وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان کے معدنی ذخائر،معاہدات اور حق اختیار

بدھ 05 جنوری 2022 بلوچستان کے معدنی ذخائر،معاہدات اور حق اختیار

دراصل بلوچستان اور وفاق کے درمیان تنازع اول روز سے حق اختیار کا چلا آرہا ہے ۔و سائل سے ملنے وا لا قلیل حصہ، محدود قانونی و آئینی تصرف اورنمایاں حصہ سے محرومی کا احساس قیام پاکستان سے اب تک مختلف ادوار میں پانچ شورشوں کا سبب بنا ہے۔ صوبائی خود مختاری سیاسی تحریکات کا سردست عنوان ہے۔ ساحل اور وسائل پر اختیار اور اس کا صوبے اور عوام کی ترقی و بہبود میں مصرف اہم مطالبہ ہے۔ اس کے برعکس فیصلوں اقدامات اور رویوں نے بد اعتمادی اور دوریاں پیدا کی ہیں۔ نوجوانوں نے بالخصوص گہرا اثر لیا ہے، بلکہ ہنوز لے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان عنوانات کے تحت کسی بھی سخت تحریک کا حصہ بننا مباح سمجھتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں دستور کے اندر اٹھارہویں ترمیم اور اس کے اندر صوبائی خود مختاری کا کیا بنا ہے کہ صوبے بدستور اختیارات اور حقوق کی خاطر آہ و فغان کررہے ہیں۔ بلوچستان واضح طور پر نو آبادیات کی مثال پیش کررہا ہے۔ کہنے کو تو منطقہ ’’چاغی‘‘ معدنیات کا شو کیس کہلایا جاتاہے۔جبکہ درحقیقت پورا صوبہ معدنیات کا ’’ شو کیس ہے ‘‘ کہ جس سے اب تک صوبے کی تقدیر بدل نہ سکی ہے۔ 1950ء کی دہائی میں سوئی کے مقام سے گیس دریافت ہوئی ۔ ملک کے کارخانوں کا چلائو اس گیس کے مرہون منت ہے ۔مگر افسوس کہ صوبہ آج بھی اپنی اس نعمت سے محروم ہے۔ محرومی کی ایسی ہی صورت گوادر کی گہری پانیوں کی بندرگاہ کے تناظر میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سیندک منصوبہ معاہدہ صوبے کی منشاء کے برعکس ہے۔ کجا صوبہ ،یہ منصوبہ تو قریب کی آبادی کی طرز زندگی بدل نہ سکا ہے۔ اب پھر1993ء کو ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے ذخائر بروئے کار لانے کا معاہدہ زبان زد عام ہے۔ جس پر27دسمبر 2021ء کو بلوچستان اسمبلی میں اراکین کو ان کیمرا بریفنگ دی گئی۔ اس بریفنگ کے بعد عوام کے کان تذبذب و شبہات سے کھڑے ہوگئے ہیں۔
اجمال اس قضیے کا یہ ہے کہ بلوچستان کے علاقے چاغی میں ریکوڈک کے مقام پر سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی بازیافت اور و بروئے کار لانے کی غر ض سے1993ء میں بروکن ہلز پراپریٹرز منرلز ( پی ایچ پی ایم ) نامی امریکی کمپنی کے ساتھ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھاڑٹی کے ذریعے یعنی جوائنٹ وینچر کے طور پر ہوا تھا۔ جس کے تحت بلوچستان کا حصہ پچیس فیصد طے ہوا تھا۔چاغی ہلز ایکسپلوریشن نام کے اس معاہدے کے تحت پی ایچ پی ایم نے’’ منکور‘‘ نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کرلی اور اپنے حصص اس کے نام منتقل کرد یے ۔ ما بعد’’ منکور ‘‘نے شیئرز آسٹریلیا کی ٹھیتیان کاپر کمپنی ( ٹی سی سی ) کو بیچ دیے۔ پھر چلی اور کینڈا کی دو کمپنیوں کے کنسورشیم نے ٹی سی سی کے تمام شیئرز خرید لیے۔ بہر حال کمپنی مائننگ میں لگی رہی ۔ 2008ء میں صوبے میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت قائم ہوئی تو معاہدے پر گرفت ہوئی ،اعتراضات اٹھائے۔ یوں عدالت عظمیٰ پاکستان نے جنوری2013ء کو ٹھیتیان کے ساتھ معاہدہ کالعدم قرار دیا۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے دیا۔ پیش ازیں2011ء کو صوبے کے اس وقت کے و زیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے ٹھیتیان کی جانب سے کانکنی کی درخواست قبول نہ کی تھی ۔ رد عمل میں ٹی سی سی نے جنوری2012ء کو ورلڈ بینک گروپ کے انٹرنیشنل سینٹر برائے سٹیبلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس ( آئی سی ایس آئی ڈی ) سے رجوع کرلیا۔ چناں چہ ثالثی کی اس عالمی عدالت نے قدرے تاخیر یعنی سات سال بعد د یے جانے والے اپنے فیصلے میں پاکستان پر چھ ا رب ڈالر جرمانہ عائد کردیا۔ یہاں تک کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی عدالت نے سال2020ء کے ماہ دسمبر میں پاکستان کی قومی ایئر لائن ( پی آئی اے) کے امریکی شہر نیویارک اور فرانس کے شہر پیرس میں واقع ہوٹل سمیت پاکستان کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ البتہ ما بعد منسوخ ہوا۔ گویا بھاری جرمانے نے پاکستان کو جکڑ لیا۔ پاکستان کمپنی کے ساتھ معاملات باہمی طور پر سلجھانے میں لگا رہا۔ اب اطلاعات کے مطابق ٹھیتیان کاپر کمپنی کے شراکت داروں میں سے ایک یعنی کینیڈا کی’’ بیرگ گولڈ ‘‘بعض شرائط کے ساتھ دوبارہ معاہدہ کرنے پر تیار ہے ۔ کمپنی نے عالمی عدالت کی جانب سے پاکستان پر عائد چھ ارب ڈالر جرمانے میں سے اپنے حصے کے یعنی تین ارب ڈالر نہ لینے اور دوسری شراکت دار کمپنی چلی کی’’ انٹا فگوسٹا‘‘ کے حصہ کا جرمانہ اپنے ذمے لینے پر آمادگی ظاہر کی ہے، اور بدلے میں حکومت سے ٹیکسوں کی مد میں رعایت مانگی ہیں۔
اراکین اسمبلی کو خفیہ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ممکنہ معاہدے کے تحت منصوبے میں پچاس فیصد سرمایہ کاری کی بنیاد پر منافع میں سے پچاس فیصد’’ بیرک گولڈ‘‘ کو ملے گا۔اگر حکومت بلوچستان سرمایہ کاری کا بقیہ پچاس فیصد دینے پر آمادہ ہوئی تو منافع کا بقیہ پچاس فیصد حکومت بلوچستان کا ہو گا۔ اگر حکومت بلوچستان کے لیے سرمایہ کاری ممکن نہیں ہوئی تو بقیہ پچاس فیصد کی سرمایہ کاری وفاقی حکومت کرے گی اور بدلے میں 25فیصد حصہ وفاقی حکومت اور 25فیصد بلوچستان کو ملے گا۔ شاید اسی بنیاد پر 29دسمبر کو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک ٹویٹ میں اعلان کیا کہ حکومت بلوچستان کی خاطر وفاقی حکومت ریکوڈک پراجیکٹ پر اٹھنے والا تمام مالی بوجھ اٹھائے گی۔جس پروزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے یوں بغلیں بجائیں کہ جیسے صوبے کو اس کا جائز حق ملا ہو!۔گویا اندریں کہانی بن چکی ہے۔ اور محض رسماً اسمبلی کو 27دسمبر2021ء کو ان کیمرا بریفنگ دی گئی۔ تقریباً دس گھنٹوں پر محیط اس اجلاس میں اسمبلی کے کل65میں سے42ارکان نے شرکت کی ۔ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو دعوت دی گئی تھی ۔ وہ نہ گئے حالاں کہ انہیں شریک ہوجانا چاہیے تھا تاکہ عقدہ مزید کھلتا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ ملک میں عدم موجودگی کی وجہ سے شریک نہ ہوئے۔ رکن اسمبلی سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی بھی اجلاس میں نہ گئے۔ ان کی شرکت بھی ضروری تھی۔ کیونکہ ٹھیتان کمپنی کے ساتھ اتار چڑھائو ان کے دور میں ہی ہوا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری اور دوسرے مقتدر حلقوں اور نواب اسلم رئیسانی کے مابین وجہ نزعا سونے ا ور تانبے کے ذخائر کا معاہدہ ہی تھا۔ بقول نواب رئیسانی کہ انہیں حسب خواہش معاہدہ دستخط کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ اس بغض میں صوبے کے اندر موقع پاکر وفاقی حکومت نے دو ماہ کے لئے گورنر راج نافذ کردیا تھا۔ اب تو ہر ایک ریکوڈک پر اصولی مؤقف کی پاداش میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کی بات کررہا ہے۔ نواب ثناء اللہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت گرانے کی وجہ ریکوڈک معاہدہ تھا۔ حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں۔ صوبے میں مسلم لیگ نواز کی حکومت میاں نواز شریف کی عداوت میں گرائی گئی تھی ۔ البتہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اڑھائی سالہ وزارت اعلیٰ میں کئی معاملات میں صوبے کے مفاد کو مد نظر رکھے تھے۔ ہوا یہ بھی ہے کہ صوبے کے اندر سے یعنی حکومتوں اور افسر شاہی نے ٹھیتیان کاپر کمپنی کو فائدہ دیا ،جس کا نقصان صوبے کو پہنچا ہے۔ مقدمے کی پیروی پر بلوچستان حکومت پانچ ارب33کروڑ روپے خرچ کرچکی ہے۔ یہ مقدمہ سیر سپاٹوں کا ذریعہ بھی بنا ہے۔ نواب اسلم رئیسانی یہ کہتے تھے کہ صوبائی حکومت خود ان ذخائر کو بروئے کار لائے گی جبکہ یہ تو حکومت پاکستان کے بس میں بھی نہیں ۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ از سرنو عالمی سطح پر بولی دی جاتی۔ صوبے کا حصہ مقدم رکھا جاتا اور جرمانے کی رقم ہونے والے نئے معاہدے سے مربوط کی جاتی۔ الغرض مذکورہ ان کیمرا بریفنگ سے عوام ور سیاسی حلقوں کی جانب سے شبہات اور تحفظات کا اظہار ہوا ہے۔
سردار اختر مینگل اس بات کا کریڈٹ لے رہے ہیں کہ ریکوڈک پر حالیہ عمل و حرکت ان کی جماعت نے طشت از بام کیا ۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ خفیہ بریفنگ کی بجائے معاملات پبلک کئے جانے پر زور دیا جاتا۔عجب تو یہ بھی ہے کہ معدنی وسائل صوبے کے ہیں اورمعاہدے پر اسمبلی کو بریفنگ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وفاقی اداروں کے نمائندے دیتے ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معدنیات پر اختیار صوبے کا ہے۔ یہاں سیاسی جماعتوں کو مشترکہ مؤقف کے ساتھ آگے آنا ہوگا۔ نیشنل پارٹی اور سردار اختر مینگل بہر حال معاہدے کی مخالفت کرچکے ہیں۔ ایسا ہی نقطہ نظر صوبے کی دوسری سیاسی جماعتوں کا سامنے آیا ہے۔ تاہم مد نظر یہ بھی رہے کہ عبدالقدوس بزنجو اور حزب اختلاف کی جماعتوں، جمعیت علماء اسلام ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں گہرے مراسم قائم ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو یا وفاق میں بیٹھے صادق سنجرانی جیسے نمائندوں سے کچھ بھی بعید نہیں ۔بلکہ ان جیسے لوگ تو چادر بچھا کر ذاتی فوائد سمیٹ رہے ہیں ۔چناں چہ اگر صوبے کے مفاد کے برعکس معاہدہ ہوتا ہے تو یہ جماعتیں شریک جرم سمجھی جائیں گی۔ سردار اختر مینگل کی یہ دلیل بھی قبول نہیں کی جاسکتی کہ ان کی جماعت جام حکومت کو ہٹانے کے ثواب میں تو شامل ہے، لیکن عبدالقدوس بزنجو کو لانے کے گناہ میں شریک نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سردار اختر مینگل کی جماعت جنوری2018ء کو عبدالقدوس بزنجو کو مسلط کرنے اور نومبر2021ء کو بھی وزیراعلیٰ بنانے کی گناہ میں شامل ہے۔ جام کو ہٹانے کے بعد قدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ ہائوس میں کرسی پر بٹھانے کی سعادت بی این پی کے رکن اسمبلی اختر حسین لانگو کو حاصل ہوئی اتنے پر جوش تھے کہ فرط جذبات میں بزنجو کے ماتھے پر بوسہ بھی دیا۔ بی این پی کے اراکین پورا پورا دن وزیراعلیٰ ہائوس میں گزارتے ہیں اور دوروں میں بھی ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ بی این پی سمیت حزب اختلاف ہی کے کندھوں پر یہ سارا تماشا ہوا ہے۔ جام دور میں اگر غیر منتخب افراد کو نوازا جاتا تھا تو متحدہ حزب اختلاف کے تعاون سے اب کئی قبیح معاملات بر سر عام ہورہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ریکوڈک ذخائر اور معاہدہ بارے جام کمال مقتدرہ کی سوچ کے بر خلاف رائے کا اظہار کرچکے تھے۔ شاید یہی ان کا جرم بنا ہے۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر