وجود

... loading ...

وجود

’’او آئی سی‘‘ کا سکہ چل گیا؟

جمعرات 23 دسمبر 2021 ’’او آئی سی‘‘ کا سکہ چل گیا؟

 

مشہور مثل ہے کہ ’’ کبھی وقت پڑے تو کھوٹا سکہ بھی چل جاتاہے ‘‘۔ یہ ضرب المثل رواں ہفتے اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی کانفرنس کے اجلاس پر پوری طرح سے صادق آتی ہے۔کیونکہ او آئی سی تنظیم روزِ اول سے ہی عالم ِ اسلام کا وہ کھوٹا سکہ ثابت ہوئی ہے ، جس کی وقعت اور قیمت بین الاقوامی سفارت کاری کے میدان میں کبھی ٹکے برابر بھی نہیں رہی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں اس تنظیم پر اکثر و بیشترOh I Seeکی پھبتی کس کر خوب بھد اُڑائی جاتی ہے۔جبکہ اوآئی سی نے بھی خود کو مردہ گھوڑا ثابت کرنے میں اپنی جانب سے کوئی کسر نہیں اُٹھارکھی ۔ یعنی اسلام اور اہل اسلام پر چاہے کتنے ہی مشکلات و مصائب کے سیاہ بادل چھاجائیں لیکن او آئی سی کا بنیادی وظیفہ صرف ایک مذمتی بیان جاری کرنے اور مذمتی قراردار پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں رہا اور بعض اوقات تو اوآئی سی کی طرف سے مذمتی بیان اور قرارداد پیش کرنے کا تکلف بھی نہیں برتا جاتا ۔ہمارے خیال میں اگر کبھی دنیا کی سب غیر فعال اور غیر موثر سفارتی تنظیمات کے متعلق اعداد و شمار اکھٹے کیے جائیں تو عین ممکن ہے کہ اوآئی سی سرفہرست رہے۔
مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اسلام آباد کی کامیاب سفارت کاری کے طفیل اوآئی سی کے تن مردہ میں بھی نئی روح پھونک دی ہے اور عالم اسلام کا برسوں پرانا یہ کھوٹا سکہ بھی بالآخر چل ہی گیا۔لیکن یہ کھوٹا سکہ کس نرخ اور قیمت پر چلاہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر ایک بات طے ہے کہ افغانستان میں جاری بحران کے حوالے سے فقط دو ہفتے کے قلیل ترین نوٹس پر او آئی سی کانفرنس کا اسلام آباد میں منعقد ہونا ایک ایسا انوکھا واقعہ ہے، جس کے رونما ہونے کی توقع مشکل ہی سے کی جاسکتی تھی۔ بہرحال پاکستان اورسعودی عرب کی کوششیں رنگ لائیں اور یوں ،ا و آئی سی عالمی سفارت کاری میدان میں اپنی تاریخ کا سب سے موثر اجلاس کرنے میں کامیاب رہی ۔ یاد رہے کہ او آئی سی کانفرنس کا یہ اجلاس سعودی عرب کی خواہش پر بلایا گیاتھا جو اوآئی سی سربراہی اجلاس کا موجودہ صدر بھی ہے ۔ نیزپاکستان کی جانب سے او آئی سی کے 17 ویں اجلاس کی میزبانی کرنا ،اس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی سفارت کاری کے اُفق پر وطن عزیز پاکستان ایک روشن ،چمکتے دمکتے ہوئے ستارے کی مانند جگمگا رہا ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ حالیہ اجلاس کی سب سے اہم ترین بات یہ تھی کہ اس میں میں او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرا خارجہ کے علاوہ اقوام متحدہ، عالمی مالیاتی اداروں اور امریکا، برطانیا، فرانس، چین، روس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور یورپی یونین کے نمائندوں سمیت بعض غیررکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور40 سے زائد دیگر بین الاقوامی تنظیمات کے اراکین اور اُن کے نمائندہ وفود نے بھی بھرپور شرکت کی۔اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کے لیے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل، انڈونیشیا، ترکی، ایران، بنگلہ دیش، آذربائیجان، کویت، بحرین، ترکمانستان سمیت کم ازکم دو درجن سے زائد اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ بہ نفس نفیس اسلام آباد پہنچے تھے۔ چونکہ او آئی سی کا یہ اجلاس افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال کے پس منظر میں بلایا گیا تھا ،اس لیئے تمام شرکائے اجلاس نے افغان عوام کیساتھ یکجہتی کے اظہار کے علاوہ افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال سے بچا ؤ، خاص طورپر غذائی قلت، عوام کے بے گھر ہونے اور معاشی انہدام جیسے پہلوؤں پر تفصیلی گفت و شنید کے ساتھ ساتھ قابل عمل تجاویز پر اتفاق بھی کیا۔حیران کن طور پر عالمی ذرائع ابلاغ نے او آئی سی اجلاس کے بھرپور کوریج کرتے ہوئے اسے پاکستان کی متحرک وفعال سفارتی کاوشوں کا ایک قابل فخر مظہر اور ثبوت قرار دیا۔
واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان او آئی، سی کے بانی ارکان ہیں اور او آئی سی وزرا خارجہ کونسل کا پہلا غیرمعمولی اجلاس جنوری 1980 میں اسلام آباد میں ہی منعقد ہوا تھا جس کا موضوع بھی اُس وقت کی فغانستان کی صورتحال پر غور ہوا تھا۔جبکہ 2007 میں وزرا خارجہ کونسل کے آخری اجلاس کی میزبانی بھی پاکستان نے کی تھی۔پورے چودہ برس بعد او آئی سی کا یہ غیر معمولی اجلاس پارلیمنٹ ہائوس ، اسلام آباد کے قومی اسمبلی ہال میں منعقد ہو ا، جس کے لیے ہال کو مسلم ممالک کے پرچموں سے سجایا گیا تھا۔ اجلاس کاکلید ی خطاب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کیا۔اپنی تقریر میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ’’ کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی صورتحال کا سامنا نہیں، وہاں سالہا سال سے کرپٹ حکومتیں رہیں، افغانستان کے حالات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا،اگر دنیا نے افغانستان میںفلاح و بہبود کے قدامات نہ کیے تو وہاںتاریخ کا سب سے بڑا انسانی بحران اور المیے جنم لے سکتے ہیں ۔کیونکہ افغانستان کی 90 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ المیہ یہ ہے کہ 41 سال پہلے بھی پاکستان میں افغانستان کی بحالی اور استحکام کیلئے کانفرنس ہوئی تھی،لیکن وہ خاطر خواہ نتائج نہ دے سکی ۔ اُمید ہے کہ اس بار ایسا نہ ہوگا‘‘۔وزیراعظم عمران خان کا مزید کہناتھا کہ’’ افغانستان کا 75 فیصد بجٹ غیرملکی امداد پر مشتمل رہا ہے،اقوام متحدہ کے انڈرسیکرٹری مائیکل گرفٹ نے جواعداد وشماردیے وہ حیران کن ہیں،یہ مسئلہ افغان عوام کا ہے،ہم پہلے ہی افغان عوام کی داد رسی میں تاخیرکا شکار ہو چکے ہیں۔اس لیے ہمیں مزید غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ۔میری طالبان کے وزیرخارجہ سے ملاقات ہوئی ہے،وہ مغربی و یورپی ممالک کی شرائط پرعملدرآمد کے لیے تیار ہیںمگر سب سے پہلے دنیا کو افغانستان کے بیرونی اثاثے اور امداد بحال کرنا ہوگی‘‘۔
اوآئی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھاکہ’’ افغانستان میں کشیدہ صورتحال کے خطے اور دنیا پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں،اس وقت افغانستان کے عوام ہماری مدد کے منتظر ہیں، ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں،افغانستان کے لیے اجلاس اوربہترین انتظامات پر پاکستان کو مبارکباد دیتے ہیں۔جبکہ ہمیں افغانستان کے معاملے کوانسانی بنیادوں پر دیکھنا ہوگا، وہاں مالی بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے، افغانستان کو غذائی امداد اور مالیاتی اداروں کے استحکام کی ضرورت ہے، عالمی ادارے افغان عوام کی مدد کے لیے آگے بڑھیں‘‘۔نیز سعودی وزیر خارجہ نے افغانستان کے لیے ایک ارب سعودی ریال امداد فوری طور پر فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ جبکہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس سے ترک وزیرخارجہ میولت کائوسگلو، نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ او آئی سی کو دیگر عالمی اداروں سے مل کرافغان بحران پرقابو پانا چاہیے۔سرِ دست افغان عوام کو سب سے زیادہ خوراک کی کمی کا سامنا ہے، افغانستان کے لاکھوں افراد کو بھوک اور افلاس سے بچانے کے لیے ہمیں اُن کی بھرپور امداد کرنی چاہیئے ‘‘۔
دوسری جانب افغان وزیرخارجہ نے بھی او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے طالبان حکومت کا بنیادی موقف بھی دنیا کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کیا۔جبکہ طالبان رہنماؤں کو یورپی اورمغربی ممالک کے طالبان حکومت کے متعلق تمام تر تحفظات اور خدشات براہ راست سننے کا بھی موقع ملا۔بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کابل میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جب دنیا بھر سے اتنی بڑی تعداد میں وزرائے خارجہ ،سفارتی وفود اور نمائندہ تنظیمات کسی ایک مقام پر طالبان رہنماؤں سے بات چیت کرنے اور افغانستان کی مجموعی صورت حال پر غور وفکر کرنے کے لیے جمع ہوئی ہیں ۔شنید تو یہ ہی ہے کہ او آئی سی کے اس غیر معمولی اجلاس کے مثبت نتائج جلد ہی ظاہر ہونا شروع جائیں گے۔ سب سے انتہائی خوش آئند بات تو یہ ہے کہ ساری دنیا افغان عوام کو کسی بھی بڑے انسانی بحران کا ایندھن بننے سے بچانے کے لیئے پوری طرح سے متفق ہوچکی ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کونسل کے 17ویں غیر معمولی اجلاس میں منظور کی گئی متفقہ قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان میں معاشی بدحالی مہاجرین کے بڑے پیمانے پر انخلاء کا باعث بنے گی، نیزانتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم استحکام کو بھی فروغ ملے گا جس کے سنگین ترین نتائج علاقائی اور بین الاقوامی امن و استحکام پر پڑیں گے،جبکہ غربت سے نمٹنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اپنے شہریوں کو ضروری خدمات خاص طور پر خوراک، صاف پانی، معیاری تعلیم، صحت کی خدمات کی فراہمی میں افغانستان کی مدد کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے افغانستان کے لیے انسانی امداد کی فوری فراہمی میں بین الاقوامی برادری، پڑوسی ممالک، ڈونر ایجنسیوں اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی کوششوں پر زور دیا گیا، افغانستان کے مالی وسائل تک اس کی رسائی تباہی کو روکنے اور اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں اہم ہو گی، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے زیراہتمام ایک ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے اور افغان تحفظ خوراک پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کی جانب سے افغانستان کی خود مختاری، آزادی، علاقائی سالمیت اور قومی اتحاد کے بھرپور عزم کا اعادہ کیا گیا،نیز قرارداد میں افغانستان میں انسانی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقتصادی تعاون کو جاری رکھنے کی تجاویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سلسلہ میں بڑے پیمانے پر توانائی، ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی منصوبوں بشمول تاپی پائپ لائن بجلی کی ترسیل کے منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے نئے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغان عوام کی زیادہ سے زیادہ فلاح و بہبود ہو سکے۔
پاکستان ،چین اور سعودی عرب نے افغانستان کے مسئلے پر او آئی سی کے پلیٹ فارم کے تحت ایک فقید المثال عالمی اجتماع منعقد کر کے ثابت کردیا ہے کہ وہ مکمل خلوص نیت کے ساتھ افغانستان کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیئے یکسو ہیں ۔مگر یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا طالبان بھی اپنے ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر بنانے کے لیے اپنے دوست ممالک جیسے پاکستان اور چین کے مشورے ہمہ تن گوش ہوکر سننے کے لیے بھی تیار ہیں یا نہیں ؟۔کیونکہ جہاں دنیا کو طالبان کے متعلق اپنے خیالات میں کشادگی اور تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، تو وہیں طالبان کو بھی افغانستان میں ایک کثیر الجہتی اور تمام تر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ آئین نو یا نصب العین اپنانے کی اشد ضرورت لاحق ہے ۔فی الحال اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی کے غیر معمولی اور کامیاب اجلاس نے افغانستان میں بھوک اور افلاس کا خو فناک بحران تو وقتی طور پر سہی ،بہرحال ٹال ہی دیا ہے مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا انتظام و انصرام مستقل طو رپر چلانے کے لیے بیرونی امداد سے زیادہ دیرپا داخلی استحکام درکار ہوتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام وجود جمعه 01 نومبر 2024
اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام

آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟ وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟

ایرانی میزائل پروگرام: تاریخ، ترقی اور موجودہ چیلنجز وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
ایرانی میزائل پروگرام: تاریخ، ترقی اور موجودہ چیلنجز

مودی حکومت کی تخریب کاری کی عالمی کارروائیاں وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
مودی حکومت کی تخریب کاری کی عالمی کارروائیاں

یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی! وجود بدھ 30 اکتوبر 2024
یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر