... loading ...
اس لڑکی میں عجب کشش تھی عام لڑکیوں سے منفرد ۔۔الگ،مختلف وہ سوچنے لگا وہ چلتی ہے تو محسوس ہوتاہے جیسے بادِصبا چلی آرہی ہو اسے دیکھ کردل میں ٹھنڈک کااحساس ہونے لگا خلافت ِ عثمانیہ کے بانی عثمان غازی نے اسے دیکھا تو دیکھتارہ گیا جیسے دل کا چین اور قرار لٹ گیا ہو اس نے سوچا نہ جانے وہ کون ہے؟ کہاں رہتی ہے؟ معلوم کرو تو کسی سے کروں وہ جب بھی ملتی حواس پرچھا جاتی، آج ایک مرتبہ پھر اس کا سامناہو آنکھیں چار ہوئیں تو ان کے چہروںپر شفق کے سارے رنگ اترآئے اس کا مطلب تھا دونوںطرف آگ برابرلگی ہوئی ہے۔ اسے دیکھ کر عثمان پھر سے بے کراں ہوگیا،ایک نامور جنگجو کی یہ حالت ۔۔ جو کبھی دشمن کو خاطرمیں نہیں لایا ۔۔جس سے صلیبی ،عیسائی،یہودی ،بازنطینی ہمیشہ خوفزدہ رہتے تھے وہ عثمان بے کو تسلیم کرناہی پڑا کہ اسے محبت کہتے ہیں تو واقعی یہ دنیا کا سب سے طاقتور جذبہ ہے ،اب کی بار عثمان غازی نے اس کا تعاقب کرنے کا فیصلہ کرلیا ایک روز وہ گھوڑے پر سوار بڑی شان ِ بے نیازی سے کہیں جارہی تھی ،اس کے ساتھ ایک اور لڑکی تھیوہ ان کے پیچھے پیچھے ہولیا شایدانہیں تعاقب کااحساس ہوگیاتھا اسی لیے رفتارمیں برابراضافہ ہونے لگا بالآخر وہ شیخ ادیبا لی کی درگاہ میں داخل ہوگئیں، اس وقت ان کی حالت سہمی ہوئی ہرنیوں جیسی تھی عثمان انہیں دیکھ کر بہت محظوظ ہورہاتھاوہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ یہاں آچکا تھا شیخ ادؒیبالی کائی قبیلے کے رہنما ارطغرلؒ غازی کے بہت قریب تھے۔ شیخ ادیبالی اکثر اسلام کی تعلیمات ارطغرل تک پہنچایا کرتے تھے۔ وہ اناطولیہ کی متنوع آبادی کے مختلف امور پر بھی تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ ارطغرل غازی کے بیٹے عثمان غازی بھی اکثر اوقات شیخ ادیبالی کے پاس جایا کرتے تھے۔ عثمان غازی ان کی صحبت میں رہنا پسند کرتے تھے اور اس طرح شیخ ادیبالی ان کے روحانی مرشد بن گئے۔ بعد ازاں شیخ ادیبالی نے اسے غازی کی تلوار سے بھی نوازا۔شیخ ادیبالی، اخی تنظیم کے ایک انتہائی با اثر عثمانی سنی شیخ تھے جنھوں نے ترقی پذیر عثمانی ریاست کی پالیسیاں تشکیل دینے میں مدد کی۔ سلطنت عثمانیہ کے قیام کے بعد وہ اس کے پہلے قاضی بنے۔ وہ شمالی عرب قبیلے بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے اور نسب کے لحاظ سے سید تھے انہوںنے مسلمانوںکو تجارت کی طرف مائل کرنے کے لیے ایک تحریک چلارکھی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا جب تک مسلمان تجارت کرکے خوشحال نہیں ہوں گے ان کی معاشی اورمعاشرتی حالت بہتر نہیں ہوسکتی۔
شیخ ادیبالی 1206 میں پیدا ہو ئے ،ان کے دو بیٹے محمود پاشا اور محمد پاشا اور دو بیٹیاں ملہون حاتون اور رابعہ بالا حاتون تھیں ،اس دور کی مسلم دنیا کے مذہبی حلقوں میں شیخ ادیبالیؒ کی عزت و تکریم کی جاتی تھی۔ وہ لڑکی شیخ ادیبالی کی درگاہ پرعثمان غازی کے آنے کی ایک وجہ بن گئی۔جب عثمانؒ غازی کو علم ہوا کہ وہ شیخ ادیبالیؒ کی صاحبزادی ہیں تورابعہ بالاحاتون سے اپنی محبت کا شیخ ادیبالی کے سامنے اعتراف کیا
’’ دیکھئے عثمان صاحب ۔۔۔شیخ ادؒیبالی نے بڑی سنجیدگی سے کہا میں اس شادی کے لیے راضی نہیں ہوں ،جواب سن کر عثمان غازی کو ایک دھچکا سا لگا کیونکہ انہیں اس جواب کی توقع ہرگزنہیں تھی پھربھی انہوںنے خوش دلی سے دریافت کیا آپ کیوں راضی نہیں ہیں ’’ کیونکہ ہماری سماجی حیثیت میں بڑا فرق ہے
شیخ ادیبالی نے کہا اب آپ اس بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے ۔۔یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے ناچار عثمان بھی اٹھ بیٹھا ایک کونے میں کھڑی رابعہ بالا حاتون کی آنکھوں سے کئی آنسو نکل کر گالوںپر پھیل گئے۔
کئی ماہ تک عثمانؒ غازی ایک کشمکش کا شکاررہا ،شیخ ادیبالی کاانکاراس کی فہم وفراست سے بالا تر تھاوہ بہت پریشان ہواتو ایک دن اس نے پھردرگاہ جانے کا فیصلہ کرلیا وہ کسی کو بتائے بغیر کسی کو ملے بغیردرگاہ جا پہنچا، ایک الگ تھلک گوشے میں جاکر نمازاداکی پھر مسلسل چھ گھنٹے تک قرآن پاک کی تلاوت کرتارہا، اسی اثناء میں اسے نیند آگئی اس دوران عثمانؒ نے خواب میں دیکھا کہ کہ ایک چاند شیخ ادیبالی کے سینے سے نکل کر ان کے سینے میں داخل ہو گیا ہے اور ان کے سینے سے ایک بڑا درخت نکلا ہے اور اس کی شاخوں نے دنیا کو ڈھانپ لیا ہے، اس کے نیچے سے نہریں نکلتی تھیں اور لوگ ان پانیوں سے گزرتے تھے۔ صبح کے وقت، عثمان نے شیخ ادیبالی کو اپنے آخری رات کے خواب کے بارے میں بتایا،شیخ ادیبالی بہت خوش ہوئے اور عثمان کو اپنے خواب کی تعبیر بتائی۔ شیخ ادیبالی نے کہا کہ یہ خواب ان کی عزت اور اس کی طاقت کے لیے نیک شگون ہے جو اللہ تعالیٰ انہیں آنے والے وقت میں دے گا اور ان کی اولاد پوری دنیا پر حکومت کرے گی یہ خواب حقیقت بن گیا بعد میں ساری دنیا نے اس خواب کو حقیقت میں بدلتے دیکھا، جب عثمان غازی عظیم سلطنت عثمانیہ کے بانی بنے اور سلطان محمود فاتح سلطنت عثمانیہ کو اس کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچایا۔ اس خواب کے بعد شیخ ادیبالی نے اپنی بیٹی رابعہ بالا حطون کی شادی عثمان غازی سے کرنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے ان کی شادی کردی جو 1289 ء میں ہوئی۔ شیخ ادیبالی نے اپنے داماد، عثمان غازی کو مشورہ دیا جس نے عثمانی حکومت کی تشکیل اور ترقی کی جو اگلی چھ صدیوں تک قائم رہی۔ وہ اطغرل غازی کوبھی بہترین مشورے دیاکرتے تھے ۔ وہ اناطولیہ کی منتشر آبادی کے مختلف امور پر بات کرنے کے بھی عادی تھے۔عثمان غازی بھی اکثر اوقات شیخ ادیبالی سے ملنے کے عادی تھے۔ وہ اپنی قربت میں رہنا پسند کرتے تھے اور اس طرح شیخ ادیبالی ان کے مذہبی مشیر بن گئے۔ بعد ازاں شیخ ادیبالی نے بھی اسے غازی کی تلوار سے باندھ دیا۔شیخ ادیبالی اپنے وقت کے بڑے ممتاز دانشور، تفسیر، حدیث اور اسلامی قانون ،ماہرمعاشیات،جنگجو، بہترین ظروف ساز،محقق اور اسلامی فقہ،قانون کے ماہر تھے۔عثمانی سلطنت کے قائم ہونے کے بعد وہ کافی عرصے تک بلیک میں مقیم رہے۔ ان کی شاگرد درسن فکیہ کو سلطنت عثمانیہ کی پہلی خاتون کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شیخ ادیبالی کا تعلق اصل کرمان سے ہے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حنفی فقیہ نیکم الدین عز زاہدی سے حاصل کی۔شیخ ادیبالی ن کے تربیت یافتہ درویشوںکی ایک بہت بڑی تعداد پورے ترکی اور ان کے قبائل پر محیط تھی یہ لوگ طب،جراحت، تفسیر، حدیث اور اسلامی قانون میں کامل دسترس کے ساتھ ساتھ جنگی حکمت ِ عملی اور عسکری سمجھ بوجھ کی کماحقہ‘ مہارت رکھتے تھے جس سے پورا اناطولیہ مستفید ہوتا تھا شیخ ادیبالی ایک ترک صوفی شیخ تھے جو اپنی پاکیزگی اور تعلیم کے لیے مشہور تھے۔ وہ بالیسیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ شیخ ادیبالی نے ترکی کے شہر سوگت میں بڑھتی ہوئی عثمانی سلطنت کی شکل اور پالیسیوں کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیااس حوالہ سے وہ عالم ِ اسلام کی ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت تھیں جنہوںنے مسلمانوںکو معاشی طورپر استحکام دینے کے لیے پورے وسائل کااستعمال کیا۔ شیخ ادیبالی کی دو اولادیں تھیں محمود پاشا اور محمد پاشا، اور دو لڑکیاں ملہون ہاتون اور رابعہ بالا ہاتون۔ بالا ہاتون نے عثمان غازی سے شادی کی۔ شیخ ادیبالی نے وفات سے پہلے اپنے داماد عثمان غازی سے مشورہ کیا ،جس نے سلطنتِ عثمانیہ قائم کی اور اسے ترقی دی جو کہ اگلی چھ صدیوں تک جاری رہی۔شیخ ادیبالی اپنی عمر کے 120 ویں سال 1326 ء میں فوت ہوئے۔ انہیں ترکی کے شہر بلیک میں سپرد خاک کیا گیا ،ان کی وفات کے ایک ماہ بعد ان کی بیٹی بالا حاتون کا انتقال ہو گیا اور اس کے داماد عثمان غازی چار ماہ بعد اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔خلافت ِ عثمانیہ پر شیخ ادیبالی کے نظریات کی گہری چھاپ تھی انہوںنے جس بنیادپر سلطنت کی بنیادرکھی اس کے اثرات صدیوں تک قائم رہے آج بھی شیخ ادیبالی کے دنیا بھرمیں عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور عالم ِ اسلام میں ان کے اس فلسفہ کے حامیوںکی اکثریت ہے کہ جب تک مسلمان تجارت کرکے خوشحال نہیں ہوں گے ان کی معاشی اورمعاشرتی حالت بہتر نہیں ہوسکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔