... loading ...
کو رونا وائرس نے دنیا میں معاشی تباہی پھیلائی دنیا بھر میں غربت میں اضافہ ہوا آ ج بھی اس کے اثرات جاری ہیں8 2کروڑ سے زائد افراد اس بیماری کا شکار ہوئے اور تقریباً 55 لاکھ افراد موت کی آغوش میں چلے گئے ابتدا میں جب اس وبا سے انسانی سرگرمیوں میں کمی واقع ہوئی بحری ،برّی اور فضائی سفر محدود ہو گیا تو اس کے نتیجے میں ماحولیات پر اچھے اثرات بھی مرتب ہوئے تھے لیکن اتنے بڑے عالمی سانحے کے بعد بھی دنیا کی فیصلہ کن قوتوں اور کرتا دھرتا افراد نے نہ کو ئی سبق حاصل کیا نہ ہی کسی دانشمندی کا ثبوت نہیں دیا بلکہ اقوام متحدہ کی سفارشات کو بھی نظر انداز کیا گیا جو عالمی امن ،صحت عامہ کی سہولیات میں اضافے اور غربت کے خاتمے کے اقدامات کے بارے میں تھیں آ ج دنیا بھر کے ممالک میں تعاون سب سے اہم ضرورت ہے لیکن اس کے برعکس مختلف ممالک اورعالمی قوتوں کے درمیان کشیدگی اور تنائو میں اس قدر اضافہ ہو ا کہ ایک ہولناک صورت حال پیدا ہوگئی ہے اور اب تیسری عالمی جنگ کے سیاہ بادل پوری دنیا پر منڈلا رہے ہیںحالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی فوج کے سربراہ جنرل سر نک کارٹر نے اسکائی نیوز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ کورونا کی وبا سے جو معاشی بحران پیدا ہوا ہے اس سے عالمی امن اور دنیا کے تحفظ کو اس قد ر خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ نوبت جنگ تک پہنچ رہی ہے لندن میں نیشنل آرمی میوزیم کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ان جوانوں کی قربانیو ں کو نہیں فراموش کرنا چاہیے جنہو ں نے ہماری آزادی اور طرز زندگی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے دیے انہیں بھلا دینا انتہائی خطرناک ہو گا جب ان سے پو چھا گیا کہ آپ اسے خطرناک کیوں کہ رہے ہیںجنرل کاٹر نے جواب دیا کہ ا س طرح ہم جنگ کی ہولناک تباہی کو بھی بھلادیں گے اور اگر اسہولناک تباہی کو بھلا دیا گیاتو لوگ جنگ کے لیے آمادہ ہو جائیں گے کرونا کے پیدا کردہ معاشی بحران کے بعد ہم ایک ایسے مقام آچکے ہیں جہاں پوری دنیا بے یقینی ،تذبذب اور بے چینی کے عالم میں ہے خطرہ اس بات کا ہے کے دنیا کے مخطلف خطوں میںکشیدگی اور تصادم دور تک پھیل جائے گا انہو ں نے برطانوی فوج کے مستقبل کا منصوبہ بیان کرتے ہوئے کہا کے2030 تک برطانو ی افواج نوے ہزار افراد اور تیس ہزار روبوٹس پر مشتمل ہوگی دوسری جانب حالات کی بہتری کے لیے امریکی صدر جو بائیدن اور روسی صدر دس جنوری کے مذاکرات کی تیاری جاری ہے جس میں یوکرین کے موضوع پر بات ہوگی ممتاز امریکی تھنک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشن کے تحت عالمی تنازعات کا مستقل جائزہ لینے والے شعبے کی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ دنیا بھر کے وہ تنازعات جہاں امریکی مفادات کو شدید خطرہ ہے وہاں امریکی فوج دخل اندازی کرسکتی ہے اس میں ایران اامریکی تنازعات ،چین سے سمندری علا قوں پر بالادستی کے معاملات،افغانستان اور شمالی کوریا کی صورتحال شامل ہیںاس کے علاوہ وہ علاقے جہاں کے حالات سے امریکی مفادات پر گہرے اثرات ہوسکتے ہیں اس میںشام کی خانہ جنگی ،عراق کا عدم استحکام پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، لبنان اور مصرکا سیاسی عدم استحکا م،ترکی اور کرد گروپو ں کے درمیان تنازعہ،میکسیکو میں جرائم پیشہ گروہوں کی سرگرمیاں،اسرائیل اور فلسطین کاٹکرائو، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی،نائیجیریا اور وینزویلاکی دگرگوں کیفیت کو شامل کیا گیا ہے وہ ممالک جہاں سے امریکی مفاد ات پر محدود اثرات ہوں گے اس میں لیبیا کی خانہ جنگی، یمن کی جنگ ،نگورانا اور کرابش کا تنا زعہ،مالی کا عدم استحکام،سینٹرل افریکن ریپبلیکن اور کانگو میں پر تشدد کارروائیاں،رو ہینگیا کا بحران،سودان کی خانہ جنگی ،سو مالیا کی الشباب اور ایتھوپیا کے واقعات شامل ہیںادھر چین اور بھارت کے سرحدی تنازعات بھی امریکا کے لیے تشویش کا باعث ہیں چین نے بھارت اور بھوٹان کی سرحد کے قریب اپنی فوج کی تعداد اور فوجی تعمیرات میں اضافہ کردیا ہے بھارت چین کی سرحد کے مختلف دفاعی پوزیشن پر پہلے سے فوجیں آمنے سامنے آچکی ہیںبھارت اور چین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ناکام ہو چکے ہیں بھارت اپریل 2020 کی پوزیشن پر فوجوں کی واپسی چاہتا ہے جبکہ چین مزید علاقوں کو چین کا حصہ قرار دے کر بھارتی فوجوں کی واپسی چاہتا ہے یہ ایک طرح کی جنگ جیسی کیفیت ہے جس کا دورانیہ کافی طویل ہوسکتا ہے ادھر چین اور تائیوان کے بگڑتے ہوئے تعلقات کے پیش نظر امریکا نے خاموشی سے تائیوان کی دفاعی امداد میںاضافہ کردیا ہے سوشیالوجی ریوائز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کے دنیا بھر میں مختلف ممالک مٰں جنگ اور تصادم کی کیکیفیت ہے جس کی تعداد تقریباًتین درجن ہے برطانوی ویب سائیٹ ایکسپریس میںکیشا لینگتہن نے اپنے ایک مضمون میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان اور تائیوان کے حالات کی وجہ سے تیسری جنگ عظیم کا خطرہ بڑھ گیاہیاے ایک اور برطانوی جریدے دی ویک نے اپنی ایک رپورٹ میںبتایا ہے کہ مغرب اور روس کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر شدید کشیدگی ہے جبکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے بھی جنگ کی کیفیت پیدا کردی ہے برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی سکس کے سربراہ رچرڈ مور نے کہا ہے کہ اس وقت سب سے پہلی ترجیح چین کی بڑھیی ہوئی طاقت پر نظر رکھناہے کیونکہ چین برطانیہ اور اسکے اتحادیوں پر ایک بہت بڑا جاسوسی حملہ کر رہا ہے امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون کے حکام نے تنبیہ کی ہے کہ چین تائیوان میں فوجی کارروائی کر سکتاہے اگر ان تمام رپورٹو ں کاتجزیہ کیا جائے تو دنیا ایک ہولناک جنگ کے دہانے پر آپہنچی ہے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجدگی میں یہ پوری دنیا کو تباہ کرسکتی ہے دنیا کو اس حماقت اور خو دکشی سے بچنا ہوگا