... loading ...
پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات اور خطے کے امن میں دونوں ممالک میں ہونے والی سیاست کا بھی اہم کردار ہے ایک پراسرار شخص بھارت کی سیاست میں غیر محسوس انداز میں حیرت انگیز طور پر انتخابی نتائج پر حاوی ہے بھارتی سیاست کے اندورون خانہ اور پس پردہ معاملات کا جائزہ لینے والے بیشتر بھارتی اور غیرملکی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ بھارتی بنگال میں ہونے والے عام انتخابات میں بنگال کی وزیر اعلٰی ممتا بنرجی اور ان کی سیاسی جماعت ترمول کانگریس کی بھاری اکثریت سے کامیابی میںپرشانت کشور اور ان کے ادارے اندین پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کا انتہائی اہم کردار تھا بھارت کے ایک موقر جریدے نیشنل ہیرالڈکے مطابق گذشتہ سات سالوں سے زائد عرصے سے بھارتی سیاست میں پرشانت کشور کانام گونج رہاہے بعض لوگ اسے پی کے کے نام سے بھی پکارتے ہیں اس نے 2014 میں بھارتی جنتا پارٹی کی کامیاب انتخابی مہم چلائی اور نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا2015بہار کے وزیر اعلٰی نتیش کمار کی کامیاب مہم چلاکر انہیں وزیر اعلٰی کے مقام تک پہنچایا جس کی امید کم تھی بھارتی پنجاب میں کیپٹن امریندر سنگھ،آندھرا پردیش میں جگن موہن ریڈی جبکہ تامل ناڈو میں ڈی ایم کے کے سربراہ ایم کے اسٹالن کو کامیب بناچکے ہیں یہ پرشانت کشور کی جادوگری تھی کہ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کو انتہائی بلند مقام پرپہنچا دیا دوسری جانب بی جے پی کی انتہائی مخالف سیاسی جماعت ترمول کانگریس کو شدید ترین رکاوٹوں کے باوجود شاندار اور حیرت انگیز جیت سے ہمکنار کرایامزید حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی ان کے صاحب زادے راہول گاندھی اور صاحب زادی پر یانکا گاندھی سے بھی اچھے مراسم ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی مراسم ہیں اس بات کا امکان ہے کہ بنگال میں بری طرح ناکامی کی وجہ سے وہ اب پرشانت کشور سے پہلے کی طرح خوش نہیں ہونگے ۔
بھارتی سیاست میں پرشانت کشور کے عمل دخل کا آغاز بھی انتہائی پر اسرار نوعیت کا ہے وہ 2011میں اقوام متحدہ میں کام کر رہے تھے انہوں نے گجرات کی غربت اور عام لوگوںکے لیے خوراک کی کمی کے بارے میں ایک دستاویز تیار کی جس کی اشاعت کے بعد انہیں بھارت بلا کر اس وقت کے وزیر اعلٰی نریندر مودی سے ملواکر ان کی ٹیم میں شامل کرایا گیا ،آہستہ آہستہ وہ نریندر مودی کے قریب ہوگئے انہوں نے 2014 کی پوری انتخابی مہم اور سیاسی حکمت عملی تیار کی اس حکمت عملی کا نتیجہ یہ تھا کہ بی جے پی بھارت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی صورت میں سامنے آئی اس وقت انہوں نے ایک ادارہ تشکیل دیا جس کا نام سٹیزن فار اکائونٹیبل گورنینس تھا اس کے بعدنام تبدیل کرکے انڈین پولیٹیکل ایکشن کمیٹی رکھ دیا گیا پرشانت کشور نے دہلی کے وزیراعلٰی اروند کیجری وال کی انتخابی مہم چلائی اور ایسے وقت میں ان کی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی کو کامیابی دلوائی جب بی جے پی کے سیاسی طوفان نے پورے بھارت پر غلبہ حاصل کرلیا تھا ان کا اہم ترین کارنامہ ممتا بنرجی کی جماعت کو کامیابی دلوانا تھا ،یہ وہ وقت تھا جب بنگال کے لوک سبھا(مرکزی اسمبلی) کے انتخابات میں ترمول کانگریس کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی تھی اور بی جے پی نے بنگال فتح کرنے کی مکمل تیاریاں کرلی تھیں ابھی صوبائی انتخابات کا اعلان بھی نہیں ہواتھا کہ ترمول کانگریس کو توڑنے اور ان کے اہم رہنما ئو ںکو بی جے پی میں شامل کرنے کا عمل شروع کردیاانتخابی مہم کے آغازسے ہی مذہبی جذبات کو ہوا دی گئی بی جے پی کے کئی وفاقی وزراء جس میں وفاقی وزیر داخلہ اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ کے علاوہ کئی صوبائی وزراء اعلٰی اور ان کی کابینہ کے کئی اراکین نے اپنے صوبوں کو چھوڑ کر بنگال میں ڈیرے ڈال دیے، ملک بھر سے بی جے پی کے کارکن ٹرینوں اور بسو ں میں بھرکر بنگال پہنچ گئے، ہندوتوا کے نام پر فسادات کرائے گئے ترمول کانگریس کے کے کارکنوں کو تشددکا نشانہ بنایاگیا خود وزیر اعظم نریندر مودی میدان میں اتر آئے اور انہوں نے نہ صرف بنگال میں کئی جلسوں سے خطاب کیا بلکہ ممتا بنرجی کا ان جلسوں میں مذاق اڑایا گیا وہ ممتا بنرجی کو کبھی ممتاز بیگم کہتے کبھی دیدی او دیدی کہتے اور کہتے کہ تم بری طرح ہار گئی ہو 100 نشستیں بھی جیت نہیں سکتیں،پورا بھارتی میڈیا بی جے پی کی کامیابی کی پیش گوئی کرنے لگالیکن جب پرشانت کشور سے مختلف ٹی وی شوز میں نتائج کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر بی جے پی سو نشستوں تک پہنچ گئی تو وہ اپنے کام سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہوجائیں گے۔
نتائج کے مطابق ترمول کانگریس نے 292 میں سے 215 پر کامیابی حاصل کی بی جے پی اور ان کے اتحادیوں نے 77پر کامیابی یعنی وہی کچھ ہوا جس کی نشاندہی پرشانت کشور نے کی تھی فی الوقت پرشانت کشور نے اپنے ادارے سے خودکو علیحدہ کرلیا ہے پرشانت کشور نے بنگال کے الیکشن کے بعد سونیا گاندھی،راہول گاندھی ،پریانکا گاندھی اور کانگریس کی مرکزی قیادت سے تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے ایک فارمولا پیش کیاوہ کانگریس میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن اس فارمولے کو منوانے میں ناکامی کے بعد انہوں نے کانگریس میں شمولیت کا خیال ترک کردیا اس وقت وہ خاموشی سے حالات کا جائزہ لے رہے ہیںان کا کہنا ہے کہ کانگریس 1985 کے بعد سے زوال پذیر ہے اس کے تنظیمی ڈھانچے اور فیصلہ سازی کے طریقہ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے اس وقت عارضی قیادت سے کام نہیں چلے گا مقامی سطح پر پارٹی کے عہدیداروں کو اختیار دینا ہوگا اور فیصلہ سازی کے عمل کو تیز رفتار بنانا ہوگا دہلی میںقیادت کی مرکزیت کو نچلی سطح تک لانا ہوگا اس وقت پرشانت کشور خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں لیکن آئندہ انتخابات تک وہ ضرور کوئی نیا گل کھلائیں گے جو بھارت کی سیاست میں ایک بڑا دھماکہ بھی ہو سکتا ہے جس کے اثرا ت پاکستان اور خطے پر بھی ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔