... loading ...
محمد سمیع گوہر
مسلم معاشرہ میں مسجد کو بڑا اہم مقام حاصل ہو تا ہے،یہ نہ صرف نماز پڑھنے کی جگہ ہوتی ہے بلکہ اسے ایک فلاحی مرکز بھی سمجھا جاتا ہے،بچوں کو قرآن پڑھانا،طلبہ کو قرآنی تعلیمات،احادیث،فقہ اور دیگر دینی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔مسجد وہ جگہ ہے جہاں روزآنہ اردگرد کے لوگ نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے ساتھیوں کی خیریت اور احول پوچھتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشکل حالات پر مدد کی جاتی ہے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے رب کریم سے دعائیں بھی کی جاتی ہیں۔ہمارے پیارے نبی ﷺ سے مسجدنبوی میں نماز کے بعد صحابہ کرام اپنے مسائل کے بارے میں بات کرکے ان کو مشورے دیتے تھے۔مسجد نبوی ہی میں صحابہ کرام اپنے تنازعات سے انھیں آگاہ کرتے تھے اور ہمارے نبی ﷺ کی جانے والے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کرتے تھے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ایک بینچ نے اس ہفتہ کراچی رجسٹری میں شہر میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران پارکوں کے لیے مختص جگہوں پر تعمیر کی جانے تمام مساجد کو گرانے کے احکامات جاری کیے جس میں شہر کے مصروف کاروباری علاقہ طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد بھی شامل ہے جہاں روز آنہ سینکڑوں افراد نماز کے لیے آتے ہیں جن میں اہل محلہ کے علاوہ مسجد کے اطراف میں واقع سینکڑوں دکانوں پر کام کرنے والے افراد اور گاہک بھی شامل ہیں۔یہ مسجد چار منزلہ عمارت پر مشتمل ہے ، یہ راتوں رات نہیں بنی ،اس کی تعمیر پر دس سے پندرہ سال کا عرصہ لگا ہے جس کی تعمیر مخئیر افراد کی چندہ سے کی گئی تھی۔اس مسجد میں دینی مدرسہ بھی ہے جہاں اردگرد کے درجوں بچے قرآن پڑھنا سیکھنے کے لیے آتے ہیں ۔ مدینہ مسجدکمرشل ایریا میں واقع ہونے کے باجود اس میں کوئی دکان نہیں ہے اور مسجد کے سارے اخراجات عوام برداشت کرتے ہیں۔
اس علاقہ کا ایک رہائیشی ہونے کی بنا پر اس کی تعمیر کے کام کا میں خود چشم دید گواہ ہوں ۔ہاں یہ بات درست کہ جس جگہ یہ مسجد ہے پہلے بچوں کا ایک پارک تھی،اس پارک میں دو چار ٹوٹے پھوٹے جھولے لگے ہوتے تھے جن سے اس علاقہ کے بچوں کو بھی کوئی دلچسپی نہ تھی۔پارک میں نہ تو پودے تھے اور نہ گھاس پھوس ہوا کرتی تھی،سارا دن گرد اڑتی رہتی تھی اور رات کے وقت یہ منشیات کے عادی افراد کے لیے ایک بہترین جگہ ہوا کرتی تھی۔علاقہ کے کتے بھی اسے اپنی آمجگاہ سمجھتے تھے۔دوسرے لفظوں میں یہ ایک پارک تو تھا لیکن علاقہ کے لوگوں کو اس میں جانے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔پھر یہ ہوا کہ پارک کے ایک کونے میں پہلے ایک چبوترہ بنایا گیا اور اس پر لوگوں نے نماز پڑھنی شروع کردی مگر باقاعدہ مسجد نہیں تھی۔اس مقام پر جب کافی لوگ نماز پڑھنے آنے لگے تو اس چبوترے کو وسیع کیا گیا،ٹین کی چادروں کی چھت ڈالی گئی اور باقاعدہ مسجد کی شکل دے کر پنج وقتہ نماز کی ادائیگی شروع کردی گئی۔کچھ عرصہ بعد جب نمازیوں کی ایک بڑی تعداد کی بنا پر یہ جگہ چھوٹی پڑنے لگی تو اہل محلہ نے ایک مسجد کمیٹی بنا کر متعلقہ اداروں سے اس پلاٹ کو مسجد کے لیے الاٹ کرانے کرانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔جیساکہ سب جانتے ہیں کراچی شہر میں زمینوں کی الاٹمنٹ کے لیے وسیع پیمانے پر کرپشن ہوتی ہے لیکن مسجد کے پلاٹ کی الاٹمنٹ کے رشوت دینے کا تصورّ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔چناچہ کئی سال کی جدوجہد کے بعد تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد الاٹمنٹ حاصل کی گئی اور عمارت کی باقاعدہ تعمیر کے لیے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے نقشہ منظور کرانے کے بعد مسجد کی عمارت کی تعمیر کا تعمیراتی کام شروع کیا گیا جو دس سے پندرہ سال کے عرصہ میں مکمل کیا گیا کیونکہ یہ سارا کام عوام کی جانب سے دیے جانے والے عطیات سے کیا گیا اور کسی سرکاری ادارے کی مالی معاونت حاصل نہیں کی گئی۔قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ مدینہ مسجد کا تعمیرات کا ایک طویل عرصہ جاری جارہا، اس دوران کسی بھی سرکاری محکمے یا ایجنسی نے اس بات کا نوٹس لیا کہ یہ مسجد غیر قانونی طور پر تعمیر کی جارہی ہے اورنہ ہی کسی بلدیاتی ادارہ کی جانب سے کوئی نوٹس جاری کیا گیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کراچی میں ایک درجن کے قریب ادارے اور لاتعداد ہاوسنگ سو سائیٹیز رہائیشی،تجارتی اور رفاعی پلاٹس الاٹ کرتی ہیں جن میں بورڈ آف ریوینیو، کے ڈی اے،کے ایم ی، کے پی ٹی، ڈی ایچ اے،کنٹونمنٹ بورڈ اور پی ای سی ایچ ایس کے علاوہ درجنوں ہاوسنگ سو سائیٹییز قابل ذکر ہیں۔مدینہ مسجد جس پلاٹ پر واقع ہے وہ پی ای سی ایچ ایس کی زمین ہے اورا س کی اجازت کے بغیر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مسجد کی تعمیر کا کام شروع کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔بلدیاتی قوانین کے تحت جب کوئی سوسائیٹی اپنے سارے ترقیاتی کام یعنی سڑکیں بنانے، سیوریج کی نکاسی، پانی کی فراہمی کی لائینیں اور اسٹریٹ لائیٹس لگانے کے امورمکمل کرلیتی ہے اور الاٹی گھر بنا کر رہنا شروع کردیتی ہے تو پھر وہ آبادی کراچی میونسل کارپوریشن کے حوالے کردی جاتی ہے جو پھر ساری شہری سہولیات کی فراہمی اور بلدیاتی ٹیکس وصول کرتی ہے۔قوانین کے مطابق پہلے پی ای سی ایچ ایس اور پھر کے ڈی اے اور کے ایم سی کا بھی کوئی اعتراض ریکارڈ پر نہیں ہے۔
بلدیاتی قوانین کے مطابق رہائیشی پلاٹ صرف گھر بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے مگر شہر میں ہزاروں رہائشی پلاٹس تجارتی مقاصدکے لیے استعمال کیے جارہے ہیں ،ان میں دفتر،اسکول،بیوٹی پارلر،جم اور ٹیوشن سینٹرزقوانین کی دھجیاں بکھیرتے نظر آرہے ہیں مگر اس جانب کسی قسم کی کاروائی کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ کمرشل پلاٹس جو 40 سے 60 مربع گز کے ہوتے ہیں ان پر گراونڈ پلس تین منزلہ بلڈنک کی تعمیر کی اجازت ہوتی ہے،آٹھ سے دس منزلیں تعمیر کرلی جاتی ہیں جس پر کوئی ادارہ ایکشن نہیں لیتا۔ ایک اور اہم مسلہ وہ یہ کہ بہت سے ایسے صاحب حیثیت افراد جنکی جائیداد کو کائی وارث نہیں ہوتاوہ اپنا گھر اپنی موت کے بعدا س کو مسجد کی تعمیر کے لیے وقف کردیتے ہیں اور پھر انکی موت کے بعد ان کے ورثاء اس گھر کو مسجد بنا دیتے ہیں۔قانونی لحاظ سے مسجد کے لیے باقاعدہ جگہ مختص کرکے اس کی تعمیر اسی جگہ پر کی جاسکتی ہے مگررہائیشی پلاٹ کو مسجد کے لیے استعمال کرنا مروجہ قوانین کی خلاف ورزی ہے مگر کوئی ادارہ اس جانب توجہ نہیں دیتا ہے اور شہر میں بے شمار ایسی مساجد موجود ہیں مگر اس ضمن میں کسی بھی بلدیاتی محکمہ کی جانب سے کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے۔ گھر میں نماز پڑھنا جائیز ہے لیکن گھر کو مسجد میں تبدیل کردینا قانونی طور پر درست نہیں ہے۔
اب آتے ہیں کہ کیا کوئی رفاعی پلاٹ جو کھیل کے میدان، پارک، مسجد، امام بارگاہ،اسکول،اسپتال،نرسری اور کمیونیٹی سینٹر کے لیے الاٹ کیے جاتے
ہیں کیااس کے استعمال کا مقصد تبدیل ہو سکتا ہے ؟جی ہاں! ہو سکتا ہے اگر اس کے استعمال کامقصدتبدیل کرنے کے لیے کے ایم سی کے منتخب کونسلرز کی جنرل کونسل سے قراداد منظور کرالی جائے تو اسے قانونی حیثیت مل جاتی ہے۔
راقم الحروف پانچ سال تک سابقہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن( کے ای ایس سی) کے رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ کے شعبہ کے سربراہ کے طور پر کام کرچکا ہے۔اس وقت اس ادارے کے پاس پلاٹس کی تعداد پانچ سو کے قریب تھی جو اسے مختلف بلدیاتی اداروں اور سوسائیٹیز نے شہر کے تمام علاقوں میں سب اسٹیشن،بلنگ آفس اور بجلی فیل ہو جانے کے دفاترز بنانے کے لیے الاٹ کیے تھے۔یہ پلاٹ عام طور پر کھیل کے میدان اور پارکس کے بڑے بڑے رفاعی پلاٹس کے کسی کونے میں 711مربع گز زمین کی شکل میں دیے جاتے تھے جس پر کے ای ایس سی 40سے 60گز زمین پر سب اسٹیشن بنا کر بقیہ جگہ پر دفتر بنالیتی تھی یا وہ جگہ مستقبل کے کسی پروجیکٹ کے لیے خالی چھوڑ دیتی تھی۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وہ پلاٹس جن پر کے ای ایس سی نے شہر کے مختلف علاقوں میں جہاں 711مربع گز کے پلاٹ پر سب اسٹیشن کا ایک کمرہ بنا کر بقیہ خالی جگہ چھوڑی ہوئی تھی بعد ازاں وہاں کے ای ایس حکا م کی اجازت لیے بغیر مساجد ،اسکول ،ڈسپینسریاںتعمیر کرلی گئی اور بعض علاقوں میں سیاسی جماعتوں نے قبضہ کرکے اپنے دفتر بنالیے تھے۔ کراچی وہ بدنصیب شہر ہے جہاں کسی کی زمین پر قبضہ کرنا تو بہت آسان بات ہے لیکن قبضہ چھڑانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ قبضہ مافیا عدالتوں سے اسٹے آرڈر حاصل کرلیتے ہیں اور پھر ہماری عدالتوں میں جائیدادوںکے مقدمات کافیصلے 20سے 25برس تک نہیں ہوتے اور زمین کا مالک مایوس ہو کر معاملہ خدا پر چھوڑ دیتا ہے۔ جوبات میں کہنا چارہا ہوں وہ یہ کہ مفاد عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے بلدیاتی ادارے رفاعی پلاٹ کو کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دینے کی مجاز ہیں۔ اس کی مشال میں اس طرح دونگا کہ 1998میں کے ای ایس سی کے ڈسٹری بیوشن کا نظام بہت فرسودہ ہوجانے پر شہر میں کئی کئی گھنٹے بجلی جارہی تھی، لوگ تنگ آکر سڑکوں پر اترآئے تھے اور ادارے کی گاڑیوں اور دفاترز کو آگ لگائی جارہی تھی۔ اس صورتحال پر کے ای ایس سی کو شہر کے کچھ علاقوں لیا قت آباد،فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد اور اولڈ سٹی ایریا میں مزید کچھ نئے گرڈ اسٹیشن بنانے پڑے جس کے لیے کے ایم سی سے رجوع کیا تو انہوں نے حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ان علاقوں میں قائم نرسریوں اور کھیل کے میدانوں کے کچھ حصوں کو گرڈ اسٹیشن بنانے کے لئے کے ایم سی جنرل کونسل میں قرارداد منظور کراکے رفاعی پلاٹ پر الاٹمنٹس کی گئیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مفاد عامہ میں کسی یوٹیلیٹی ادارے کے لیے رفاعی پلاٹ کی نوعیت تبدیل کی جاسکتی ہے تو اگرمدینہ مسجد جس پارک پر تعمیر کی گئی تھی وہ زمین بے مقصد خالی پڑی تھی، اس پر نہ تو درخت تھے اور نہ گھاس پوس پھر لوگوں کو بھی اس سے کوئی سروکار تھا البتہ سماج دشمن عناصر مستفیض ہو رہے تھے تو اس صورت حال میں کسی اچھے مقصد کے لیے مسجد بنانے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی ہے۔
اب جبکہ مسجد انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔معززعدالت سے درخواست ہے کہ گزشتہ پچاس برس میں رہائیشی،تجارتی،صنعتی،زرعی اور رفاعی پلاٹوں پر خلاف قانون زمینیں الاٹ کرکے، ناجائیز تعمیرات اور دیگر بے ضابطگیوں کے ہزاروں واقعات بھاری رشوت لے کر کی جاتی رہی ہیں اور کی جارہی ہیں۔بدقسمتی سے صوبائی وزیر اعلیٰ، کابینہ کے اراکین،منتخب نمائیندے اور سرکاری اہلکار ان خلاف ضابطہ کاروائیوں میں ملوث ہوکر دونوں ہاتھوں سے دولت بٹور رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کسی بھی بلدیاتی ادارے میں پلاٹس کی الاٹمنٹ کی فائل( جائیز یا ناجائیز) بغیر رشوت دیے آگے نہیں بڑھتی،کوئی روکنے والا نہیں ہے کیونکہ صوبائی حکومت کے تمام اہلکار خودکرپشن کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دونے میں مصروف ہیں۔اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے کسی ریٹائرڈ جسٹس کی سربراہی میں ایک آزادانہ اور خود مختار کمیشن بنایا جائے جو گزشتہ پچاس برس کے دوران غیر قانونی طور پر الاٹ کی جانے والے زمینوں اور ان پر کی جانے والی ناجائیز تعمیرات سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ شائع کرے جس میں ذمہ دار افراد کا تعین کرکے ان کے لیے سزائیں تجویز کرے اور مسقبل میں اس قسم کی کاروائیوں کو روکنے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے۔ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس میں دائیر کی جانے والی ایک محدود تعداد میں درخواستوں پر احکامات جاری ہونے سے یہ مسلہ حل نہیں ہوسکے گا اور بدعنوان افراد کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے خلاف کسی بھی قسم کی قانو نی کارروائی سے محفوظ رہے گی۔ اس سے ہی اس گھمبیر مسلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
ْْْْْْْْْْْْْْْْْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔