... loading ...
دوستو،معاشرے میں عدم برداشت، بے روزگاری، گھریلو جھگڑوں نے خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس کے باعث طلاق اور خلع کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہونے لگا، رواں سال یعنی دوہزاراکیس میں ایک لاکھ خواتین نے خلع کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا اور 10 ہزار سے زائد خواتین کو خلع کی ڈگریاں جاری کردی گئیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق 2021 میں لاہور کی فیملی کورٹس سے ایک لاکھ سے زائد خواتین نے خلع کی ڈگریوں کے لیے رجوع کیا جن میں سے 10 ہزار 2 سو خواتین کو خلع کی ڈگریاں جاری کردی گئیں جبکہ اس وقت عدالتوں میں 60 ہزار کے قریب خلع کے کیسز زیر سماعت ہیں۔سول سوسائٹی کے رہنما اور قانونی ماہرین کا کہناہے کہ خلع کے کیسز میں روز بروز اضافہ کی بڑی وجہ ساس بہو کی لڑائی، پسند کی شادی، عدم برداشت جیسے عوامل ہیں۔ معاشرے میں عدم برداشت کے باعث خلع کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق لاہور کی فیملی کورٹ میں روزانہ ڈیڑھ سو سے زائد خلع کی درخواستیں دائر ہوتی ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے اگر فریقین صبر اور برداشت سے کام لیں تو بہت سے گھر ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں تو ایک ساتھ تین طلاق یا پھر عدالت سے خلع کا رواج عام ہے، لیکن مختلف ممالک میں طلاق کی مختلف دلچسپ رسمیں رائج ہیں۔۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی سات ریاستوں جن میں ریاست نیو میکسیکو اور مسیسپی شامل ہیں، شادی کی ناکامی کی وجہ ایک تیسرے فریق کو ٹھہرایا جا سکتا ہے اور شادی خراب کرنے والے تیسرے شخص پر شادی کے نقصان کے لیے بھاری رقم کا ہرجانہ دائر کیا جا سکتا ہے، تاہم اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ امریکی ریاست کنساس میں شادی کو طویل مدت تک قائم رکھنے کے لیے طلاق کا ایک ایسا قانون موجود ہے۔ جس کے تحت دونوں فریق کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ساس کے ساتھ بدسلوکی یا برے تعلقات رکھنے پر ایک دوسرے کو طلاق دے سکیں۔امریکی ریاست ڈیلاوئیر میں طلاق کے لیے ایک ایسا قانون موجود ہے جس کے تحت اگر ایک شخص ہنسی مذاق یا شرط نبھانے کے لیے شادی کر لیتا ہے تو، اسے بعد میں طلاق کا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت ہے جبکہ اس قانون سے ہنسی مذاق میں شادی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں قبائلی خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یا تو اپنے شوہر کو طلاق دینے کے لیے آمادہ کریں یا پھر شادی سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک دوسری شادی کر لیں اس طرح ان کی پہلی شادی خود بخود منسوخ ہو جاتی ہے۔ امریکی ریاست کینٹکی میں اس بات کی اجازت ہے کہ آپ ایک ہی شخص سے طلاق کے بعد تین بار شادی کر سکتے ہیں لیکن چوتھی بار اسی شخص سے شادی کرنے کی اجازت آپ کو ریاست کا قانون نہیں دیتا ہے۔ امریکی ریاست ٹینسی میں اگر آپ کا شریک حیات آپ کو جان سے مارنے کے لیے کوئی حربہ مثلاً زہر پلانیکی کوشش کرتا ہے تو اس بنیاد پر آپ کی طلاق منظور ہو سکتی ہے۔ نیو یارک میں اگر آپ یہ ثابت کر سکیں کہ آپ کے شریک حیات کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے تو آپ کو طلاق مل سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ شادی کے دوران شریک حیات کی دماغی حالت کم از کم پانچ سالوں سے خراب رہی ہو۔۔ برطانیا میں طلاق حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شریک حیات کی حد درجہ برائیوں کا ذکر کیا جائے صرف ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر طلاق منظور نہیں کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ برطانیا میں جوڑے طلاق کے لیے شریک حیات میں عجیب وغریب عیب تلاش کرتے ہیں، جیسا کہ ایک شوہر نے طلاق کے مقدمے میں کہا کہ وہ اپنی بیوی کو اس لیے طلاق دینا چاہتا ہے کیونکہ وہ ہر روز مچھلی پکاتی ہے۔
صبح ایک ٹی وی چینل پر خبر چل رہی تھی کہ۔۔فلاں شہر میں ایک خاتون نے سڑک کنارے ڈھابہ لگا لیا۔۔ اور اسے ’’وومن امپاورمنٹ‘‘ کی ڈگڈگی بجا کر بڑے فخر سے پیش کیا جارہا تھا۔ ہم سوچ رہے تھے کہ جو خبر مسلمان قوم کی اخلاقی زبوں حالی کا تازیانہ بجا رہی ہے اسے کیسے فخر کے ساتھ سنایا جارہا ہے۔ جس دین نے عورت کا نفقہ ہر صورت مرد پر مقرر کیا ہو اس دین کو ماننے والوں کی معاشرت میں عورت سڑکوں پر ڈھابہ لگانے پر مجبور ہوجائے تو یہ شرم کا مقام ہے یا فخر کا؟ یعنی اس معاشرے میں عورت دین کی فراہم کردہ معاشی پراٹیکشن سے محروم ہورہی ہے اور ہم خوش ہورہے ہیں۔۔دو عورتوں کی ملاقات ہوئی تو ایک نے دوسری سے کہا۔۔بہن تم نے کچھ سنا۔؟ نازیہ کے میاں کا ہارٹ فیل ہوگیا ہے۔۔دوسری نے حیرانی سے پوچھا۔۔ارے وہ کیسے؟؟۔۔پہلی بتانے لگی کہ۔۔وہ اس طرح کہ دونوں میاں بیوی میں لڑائی ہورہی تھی، اس دوران نازیہ نے اپنے شوہر سے کہا مجھے ابھی کے ابھی تم سے طلاق چاہئیے۔۔یہ کہہ کر پہلی والی سانس لینے رکی تو دوسری نے جلدی سے لقمہ دیا۔۔تو کیا وہ صدمے سے مر گیا؟؟ یہ سوال سن کر پہلی والی مسکرائی اور کہنے لگی۔۔ارے نہیں۔۔وہ اچانک اتنی بڑی خوشی برداشت نہیں کرسکا۔۔طلاق کے مقدمے میں ایک خوبصورت عورت نے جج کو بتایا۔ ’’ہم دونوں شادی کے بعد ایک سال تک بے حد خوش و خرم زندگی بسر کرتے رہے مگر پھر بے بی کے آنے کے بعد ہماری اذدواجی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوتی گئی۔‘‘۔۔ جج نے پوچھا۔’’بے بی لڑکا ہے یا لڑکی؟‘‘ عورت نے جواب دیا۔ ’’لڑکی وہ بھی اٹھارہ سال کی نوجوان کی لڑکی۔۔ کچھ ہفتے پہلے ہمارے پڑوس کے ایک مکان میں آ کر رہنے لگی ہے۔‘‘۔۔ایک آدمی نے جوتشی سے پوچھا۔۔میری شادی کیوں نہیں ہو رہی ہے؟؟جوتشی نے برجستہ کہا۔۔کیسے ہو گی،کنڈلی میں سکھ ہی سکھ جو لکھا ہے ۔۔ایک صاحب ایک وکیل کے پاس پہنچے اور بولے۔۔ میں اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں کیونکہ اس نے سال بھر سے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔۔وکیل صاحب نے بغور اس آدمی کے چہرے کو دیکھا اور انتہائی نرم لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہنے لگا۔۔ میں فیس کی خاطر آپکا کیس لے سکتا ہوں، مگر میرامشورہ ہے کہ آپ اس پر دوبارہ غور کریں.ایسی بیویاں صرف قسمت والوں کو ملتی ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔۔خواتین کو صنف نازک اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کا دل بھی نرم ہوتا ہے پھر پتہ نہیں فرش پر ’’ٹاکی‘‘ مارنے کے بعد وہ اتنی پتھردل کیسے ہوجاتی ہیں؟؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔