... loading ...
آج سے100 سال پہلے1921 دسمبر کی یخ بستہ آخری تاریخ کو ایک برطانوی رائٹر رابرٹ نے اپنی ڈائری میںبڑی یاسیت کے ساتھ تحریرکیا تھا کہ دوبارہ جب کیلنڈر پر اکیس کا ہندسہ آئے گا تو یقینا آپ ہونگے نہ میں ہونگا” کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ میں 31دسمبر2021تک زندہ رہوں اگر ایسا ہوگیا تو پھر یہ معجزہ ہی ہو سکتا ہے پھر مزید لکھا کاش عمر اتنا تو لحاظ رکھ لے کہ میں دوبارہ یہ ہندسہ دیکھ سکوں” یاان لوگوں کو دیکھ سکوں جو 2022 میں ہونگے” اس زمانے کو دیکھ سکوں”جو 2022 میں دوراں ہوگا” مگر میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہے” تب تلک ہماری قبریں تک گمنام ہوچکی ہونگی” معلوم نہیں ہمارے عزیزو اقارب،بچے یاپھر پوتیاں پوتے ان قبروںپرچار پھول چڑھائے آتے بھی ہیں یا نہیں ایسا تو ہوتاہے کہ لوگ اپنے پیاروںکوبھلاکردنیاکی رنگینیوںمیں کھو جاتے ہیں نامور شاعر ساحر لدھیانوی جب بستر مرگ پر تھے،،، تو بند آنکھوں اپنے ڈاکٹر سے کہا ” ڈاکٹر کپور میں جینا چاہتا ہوں” زندگی نے بیشک غم دیے ہیں” مگر دنیا خوبصورت جگہ ہے” یہاں یاروں کی محفلیں ہیں” یہاں زندگی کا شور ہے” میں جینا چاہتا ہوں ڈاکٹر کپور” ہرسال 31دسمبر کو تاریخ بدل جاتی ہے کبھی کبھار تو صدی بھی بدل جاتی ہے ” 21 کا ہندسہ جب سو سال بعد دوبارہ آئے گا” تو دوستوں یقینا ہم میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا” ہماری قبریں قبرستان کے گنجان حصے میں ہونگی” کچھ دھنسی ہوئی، کچھ دبی ہوئی” کچھ بے نشان ۔۔کچھ حسرت ویاس کی آماجگاہ یاپھر عبرت کی جا ،خوف میں ڈوبے ہوئے قبرستان کاایک گوشہ۔۔ہمارا روزانہ قبرستانوں سے گذرنے کااتفاق ہوتاہے دنیامیں ہم پل پل یادگاربنانے کے لیے لاکھ جتن کرتے ہیں ماحول کی ہر رنگینی انسانوںکے دم قدم سے ہے لیکن سامنے کی بات دکھائی نہیں دیتی لہذا کوشش کریں” کہ دنیا جسے فانی کہاگیاہے یہاں ہمارا مختصر سا قیام خوشگوار گزر جائے” کوئی روح، کوئی جسم، ایسا نہ ہو جو زخم ساتھ لیجائے” اور ان زخموں کا الزام ہمارے سر ہو” کہیں زبان سے کوئی دکھی نہ ہو اور کہیں کوئی ہمارے ہاتھ سے کی لغزشوں سے ظلم کا شکارنہ ہوجائے، اس کا مداوا ممکن ہی نہیں کیونکہ غوروفکرسے کئی گتھیاں سلجھتی ہیں کبھی سوچیں،غورکریں جیسے جیسے ہماری عمر میں اضافہ ہوتا جاتاہے مجھے سمجھ آتی گئی کہ اگر میں 3000 روپے کی گھڑی پہنوں یا 30000 کی یا ہزاروںپائونڈ ڈائمنڈ کی گھڑی، دونوں وقت ایک جیسا ہی بتائیں گی۔۔!سوچیں اگر آپ کے پاس 3000 کا بیگ ہو یا 30000 روپے کا، اس کے اندر رکھی ہوئی چیزیں تبدیل نہیں ہوں گی۔۔ ! یاپھرمیں 3 مرلے کے مکان میں رہوں یا3 کنال کے مکان میں، اگر میں اکیلا ہوں تو سب کی طرح تنہائی کا احساس ایک جیسا ہی ہوگا۔۔ ! آخر میں مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ اگر میں بزنس کلاس میں سفر کروں یا اکانومی کلاس میں، میں اپنی منزل پر اسی مقررہ وقت پر پہنچوں گا۔۔ ! اس لیے اپنی اولاد کو مالدار ہونے کی ترغیب مت دو بلکہ ان کو یہ سکھاؤ کہ وہ خوش کس طرح رہ سکتے ہیں اور جب بڑے ہوں تو چیزوں کی قدر کو دیکھیں قیمت کو نہیں۔ دل میں دنیا سے نہ لگاؤ کہ وہ فانی ہے، اپنی اولادکو انسانیت سے محبت کی تلقین کریںدوسروںکے دکھ درد میں شرکت کی نصیحت کریں کسی کے دکھوںکا مداوا بننے میں عجب لطف ہے آخرت کی فکرکرنے والا بنائیںکیونکہ وہ باقی رہنے والی ہے۔ فرانس کا ایک وزیر تجارت کہتا تھا؛
برانڈڈ چیزیں مارکیٹنگ کی دْنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہوتی ہیں جنکا مقصد تو امیروں سے پیسہ نکلوانا ہوتا ہے مگر غریب اس سے بہت متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔
کیا یہ ضروری ہے کہ میں آئی فون اْٹھا کر پھروں تاکہ لوگ مجھے ذہین اور سمجھدار مانیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ کسی مشہور فرنچائزکابرگر کھاؤں تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں کنجوس ہوں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ دوستوں کے ساتھ کسی مہنگے Cafe پر جا کر لگایا کروں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں خاندانی رئیس ہوں؟
کیا یہ بھی ضروری ہے کہ میں دینا کے مشہور برانڈ سے کپڑے لیکر پہنوں تو جینٹل مین کہلایا جاؤں گا؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں اپنی ہر بات میں دو چار انگریزی کے لفظ ٹھونسوں تو مہذب کہلاؤں گا؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں دوسروں کو یہ ثابت کر نے کے لیے ترقی یافتہ ہو چکا ہوں؟ اتراتاپھروںیا نمائش کرتارہوں کبھی کبھارتو یہ چل جائے گا لیکن ایسی عادت والوںکولوگ اچھانہیں سمجھتے۔ماضی میں وہ کتنے عظیم لوگ تھے جن کے کپڑے عام دکانوں سے خریدے ہوئے ہوتے تھے مگر آج دنیا ان کی مثالیں دیتی ہے جو دوستوں کے ساتھ کسی تھڑے پر بھی بیٹھ جاکرخوش گپیاں مارتے ہیں وہ کیسا دلکش ماحول ہوگا جب بھوک لگے تو کسی ٹھیلے یا ڈھابے والے سے لیکر کھانے میں بھی عار نہیں سمجھتا، اپنی سیدھی سادی زبان بولنے والے کسی سے مرعوب نہیں ہوتے۔کبھی سوچاہے کہ شاید نہیں یقینا ہمارے آس پاس ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو برانڈڈ ایک قمیص کی قیمت میں پورے ہفتے کا راشن لے سکتے ہیں۔ہمارے گلی محلوںمیں نے ایسے خاندان بھی ہیںجو آپکے ایک برگر کی قیمت میں سارے گھر کا کھانا بنا سکتے ہیں۔ ایک کیک کی قیمت میں پیٹ بھرکرکھانا کھاسکتے ہیں بس یہی رازہے جسے انسانیت کی بے لوث خدمت کا نسخۂ کیمیا بھی کہاجاسکتاہے جس نے بھی ہی رازپالیا وہ کامران و کامیاب ہوگیا ،سب سے بڑا راز تویہ ہے کہ پیسے سب کچھ نہیں، جو لوگ ظاہری حالت سے کسی کی قیمت لگاتے ہیں وہ فورا اپنا علاج کروائیں۔ انسان کی اصل قیمت اس کا اخلاق، برتاؤ، میل جول کا انداز، صلہ رحمی، ہمدردی اور بھائی چارہ ہے کسی ظاہری شکل و صورت دیکھ کر کسی قسم کا کوئی اندازہ نہ لگائیں کیونکہ آج سے100 سال پہلے1921 دسمبر کی یخ بستہ آخری تاریخ کو ایک برطانوی رائٹر رابرٹ نے اپنی ڈائری میںبڑی یاسیت کے ساتھ تحریرکیا تھا کہ دوبارہ جب کیلنڈر پر اکیس کا ہندسہ آئے گا تو یقینا آپ ہونگے نہ میں ہونگا” زندہ وہی ہے جسے مرنے کے بعدبھی لوگ یادکریں بہت سے لوگ تاریخ میں،کتابوںمیں،ہمارے گلی کوچوںمیں اور ہماری یادوںمیں
زندہ ہیں جن میں سے بیشترکو ہم نے دیکھابھی نہیں لیکن ان کی مثالیں ہم ہرروز دیتے رہتے ہیں توپھر زندہ تو وہ ہیں اور ہم کیاہیں چلتی پھرتی جیتی جاگتی لاشیں لالچ،جھوٹ،دغا، ظلم،بداخلاقی جن کی شخصیت پر حاوی ہے کاش ہم بھی یہ راز جان پائیں کہ زندہ وہی ہے جسے مرنے کے بعدبھی لوگ یادکریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔