... loading ...
دوستو، آج سال کا آخری دن ہے، سال کا آخری کالم آپ پڑھ رہے ہیں، اب اگلے سال ہی کچھ لکھیں گے تو آپ بھی پڑھ لیں گے۔۔کل نئے سال کا نیا سورج طلوع ہوگا تو بہت سی امیدیں، آسرے، خواہشات بھی ہمراہ لائے گا لیکن۔۔۔جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو سال کی رخصتی اور آمد کے حوالے سے ہرجگہ وہی گھسی پٹی رسمی باتیں ہورہی ہوں گی،کل سے اکثر ملاقاتیں اس جملے سے شروع ہوں گی۔۔’’’نیا سال مبارک ہو‘‘۔۔جواب میں کہنے والا کہے گا ۔۔’’شکریہ ، آپ کو بھی نیا سال مبارک ہو۔‘‘۔۔ایک آدھ ہفتہ گزرے گا تو جملے میں تمہید کا اضافہ ہو جائے گا۔۔’’’معاف کیجئے اس سے پہلے موقع نہیں ملا‘‘۔۔یاپھر یوں کہاجائے گا، ’’بھئی آپ کو کئی بار فون کیا مگر بات ہی نہیں ہو سکی،مبارکباد کا میسیج میں نے کردیا تھا‘‘۔۔کچھ یوں بہانے بنارہے ہوں گے، معاف کرنا میں ذرا آئوٹ آف اسٹیشن تھا ،اس لئے ذرادیر سے مبارک باد دے رہا ہوں۔۔کل ہرجگہ کوئی نہ کوئی آپ کو نئے سال کی مبارک باد ضرور دے کر رہے گا۔۔ا س کے بعد سب کچھ وہی ہوتا رہے گا، جو پچھلے سال ہواتھا یا رواں سال ہوا ہوگا، جو اس سے پچھلے سال ہوا تھا اور جو نہ جانے کتنے نئے سالوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔یعنی بسوں کے دھکّے، کھڑکیوں پر قطاریں، بیوی کی جھڑکیاں، ٹی وی کی بریکنگ نیوز،باس کی ٹیڑھی نظر،دفتروں کی سیاست، دفتری ساتھیوں کے بھدّے لطیفے، خالی جیب، مہنگائی، دہشت گردی، اسپتال،کچہری ، رشوت، چوربازاری، ذخیرہ اندوزی،ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، خالی مسجدیں، ناچ گانا۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلے گا، لیکن پھر بھی ۔۔’’ہرنیا سال‘‘ مبارک۔۔
کچھ لوگ آج سے شروع ہونے والے سال کو بیس سو بائیس بولیں گے تو کچھ کا اصرار ہوگا کہ اسے دوہزار بائیس کہا جائے۔۔لیکن جب بیوی کو اہلیہ،زوجہ یا وائف کہا جائے تو اس سے بیوی کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس کی خصوصیات اورــ’’کمین یات‘‘ اپنی جگہ بہرحال برقرار ہی رہیں گی، یہی حال رواں سال کا ہوگا،اسے جس نام سے بھی پکاریں گے اسے وہی رہنا ہے جو یہ ہے۔۔ ہر نیا سال ۔۔(اب اسے ’’ہرنیا‘‘ نہ پڑھ لینا)نئی امنگوں اور نئی امیدوںکے ساتھ آتا ہے لیکن جاتے جاتے مایوسیاں دے جاتا ہے۔۔ ابھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ سورج اپنی اوٹ میں کتنی خوشیاں، خوشخبریاں اور بری خبریں لے کر طلوع ہوگا لیکن خدائے رب ذوالجلال سے یہی دعا ہے کہ آنے والا یہ نیا سال دنیا کے لیے امن و آشتی اور انسانوں کے لیے خوشحالی کا پیغام لے کر آئے۔ اس نئے سال سے ہماری بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ خدا کرے یہ سال ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا سال ثابت ہو۔
دسمبر کا آخری دن ہے آج، پھر اگلے ہی دسمبر آئے گا، دسمبر جب بھی آتا ہے کچھ لوگوں کے لئے نزلہ،زکام اور کھانسی کی سوغات لاتاہے۔۔دسمبر کے بھیگے موسم میں جب واک کرتے ہوئے پارک میں کسی لڑکے اور لڑکی کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومتے دیکھتا ہوں تو دل پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دے لیتا ہوں کہ ۔۔۔’’بہن بھائی ہوں گے۔۔‘‘۔۔۔فرض کرلیتے ہیں۔۔دسمبر’’فیصل آباد‘‘ سے تعلق رکھتا اور لوگ اس کا نام لے کر شاعری کرتے تو وہ کیسے جواب دیتا؟؟۔۔ ایک شاعر کہتا، اے دسمبر تم کیوں آئے ہو۔۔ دسمبر کہتا۔۔میری مرضی میں آگیا سالیا تو ماما لگدا ای۔۔دوسرا شاعر اگر یہ کہتا ، اے دسمبر تم پھر چلے آؤ۔۔دسمبر فوری جواب دیتا۔۔۔ کیوں تیرا بل اْوندا جے۔۔تیسرا شاعر اگر اپنے شعر میں یہ سوال کرتا کہ، اے دسمبر ہربار کس لیے آتے ہو؟؟۔۔ دسمبر فیصل آبادی جھنجلا کے کہتا۔۔ تیرے کولوں رشتہ لین سالیا میں ہر سال اوْندا پتہ نی تہانوں کی موت پیندی میرے آن تے ۔۔لاہوریوں کا اعتراض ہے کہ، دسمبر کی شاعری پہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن جب کراچی والے دسمبر کی شاعری کرتے ہیں تو ہمارا ’’ہاسا‘‘ نکل جاتا ہے۔۔۔ جواب میں کراچی والے کہتے ہیں۔۔۔لاہور والوں کی شاعری دسمبر کے بارے میں کچھ ایسی ہوتی ہے۔۔’’ہم نہڑ کناڑے بیٹھے ڑہے تیڑے انتظاڑ میں۔تیڑے بغیڑ اک اوڑ دسمبڑ گزڑ گیا ۔۔‘‘
لوجی سجنوتے مترو۔۔نیا سال شروع ہونے میں بس ایک دن رہ گیا۔۔ایسے تمام لوگ جو مجھ سے معافی مانگنا چاہتے ہوں وہ معافی حاصل کر نے کے لیے قوا عد و ضوابط نوٹ فرما لیں۔۔ میسج یا اسٹیٹس کے ذریعے کسی کو بھی معافی نہیں ملے گی، معافی صرف پاؤں پکڑ کر گڑگڑا کر مانگنے سے ملے گی۔۔ پاؤں پڑنے کے لیے صرف آج کا دن رہ گیا ہے،کل سے میری مصروفیت میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوجائے گا اس لئے میرے پاؤں معافی کیلئے دستیاب نہیں ہوں گے۔ معافی مانگنے آنے سے پہلے وقت لینا ہوگا اسکا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک درخواست لکھیں اور اس کے ساتھ پانچ ہزار روپے معافی فیس کے طور ہوں گے۔معافی کی درخواست کے ساتھ بچپن کی چار عدد پاسپورٹ سائز تصویریں بھی لگائیں جس میں نظر آنا چاہیئے کہ تصویر میں آپ نے کس قسم کی جوتی پہنی ہے۔۔ بعض احباب کو چھترول کے بعد ہی معافی ملے گی ۔۔ پریشان نا ہوں چھتر آپ کو نہیں خریدنا پڑے گا ۔۔اس کا بندوبست میں خود کر لوں گا۔۔تو سجنوتے مترو۔۔رش سے بچنے کے لئے وقت ضایع نہ کریںاور آج ہی معافی مانگیں۔۔
دوستو نئے سال بھی ہونا وونا کچھ نہیں، وہی عالمی منڈی میں تیل مہنگا اور انسانی خون سستا ہی ملے گا۔۔خواتین میں لباس کا ناجائز استعمال فروغ پائے گا اور بعض مستورات عریانی کے لئے سترپوشی سے کام لیں گی۔۔چند بزرگ سیاستدان، دانشور اور مذہبی رہنما جو اپنی طبعی عمر پوری کر کے ’’اوور ٹائم‘‘ لگا رہے ہیں ،اگلے سال ہم میں نہیں رہیں گے،تاہم قوم کو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ ان کا خلا پر کرنے کے لئے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔۔نان ایشوز پر دھرنے بازیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بیان بازیاں ، جگت بازیاں ، رنگ بازیاں ، آتش بازیاں ، پتنگ بازیاں اور نقاب کشائیاں جاری رہیں گی ۔۔جرائم کا بول بالا ہوگا اور قانون کا منہ کالا ہوگا۔۔کوروناکے اثرات کم ہوتے نظر نہیں آرہے۔ مہنگائی خواتین کی زبانوں کی طرح مسلسل بڑھتی رہے گی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔تاریخ گواہ ہے جب بھی نیا سال آیا ہے، ایک سال سے زیادہ نہیں ٹک سکا۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔