... loading ...
۔
وقت کرتاہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دَم نہیں ہوتا
قابل اجمیری کا یہ شعر کراچی کے حالات و واقعات کی بھرپور عکاسی کرتاہے ،کیونکہ یہ سوال تو صرف کراچی کے متعلق ہی اُٹھایا جاسکتاہے کہ یہاں حادثے کس پَل نہیں ہوتے؟خدالگتی بھی یہ ہی ہے کہ اس شہر بے خانماں میں حادثے ہر پَل ہی رونما ہوتے رہتے ہیں اور اہلیانِ کراچی برس ہا برس سے اپنی زندگی کا ہرپَل ،نت نئے حادثوں کے بیچ صبر و شکر کے ساتھ بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔یاد رہے کہ عروس البلاد کراچی کے لیے سیاست بھی ایک حادثہ ہے اور حکومت بھی ایک حادثہ ،اَب وہ چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی کیوں نہ ہو ۔ جبکہ شہر ِکراچی میں خدمت، فلاح وبہبود اور انسانی حقوق کے نام پر جنم لینے والے الم ناک حادثوں اور سانحوں کو بھی اکثر معمول کی وارداتیں سمجھا جاتا ہے۔ یعنی سیاست میں تعصب ،نفرت اور قتل و غارت گری کے حادثات، حکومت میں اقربا پروری ،کوٹہ سسٹم اور نااہلیت کے سانحات اور انسانی خدمت کی آڑ میںسستی شہرت پانے اور جھوٹی ناموری کمانے کے روز بروز بڑھتے ہوئے واقعات کراچی کے باسیوں کے احساسات پر نمک پاشی کے لیئے کیا کم تھے کہ گزشتہ دنوں شیر شاہ پراچہ چوک پر ہونے والے دھماکے میں بھی 17 قیمتی جانیں لقمہ اجل بن جانے کا جاں گسل حادثہ شہر بھر کو اشک بار کرگیا۔
المیہ ملاحظہ ہو کہ حادثہ سے بڑا حادثہ تو یہ ہوا کہ اِس اندوہ ناک سانحے کو ایک ہفتہ سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اِس بات کا ابھی تک واضح تعین نہیں کیا جاسکا کہ مذکورہ مقام پر ہونے والے دھماکے اور حادثے کی اصل وجہ کیا تھی۔ بم ڈسپوزل یونٹ کا اصرار ہے کہ ’’تجاوزات میں چھپے نالے کے وسط میں گزرنے والی زیرزمین سیوریج لائن میں گیس اخراج کے باعث دھماکہ ہوا ‘‘۔جبکہ سوئی سدرن حکام کا کہنا ہے کہ ’’دھماکے کی جائے مقام پر کوئی گیس لائن سرے سے موجود ہی نہیں تھی ‘‘۔قبل ازیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب اِس امکان کو بھی سختی کے ساتھ خارج ازامکان قرار دے دیا گیا تھا کہ ’’دھماکہ کسی دہشت گرد کارروائی کا نتیجہ ہو سکتاہے‘‘۔دراصل دھماکے کی وجوہات تو سب کے سامنے اظہر من الشمس ہیں ،مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپنی غلطی کون تسلیم کرے ؟اور جب مجرمانہ کوتاہیوں میں شراکت دار اَن گنت سرکاری محکمے ہوں تو پھر غلطی و کوتاہی کے مرتکب ہر ادارے اور فرد کی اوّلین کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ واقعہ کی تمام تر ذمہ کسی دوسرے فریق پر ڈال کر اپنے دامن کو احساس ذمہ داری کی گرفت میں آنے سے صاف بچالیا جائے ۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ شیر شاہ پراچہ چوک پر ہونے والے الم ناک حادثے پر منوں مٹی ڈالنے کی ’’سفاکانہ کاوش‘‘ میں تمام ادارے شب و روز بھرپور انداز میں مصروف عمل ہیں ۔تاکہ ہر قسم کی قانونی جزا و سزا سے واقعہ کے اصل ذمہ داروں کو بچا یا جاسکے اور ویسے بھی ہماری حادثاتی تاریخ گواہ ہے کہ ’’وطن عزیز پاکستان میں ہونے والے کسی بھی اندوہناک حادثے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا حادثہ کبھی رونما ہوا ہی نہیں ‘‘۔ یقینا اِس مرتبہ بھی جیسے مذکورہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے 17 معصوم افراد کو تہہ خاک دفنا دیا گیا ہے ،بالکل ویسے ہی اس کیس سے جڑی ہرتفتیشی رپورٹ اور کاغذی شہادت کو بھی کچھ عرصے بعد فائلوںکے قبرستان میں تمام تر دفتری اعزاز کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے دفن کردیا جائے گا اور ہم تھوڑے عرصہ بعد کسی دوسرے اندوہ ناک حادثے یا الم ناک سانحے پر ماتم کناں ہوگے۔
دوسری جانب اس سانحہ کے وقوع پذیر ہونے میں سرکاری اداروں کی روایتی نااہلی اور سندھ حکومت کی انتظامی غفلت کے علاوہ ،اُس عام شہری کا بھی پورا پورا کردار اور حصہ بقدر جثہ ہے ، جسے غیر قانونی تجاوزات قائم کرنے کا خبط لاحق ہے اور غیر قانونی جگہوں پر گھر اور دُکان بنانے کا یہ پاگل اَب اس انتہا پر جاپہنچا ہے کہ جب حالیہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی سمیت ملک بھر میں غیرقانونی تجاوزات کے خاتمے پر کمر بستہ ہوچکی ہے تو یہ ہی عام شہری گلی گلی احتجاج کی صورت میں بضد ہے کہ’’ اُس کی غیر قانونی تجاوزات کی قانونی حیثیت کو بحال کردیا جائے‘‘ ۔ذرا ایک لمحے کے لیئے سوچئے اگر اِن عاقبت نااندیش شہریوں کے دباؤ میں آکر سپریم کورٹ آف پاکستان نالوں پر بنی ہوئی تمام تر غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کو قانونی قرار دے دیتی تو آج ہم شیر شاہ پراچہ چوک پر ہونے والے حادثہ پر حکومتی اداروں کو لعن طعن کرنے کے بجائے اس سانحہ میں ہلاک ہونے والے 17 معصوم افراد کی بدقسمتی کو کوس رہے ہوتے ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نسلہ ٹاور کی عدالتی حکم پر مسماری اور شیر شاہ پراچہ چوک کے نالے پر ہونے والے دھماکے کے نتیجہ میں ہونے والی قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد لوگ کچھ خوفِ خدا کھاتے اور رضاکارانہ طور پر اپنی غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ کردیتے یا پھر کم ازکم نئی غیرقانونی تجاوزات کرنے سے حتی المقدور اجتناب برتتے مگر نام نہاد عام آدمی کا لالچ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ ابھی بھی غیر قانونی تجاوزات کو ہی اپنے لیئے منافع کا سودا سمجھ رہا ہے ۔جس کی وجہ سے غیر قانونی تجاوزات پر موجود گھروں ،دُکانوں اور پلاٹوں کی قیمت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہی ہیں کیونکہ اُنہیں خریدنے والے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر بولیاں لگارہے ہیں ۔ کیونکہ لالچی آدمی کے لیے نفع سے بڑھ کر کچھ قیمتی نہیں ہوتاحتی کہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان کا تحفظ بھی نہیں ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ نسلہ ٹاور کیخلاف عدالتی کارروائی کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے ناجائز تجاوات اور غیر قانونی تعمیرات کو ریگولرائزڈ کرنے کیلئے قانون سازی کی تجویز سامنے آنے کے بعد کراچی میں غیر قانونی تعمیرات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور شہر بھر میں بااثر افراد کی جانب سے ایسی خالی اراضی پر بھی گوٹھ، دیہات وغیرہ کے بورڈ لگا دیے گئے ہیں ، جس پر ایک مکان بھی تعمیر نہیں ہے۔جبکہ غیر قانونی تعمیرات کیلئے قانون سازی کی تجویز منظر عام پر آجانے کے بعد رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں تجاوزات پر بنی ہوئی ہاؤسنگ اسکیموں کے پلاٹوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔علاوہ ازیں بورڈ آف ریونیو میں 2012 سے پہلے کے جعلی کاغذات بنانے کے عمل بھی تیزی آگئی ہے اور بورڈ آف ریونیو 2020 کے جدید دور میں بھی گوٹھ بنانے کی اجازت دے رہا ہے۔ ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق صرف سہراب گوٹھ سے ٹول پلازہ تک صرف ایک دہائی کے دوران 12 سوسے زائد نئے گوٹھ بنا کر اربوں روپے کی سرکاری اراضی فروخت کردی گئی ہے۔یعنی ہم پاکستانیوں کے ساتھ بھلے کتنے بھی مالی فراڈ یا جان لیوا حادثات ہوجائیں لیکن ہمارا لالچ ہمیں غیر قانونی تجاوزات پر اپنا گھر ، دُکان بنانے کی ترغیب دیتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭