... loading ...
مسلم معاشرے میں اعلیٰ صلاحیتوں اور نمایاں اوصاف کے حامل افراد کو ان کی شخصیت سے مختص وصف و صلاحیت کے اعتراف کے طور پر خطاب و القاب دینے کی روایت قدیم و دیرینہ رہی ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ میں بھی کئی ایسے صحابہؓ موجود تھے جن کو ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے القابات سے نوازا۔ خصوصاً حضرت عمیر بن عامر الدوسی الیمانی کو بلیوں کی جانب ان کی رغبت دیکھ کر آپؐ نے ’’ابوہریرہ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، اور یہ لقب ان کی ذات سے اس طرح پیوست ہوگیا کہ ان کا اصل نام معدوم ہوگیا اور وہ عالمِ اسلام میں ہمیشہ کے لیے ابوہریرہ کے لقب سے معروف ہوگئے۔ چنانچہ خطاب یا لقب دینا مسلم معاشرے کی ایک ایسی روایت بن گئی جو خلافتِ راشدہ سے خلافتِ عثمانیہ تک عام رہی ہے۔ حضرت نعمان بن ثابت اپنی کنیّت ’’ابوحنیفہ‘‘ سے اور محی الدین ابنِ عربی اپنے لقب ’’شیخِ اکبر‘‘ سے معروف ہوئے۔ ’’سیاست نامہ‘‘ کے مصنف اور سلجوقی سلطان الپ ارسلان کے وزیر ابوعلی الحسن نے ’’نظام الملک الطوسی‘‘ کے لقب سے شہرت پائی۔ جب مسلمانوں کا ہندوستان میں ورود ہوا تو یہاں بھی یہ روایت قائم و جاری رہی۔ مختلف شہنشاہوں اور حکمرانوں کو ان کے درباروں سے القابات اور خطابات دئیے گئے۔ اسی طرح شہنشاہوں اور حکمرانوں نے بھی اپنے درباروں سے وابستہ اہم اور باصلاحیت افراد کو ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر خطاب اور لقب عطا کیے۔
برصغیر پاک و ہند میں بعض مغل شہنشاہوں نے جن میں جہانگیر اور اورنگزیب عالمگیر سرِفہرست ہیں، تخت نشینی کے بعد اپنے لیے ایسے خطابات اور القابات بذاتِ خود اختیار کیے جو عصری تاریخ میں ان کے کردار کے آئینہ دار ثابت ہوئے۔ القابات اور خطابات کی یہ روایت درباروں اور حکمرانوں تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ صوفیاء، علماء، ادباء اور شعراء میں بھی اسے مقبولیت حاصل ہوئی اور عوامی حلقوں کی جانب سے القابات اور خطابات دینے کے رجحان کو تقویت ملی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو’’سلطان الہند‘‘ اور ’’غریب نواز‘‘ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو ’’سلطان الاولیاء‘‘ کہا گیا۔ سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو ’’داتا گنج بخش‘‘، سید عثمان ماروندی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’قلندر شہباز‘‘ ، حافظ عبدالوہاب کو ’’سچل سرمست‘‘ اور پیر صبغت اللہ شاہ کو ’’پیر پگارو‘‘ کے خطابات سے مقبولیت حاصل ہوئی۔ علمائے دین میں حضرت شیخ احمدسرہندی رحمۃ اللہ علیہ اپنے خطاب ’’مجدد الف ثانی‘‘ سے معروف ہوئے۔ ملا عبدالعلی فرنگی محلی کو ’’بحر العلوم‘‘ کہا گیا۔ مولانا لطف اللہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’استاذ العلما‘‘، مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’اعلیٰ حضرت‘‘، مولانا اشرف علی تھانوی کو ’’حکیم الامت‘‘ اور مولانا محمود الحسن کو ’’شیخ الہند‘‘ کے خطابات سے شہرت ملی۔
مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستان میں انگریزوں اور مقامی ریاستوں نے بھی اس روایت پر عمل کرتے ہوئے ’’خان بہادر‘‘، ’’شمس العلماء‘‘ اور ’’سر‘‘ جیسے خطابات سے ممتاز افراد کو نوازا۔ مثلاً سید احمد خان کو ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا اور یہ خطاب ان کے نام کا ایسا حصہ بن گیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے سرسید ہوگئے۔ مرزا داغ دہلوی ’’فصیح الملک‘‘، نواب مشتاق حسین ’’وقار الملک‘‘، نواب مہدی علی خان ’’محسن الملک‘‘ اور حکیم محمد اجمل خان’’مسیح الملک‘‘ کے خطابات سے پہچانے گئے۔ اکبر الٰہ آبادی کو ’’لسان العصر‘‘، مولانا حبیب الرحمن شیروانی کو ’’صدریار جنگ‘‘ ، علامہ راشد الخیری کو ’’مصورِ غم‘‘ اور مولوی عبدالحق کو ’’بابائے اُردو‘‘ کے خطابات سے عمومی شہرت ملی۔
ہندوستان میں جدوجہدِ آزادی کے دوران اس روایت کو عوامی سطح پر مزید مقبولیت حاصل ہوئی اور مختلف رہنماؤں کو خطابات دئیے گئے، مثلاً مولانا محمد علی جوہر کو ’’رئیس الاحرار‘‘ ، مولانا ابوالکلام آزاد کو ’’امام الہند‘‘، مولانا حسرت موہانی کو ’’سید الاحرار‘‘، علامہ اقبال کو ’’شاعرِ مشرق‘‘، نواب بہادر خان کو پہلے ’’بہادر یار جنگ‘‘ اور پھر ’’قائدِ ملت‘‘ کے خطابات سے نوازا گیا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کو تحریکِ پاکستان کے دوران ’’قائدِ ملت‘‘ اور شہادت کے بعد ’’شہیدِ ملت‘‘ کے خطاب سے یاد کیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح ’’مادرِ ملت‘‘ کے خطاب سے معروف ہوئیں۔ عوامی تحریکات سے وابستہ افراد کو خطابات سے نوازنے کا جہاں ایک مقصد سامراجی حکومت کی جانب سے عطا کردہ سرکاری خطابات کی قدر و منزلت کو گھٹانا تھا، وہاں دوسری طرف ہندو رہنماؤں کے مقابلے میں مسلم قیادت کا اعتراف و اعلان بھی تھا۔
بیسویں صدی کے ابتدائی تین عشروں میں کسی رہنما کے لیے قائد کا لفظ تو بطور خطاب اکثر استعمال ہوتا رہا، البتہ ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب خال خال ہی استعمال کیا گیا۔ لیکن تحریکِ پاکستان اور علیحدہ مسلم قومیت کے احساس کے فروغ کے ساتھ بالآخر یہ خطاب مسلمانوں کے مسلمہ رہنما محمد علی جناح کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا۔ بحوالۂ تاریخ برصغیر پاک و ہند میں یہ خطاب سب سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد کے لیے استعمال کیا گیا۔ مولانا آزاد کی 10جنوری 1913ء کی ایک تقریر 1921ء میں کتابی صورت میں شائع ہوئی تو اس کتاب کے پبلشر مشتاق احمد نے کتاب کے آغاز پر لکھا کہ ’’مولانا کی چشمِ حقیقت بیں اُس وقت سب کچھ دیکھ رہی تھی جو آج پیش آیا ہے۔ ایک حقیقی مصلح، ریفارمر یا ’’قائداعظم‘‘ میں یہ وصف ہونا لازمی ہے کہ آئندہ کے متعلق صحیح نتائج پر پہنچا جائے‘‘۔ اس کتاب کی اشاعت کے تقریباً دو برس بعد یعنی 31 مارچ 1923ء کو لکھنؤ کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی مجلسِ استقبالیہ کے چیئرمین شیخ شاہد حسین نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں یہ خطاب ترکی کے رہنما مصطفی کمال پاشا کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے کہا: ’’ملتِ ترکیہ جس کی قیادت اس وقت دنیائے اسلام کے وہ پُرجلال باجبروت ہیرو کررہے ہیں، جن کا پیارا نام مجدّدِ خلافت، بطلِ حریت، خالد ثانی، قائداعظم، غازی مصطفی کمال پاشا ہے‘‘۔
انڈین نیشنل کانگریس اور تحریکِ خلافت کے رہنما ڈاکٹر مختار احمد انصاری کا ایک بیان شائع کرتے ہوئے لاہور کے ایک اخبار’’ انقلاب‘‘ نے اپنی اشاعت 6 اپریل 1928ء میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے نام کے ساتھ ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب استعمال کیا۔ اسی سال علی گڑھ سے سید طفیل احمد منگلوری کی ایک کتاب جداگانہ انتخابات کے بارے میں شائع ہوئی جس کے آخر میں نظامی پریس، بدایوں کی مطبوعات کے اشتہارات درج تھے، انہی اشتہارات میں سے ایک میں روس کے مشہور افسانہ نگار ٹالسٹائی کو ’’روس کا قائداعظم‘‘ لکھا گیا۔ 1928ء میں ہی ہندو رہنما موہن داس کرم چند گاندھی کی تقریروں اور تحریروں کا ایک مجموعہ لالہ متعدی لال ہندی نے ’’بیدارئ ہند‘‘ کے نام سے ترتیب دیا۔ اس مجموعے کا ایک اشتہار کانپور کے رسالے ماہنامہ زمانہ کی اشاعت بابت 1929ء میں شائع ہوا جس میں گاندھی کے نام کے ساتھ بیک وقت ’’مہاتما‘‘ اور ’’قائداعظم‘‘ کے خطابات استعمال کیے گئے۔ بجنور سے شائع ہونے والے سہ روزہ اخبار مدینہ نے 13جنوری 1931ء کی اشاعت میں تحریکِ خلافت کے رہنما مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ایک تعزیتی شذرہ شائع کیا، جس کا عنوان تھا ’’قائداعظم کی وفات‘‘۔ مدینہ اخبار کی اسی اشاعت میں ’’اشکِ خوں‘‘ کے عنوان سے خورشید آرا بیگم (بعد ازاں بیگم نواب صدیق علی خاں) کی ایک نظم شائع ہوئی جس میں مولانا محمد علی جوہر کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا گیا تھا۔ اس نظم کے ایک شعر میں بھی مولانا محمد علی جوہر کے لیے ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب استعمال کیا گیا تھا، شعر یہ تھا:
الوداع اے قائدِ اعظم او بطلِ حریت
الوداع اے بہترئ قوم را روح الامیں
مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر مختلف رہنماؤں نے اپنے تعزیتی پیغامات میں اور اخبارات نے خبروں اور ادارتی تبصروں میں اُن کے لیے قائدِ ملت، شہیدِ ملت، شہیدِ وطن، شہیدِ اسلام، رحیمِ ملت اور زعیمِ اعظم کے خطابات استعمال کیے، جب کہ دہلی کے ایک اخبار ’’ملت‘‘ نے ان کو اسلامی ملت کا قائداعظم قرار دیا۔ اسی طرح 1936ء میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے نام کے ساتھ بھی ’’قائداعظم‘‘ لکھا گیا۔ دراصل ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین کی انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک کتابچہ شائع کیا گیا جس کے آخر میں علامہ اقبال کا ایک پیغام بعنوان ’’مسلمانانِ لاہور سے اپیل‘‘ درج کیا گیا۔ یہ کتابچہ غلام رسول خان بیرسٹر ایٹ لا سیکریٹری پنجاب مسلم لیگ، پارلیمنٹری بورڈ نے لاہور سے شائع کیا تھا۔ اس کتابچہ میں علامہ اقبال کے پیغام کے آغاز پر یوں لکھا گیا تھا: ’’مسلمانانِ پنجاب کے مخلص رہنما اور ’’قائداعظم‘‘ علامہ سر محمد اقبال کے حسبِ ذیل پیغام پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے‘‘۔
دراصل اس دور میں اُردو اخبارات و رسائل جب کسی اہم رہنما کی توقیر اور عزت افزائی چاہتے تھے تو اسے ’’قائداعظم‘‘ کے خطاب سے نواز دیتے تھے۔ لیکن یہ عمل مستقل نہیں ہوتا تھا جس کی بناء پر قائداعظم کا خطاب کسی ایک رہنما کے نام سے وابستہ نہیں ہوسکا۔ اس عمل میں کوئی خاص تخصیص بھی روا نہیں رکھی جاتی تھی، جیسا کہ روزنامہ ’’زمیندار‘‘ لاہور نے کشمیر کے ایک مذہبی رہنما پیر حسام الدین جیلانی کی قید سے رہائی کی خبر 7جولائی 1932ء کو شائع کرتے ہوئے ان کے نام کے ساتھ ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب استعمال کیا۔ مزید برآں پنجاب کے ایک شاعر مرزا بیضہ خاں امرتسری نے 1938ء میں مصطفی کمال پاشا کے انتقال پر اپنے منظوم خراجِ عقیدت میں ان کو ’’قائداعظم‘‘ کہا۔ یہ نظم 15نومبر1938ء کے روزنامہ انقلاب لاہور میں شائع ہوئی تھی۔
محمد علی جناح نے اپریل 1934ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ازسرِنو صدارت سنبھالی اور شبانہ روز جدوجہد سے بہت جلد مسلم لیگ کے تنِ مُردہ میں جان ڈال دی۔ اس دَور میں مسلمانانِ ہند کو نہ صرف ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت تھی بلکہ وہ ایک ایسا رہنما بھی چاہتے تھے جو ان کی دیرینہ قومی امنگوں اور آرزوؤں کی آبیاری کرکے ان کو ایک تناور درخت کی شکل دے سکے۔ اور اُس دَور میں یہ بات طے پاچکی تھی کہ صرف محمد علی جناح ہی اس کام کو بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں، چنانچہ مسلمانوں نے ان کو 1936ء کے آخر میں اپنا ’’قائداعظم‘‘ کہنا شروع کردیا۔ اپنے تاریخی تناظر اور تسلسل میں جناح کے لیے قائداعظم کا خطاب کوئی غیر معمولی بات نہ تھی، کیوں کہ ان سے قبل بھی بہت سے رہنماؤں کو اس خطاب سے نوازا گیا، مگر جناح کو جس انداز میں اس خطاب سے نوازا گیا اور جس طرح یہ خطاب ان کی ذات سے مخصوص ہوکر رہ گیا وہ یقیناًغیر معمولی بات تھی اور اس کا تجزیہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ محمد علی جناح کو قائداعظم کا خطاب ملنے سے قبل ان کے نام کے ساتھ عموماً رائٹ آنریبل، زعیمِ ملت اور قائدِ ملت جیسے القابات استعمال کیے جاتے رہے، لیکن جیسے جیسے وہ مقبولیت حاصل کرتے گئے، ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب ان کے نام کا متبادل قرار پاتا چلا گیا۔
بحوالۂ تاریخ محمد علی جناح کے لیے سب سے پہلے یہ خطاب جمعیت علمائے ہند کے سیکریٹری مولانا احمد سعید دہلوی نے استعمال کیا تھا۔ محمد امین زبیری مارہروی نے اپنی کتاب ’’سیاستِ ملیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’7دسمبر 1936ء کو مراد آباد کی جامع مسجد میں مولانا احمد سعید دہلوی نے جناح کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج مسلمانوں میں سیاست کو سمجھنے والا اس سے بہتر کوئی شخص نہیں، لہٰذا مسلمانوں کے ’’قائداعظم‘‘ ہونے کے وہ بجاطور پر مستحق ہیں‘‘۔ جب کہ ایک معروف مصنف اور تحریکِ پاکستان کے قلمی معاون جمیل الدین احمد نے اپنی انگریزی کتاب ’’گلمپ سز آف قائداعظم‘‘ میں خیال ظاہر کیا ہے کہ محمد علی جناح کے لیے یہ خطاب دہلی کے پندرہ روزہ اخبار ’’الامان‘‘ کے مدیر مولانا مظہر الدین شیرکوٹی نے تجویز کیا تھا۔ مشہور صحافی اور شاعر عبدالمجید سالک نے اپنی کتاب ’’سرگزشت‘‘ میں خیال ظاہر کیا ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے تحریکِ خلافت کے ایک پُرانے کارکن میاں فیروز الدین نے لیگ کے جلسوں میں ’’قائداعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاکر اس خطاب کو مقبول بنایا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے قائداعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید کے حوالے سے اپنی کتاب ’’قائداعظم جناح اسٹیڈیز اِن انٹرپریٹیشن‘‘ میں لکھا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس لکھنؤ منعقدہ اکتوبر 1937ء میں مولانا ظفر علی خان نے محمد علی جناح کو قائداعظم کے خطاب سے مخاطب کیا۔ مولانا ظفر علی خان کے الفاظ تھے ’’ہمارے قائد محمد علی جناح، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارے قائداعظم محمد علی جناح۔۔۔‘‘ دسمبر 1937ء کے اواخر میں محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے تنظیمی دورے پر بہارگئے تو اُس موقع پر کلکتہ کے اخبار ’’عصرِ جدید‘‘ نے اپنی 3جنوری 1938ء کی اشاعت میں ایک خبر کی سرخی میں لکھا: ’’گیا میں مسلمانانِ ہند کا قائد اعظم‘‘۔ اپریل 1938ء میں پنجاب کے وزیراعلیٰ سرسکندر حیات خان نے کلکتہ میں اپنی ایک تقریر کے دوران جناح کے لیے قائداعظم کا خطاب باربار استعمال کیا۔ غرض کہ 1938ء کے آغاز پر ہی محمد علی جناح کے لیے قائداعظم کا خطاب اس قدر عام ہوگیا تھا کہ تمام مسلم پریس اور رہنما جناح کو ’’قائداعظم‘‘ کے خطاب سے ہی مخاطب کرنے لگے تھے۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 22دسمبر 1939ء کو مسلمانانِ ہند نے کانگریسی حکومت کے خاتمے کی خوشی میں قائداعظم کی اپیل پر نہایت جوش و خروش سے یومِ نجات منایا۔ اس موقع پر گلبرگہ کے مسلمانوں نے ایک ٹیلی گرام گاندھی جی کو ارسال کیا جس کے الفاظ تھے ’’یومِ نجات کی تہنیت۔۔۔ قائداعظم زندہ باد‘‘۔ گاندھی جی کانگریسی حکومتوں کے خاتمے پر ویسے ہی چراغ پا تھے، یہ ٹیلی گرام ملتے ہی اور بھڑک اُٹھے۔ انہوں نے 16جنوری 1940ء کو قائداعظم کی خدمت میں ایک خط ارسال کیا جس کے آغاز پر محمد علی جناح کے بجائے محترم قائداعظم لکھا اور پھر خط میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’کسی ہندوستانی کے نام کے آگے ’’مسٹر‘‘ تحریر کرنا مجھے پسند نہیں اور یہ غیر موزوں بھی ہے، اس لیے حکیم صاحب مرحوم (حکیم محمد اجمل خان) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق میں آپ کو ہمیشہ ’’جناح صاحب‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کرتا رہا ہوں، لیکن امت السلام (گاندھی جی کی ایک داسی) نے مجھ سے کہا کہ لیگی حلقوں میں آپ کو قائداعظم کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اور اب یہ ٹیلی گرام دیکھ کر جو گلبرگہ سے وصول ہوا ہے اس کی مزید تصدیق ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ باور کریں گے کہ جو کچھ میں نے کیا ہے وہ نیک نیتی کے ساتھ اور آپ کی خاطر کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں کہ میں کسی دوسرے القاب سے آپ کو مخاطب کروں تو بہرحال اس کی بھی تعمیل کی جائے گی‘‘۔ گاندھی جی کے اس خط کا جواب قائداعظم نے 21جنوری 1940ء کو دیا۔ قائداعظم نے اپنے خط میں دیگر اُمور پر روشنی ڈالنے کے علاوہ اس خطاب کے استعمال کے بارے میں لکھا کہ: ’’القاب کی اہمیت ہی کتنی ہوتی ہے۔ گلاب کو خواہ کسی بھی نام سے یاد کیا جائے، اس کی خوشبو بہرحال باقی رہے گی۔ اس لیے میں اس معاملے کو آپ کی مرضی پر چھوڑتا ہوں اور اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ البتہ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آپ اس کے لیے اتنے پریشان کیوں ہیں! بہرحال مجھے معلوم ہوا ہے کہ جو خطاب اس وقت آپ استعمال کررہے ہیں وہ حکیم صاحب مرحوم کے بتائے ہوئے ہیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ حکیم صاحب کی زندگی میں بھی اور ان کے انتقال کے بعد بھی ایک عرصے تک آپ نے مجھے مسٹر ہی کے لفظ سے مخاطب کیا ہے، اس کے بعد سے حال تک آپ نے مجھے ’’شری‘‘ کے لقب سے مخاطب کیا ہے لیکن اس ضمن میں زیادہ تردد اور فکر کی حاجت نہیں‘‘۔
گاندھی جی کی جانب سے محمد علی جناح کے لیے’’قائداعظم‘‘ کا خطاب استعمال کرنے کا سب سے زیادہ رنج مولانا ابوالکلام آزاد کو ہوا جس کا انہوں نے برسوں کے بعد اپنی کتاب ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ میں اظہار کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’یہ گاندھی کی ذات تھی جس نے ’’قائداعظم‘‘ کے خطاب کو جو مسٹر جناح سے منسوب ہوا، شہرت عطا کی۔ گاندھی کے کیمپ میں ایک سادہ مگر نیک خاتون مس امت السلام تھیں۔ انہوں نے چند اُردو اخبارات میں دیکھا کہ مسٹر جناح کو قائداعظم کہا گیا ہے، چنانچہ جب گاندھی جی مسٹر جناح سے ملاقات کا وقت طے کرنے کے لیے خط لکھ رہے تھے تو انہوں نے گاندھی جی سے کہا کہ اُردو اخبارات مسٹر جناح کو قائداعظم کہتے ہیں اس لیے آپ بھی یہی خطاب استعمال کیجیے۔ گاندھی جی نے اپنے اس عمل کے نتائج پر ایک لمحہ بھی غور کیے بغیر مسٹر جناح کو ’’قائداعظم ‘‘ لکھ کر مخاطب کرلیا۔ گاندھی جی کا یہ خط بعد میں اخبارات میں شائع ہوا۔ جب ہندوستان کے مسلمانوں نے یہ دیکھا کہ گاندھی جی نے بھی مسٹر جناح کو قائداعظم کہہ کر مخاطب کیا ہے تو انہوں نے بھی یہ طے کرلیا کہ واقعی مسٹر جناح قائداعظم ہیں۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ بیان صرف مولانا کی انانیت اور خفگی کو ہی ظاہر نہیں کرتا بلکہ ان کے اُس رنج کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ برصغیر میں یہ خطاب سب سے پہلے ان کے لیے استعمال ہوا تھا لیکن آج مسٹر محمد علی جناح کی ذات سے ہمیشہ کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مولانا آزاد کے بیان کا یہ حصہ کہ گاندھی جی نے مسٹر جناح کو قائداعظم لکھ کر اس خطاب کو مسلمانانِ ہند میں قبولیت عطا کی، حقائق سے چشم پوشی کی واضح دلیل ہے۔ محمد علی جناح کو پہلی مرتبہ 1936ء میں قائداعظم کہا گیا اور پھر یہ خطاب 1938ء کے آغاز میں ان کے نام کا ایک حصہ بن گیا، جب کہ گاندھی جی نے بہت بعد میں یعنی 16جنوری 1940ء کو اپنے خط میں محمد علی جناح کے لیے قائداعظم کا خطاب استعمال کیا تھا۔
قائداعظم کا یہ خطاب محمد علی جناح کو ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے مکمل اعتماد کی علامت کے طور پر دیا تھا۔ اس طرح مسلمان کانگریس کے ان دعووں اور پروپیگنڈے کی بھی نفی کرنا چاہتے تھے جو کانگریس بعض قوم پرست مسلمانوں کو اسلامیانِ ہند کا رہنما بنانے کے سلسلے میں کرتی رہتی تھی، چنانچہ اس طرح مسلمانوں نے محمد علی جناح کو اپنی مکمل نیابت کا وہ حق بھی فراہم کردیا تھا جو اس دَور میں کسی اور مسلمان کو حاصل نہیں تھا۔
قائداعظم کا خطاب محمد علی جناح کے نام کے ساتھ استعمال ہونا اگرچہ 1937-38ء میں عام ہوگیا تھا لیکن جہاں تک لیگ کی سرکاری دستاویزات کا تعلق ہے، ان میں اس خطاب کو کئی برس بعد استعمال کیا گیا۔ سب سے پہلے لیگ کی دستاویزات میں یہ خطاب مسلم لیگ کونسل کی اُس قرارداد میں استعمال ہوا تھا جو 7مارچ 1943ء کو دہلی کے اجلاس میں منظور کی گئی اور جس میں لیگ کے ازسر نو صدر کی حیثیت سے محمد علی جناح کے انتخاب کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ بعد ازاں محمد علی جناح کے نام کے ساتھ اس خطاب کے استعمال کی اہمیت ان کی اعلیٰ ترین قیادت اور ہندوستان کی سیاست میں ان کے مؤثر ترین کردار کی روشنی میں پوری دنیا پر واضح ہوتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ جون 1947ء میں اسلامیانِ ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا اور وہ اس ملکِ خداداد ’’پاکستان‘‘ کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قرار پائے۔ ان کی اسی حیرت انگیز کامیابی، بے لوث خدمتِ قومی اور شاندار قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے پاکستان کے باقاعدہ قائم ہونے سے صرف دو دن قبل ایک قرارداد کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے صدر اور پاکستان کے نامزد گورنر جنرل مسٹر محمد علی جناح کو تمام سرکاری فرامین، دستاویزات، خطوط اور مراسلات میں 15اگست 1947ء سے ’’قائداعظم محمد علی جناح‘‘ لکھا جائے گا۔ ایک رہنما کی زندگی میں اس کی قوم کا یہ اعتراف بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کم ہی ایسے رہنما ہوں گے جن کو ان کی قوم نے متفقہ طور پر ایسی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا ہو اور پھر اس کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا ہو۔ اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح ہر طرح کے القاب و خطابات سے بے نیاز تھے۔ وہ اپنی عوامی زندگی کے تمام عرصے میں ہمیشہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی بھی عہدہ، منصب، خطاب یا لقب قبول کرنے سے گریزاں رہے، حتیٰ کہ انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری تک لینا پسند نہ کی، حالاں کہ وہ اس یونیورسٹی کو بے حد عزیز رکھتے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کے نام 4 اکتوبر1942ء کو اپنے خط میں لکھا: ’’بلاشبہ میں اس جذبے کی بے حد قدرکرتا ہوں جس کے ہاتھوں مجبور ہوکر مسلم یونیورسٹی کے کورٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے، تاہم میں بادلِ نخواستہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں اب تک محض ’’مسٹر جناح‘‘ کی حیثیت سے زندگی بسر کرتا رہا ہوں اور یہ توقع کرتا ہوں کہ میں صرف ’’مسٹر جناح‘‘ کی حیثیت سے ہی انتقال کروں گا۔ میں ہر قسم کے خطاب، لقب اور اعزاز کا مخالف ہوں اور میرے لیے یہ زیادہ خوشی کی بات ہوگی کہ میرے نام کے ساتھ کوئی سابقہ نہ لگایا جائے‘‘۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے محمد علی جناح کو ’’قائداعظم‘‘ کا خطاب دے کر ان کی اُن خدماتِ جلیلہ کا عام اعتراف کیا تھا جو انہوں نے اپنی 72 سالہ زندگی میں تقریباً 42 سال پر محیط اپنی سیاسی اور عوامی زندگی کے دوران آزادی اور اسلامیانِ ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لیے سرانجام دی تھیں، اور یہ ایک شاکر قوم کا اپنے مسلمہ رہنما کے لیے ایک جذباتی اور قلبی اعتراف تھا، جیسا کہ 11ستمبر 1948ء کو ان کے انتقال پر لندن کے اخبار ’’دی ٹائمز‘‘ نے اپنے اداریہ میں اعتراف کیا ہے کہ ’’محمد علی جناح، اُن لوگوں کے لیے جن کی انہوں نے رہنمائی کی، ’’قائداعظم‘‘ سے بھی بڑھ کر کچھ اور تھے اور جس اسلامی قوم کی تشکیل انہوں نے خود کی تھی، وہ اس کے معمار ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تھے‘‘۔
ہمارے ہاں ایک چھوٹا سا طبقہ یہ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ 11 اگست 1947ء کو سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں پیدا ہوئے، اسی دن تحریک پاکستان پورے جوش و خروش کے ساتھ چلی اور چند ہی گھنٹوں میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا، اسی دن قائد نے پاکستان کی پہلی دستور...
مسلمانانِ ہند کے لئے دوقومی نظریئے کے تحت عظیم جدوجہد کے بعد الگ ملک حاصل کرنے والے بانئ پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا 139واں یوم ولادت ملک بھر میں آج ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو سندھ کے موجودہ دارالحکومت کراچ...