سیکورٹی حصار کو توڑ کر دھرنے میں گھس کر فتنہ و فساد پھیلانے پر قدرت نہیں رکھتے ؟چونکہ وطن عزیز پاکستان خطے کی پل پل بدلتی صورت حال کے باعث ملک دشمن عناصر کی نظربد میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے ۔ اس لیے ایسے دھرنے نما احتجاج جو وقت کے قید سے آزاد ہوں ، کبھی نہ کبھی شرپسند عناصر کے مذموم عزائم کو پورا کرنے کے لیے ایک ’’تاریک موقع‘‘ ضرور بن سکتے ہیں ۔ لہٰذا ، امیر جماعت اسلامی کراچی ، حافظ نعیم کے کاندھوں پر یہ دُہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئے بلدیاتی قانون کے خلاف مؤثر احتجاج بھی کریں لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائیں کے اُن کے پراَمن احتجاج کو کوئی تیسری قوت کراچی شہر کا امن و اَمان تاراج کرنے کے لیے استعمال نہ کرسکے۔
دوسری جانب جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے سندھ اسمبلی کے باہر جاری دھرنے کے معاملے پراسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کا بیان بھی بڑا معنی خیز ہے ۔جس میں انہوں نے امیر جماعت اسلامی کراچی ،حافظ نعیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ جماعت اسلامی کراچی کے دھرنے سے ایوان کا تقدس پامال ہو رہا ہے، کیونکہ یہ وہ اسمبلی ہے جہاں قائد اعظم نے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا تھا،نیز اسی اسمبلی نے قرار داد پاکستان پاس کی تھی، جبکہ اس میں پہلے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان بھی بیٹھے تھے۔ ویسے بھی جماعت اسلامی کو سندھ سیکرٹریٹ جانا چاہیے اور دھرنا دینا چاہیے، کیونکہ سندھ کی صوبائی حکومت وہاں ہے، یہاں نہیں ‘‘۔
دراصل آغاسراج درانی ، جماعت اسلامی کراچی کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے کی ترغیب دے رہے ہیں اور اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو اُن کی تجویز پر عمل پیرا ہونے میں کوئی خاص قباحت بھی نہیں ہے بلکہ زیادہ بہتر ہوگا کہ جماعت اسلامی کراچی ،نئے بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ اسمبلی کے ساتھ ساتھ، وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ کے باہر بھی اپنا احتجاج کرے اور سندھ اسمبلی کے باہر بھی وقتاً فوقتا ً اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی رہے ۔ بس ! خیال ایک بات کا رکھنا ہوگا کہ ہر احتجاج بڑا اور موثر تو چاہے جتنا ہو لیکن زیادہ طویل نہیں ہونا چاہیے تاکہ ملک دشمن عناصر سیاسی احتجاج کی آڑ میں اپنے مذموم اہداف کو حاصل نہ کرپائیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر