وجود

... loading ...

وجود

روح کازخم

جمعرات 23 دسمبر 2021 روح کازخم

ہرسال دسمبر آتاہے تو دل کے زخم اس طرح ہرے ہوجاتے ہیں جیسے ان سے لہو رس رہاہو کئی مرتبہ دعا بھی کی ہے الہی اس سال دسمبر نہ آئے یہ مہینہ بھی ایسا ظالم ہے جو روح پر تازیانے لگاکرنئے سال کی رنگ رنگیوںمیں گم ہو جاتاہے یہ نصف صدی پہلے کی بات ہے جو لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والی دنیا کی پہلی مملکت ِخداداد دو لخت ہوگئی اس عزیمت،ذلت اور شکست نے سقوطِ ِغرناظہ اور سقوط ِ بغداد کی یادتازہ کردی اوروطن سے محبت کرنے والوںکورلاکررکھ دیا کچھ لوگوںکادعویٰ ہے کہ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرماتھے یہ فوجی شکست نہیں۔۔وجہ کچھ بھی ہو دل نہیں مانتا شکست ،شکست ہوتی ہے سیاسی ہویا عسکری حقیقت تو یہ ہے کہ دشمن کی سازش کامیاب رہی اور پاکستان دوٹکرے ہوگیا اور اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندراگاندھی نے بڑے غرور سے کہا تھا ہم نے دوقومی نظریہ سمندرمیں غرق کردیالیکن یہ اس کی خام خیالی تھی مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کے باوجود دوقومی نظریہ پوری آب وتاب سے زندہ ہے اس کا بین ثبوت بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات ہیں ۔بہرحال بات ہورہی تھی دسمبر کی ۔۔وہ دسمبرجس میں پاکستان دولخت ہوگیامیں آج بھی نہیں بھولا،مجھے یادہے بچپن کی ایک تلخ حقیقت کے وہ مناظرلگتاہے جیسے میرے آنکھوںمیںوہ دھندلے نقوش مقیدہوکررہ گئے ہیں یخ بستہ دسمبرکی وہ رات جب نہ جانے خاندان کے کتنے افرادٹرانسسٹرکے گرد جمع تھے ان میں وہ بھی موجودتھے جنہیں کبھی ریڈیو سے دلچسپی نہیں تھی عجیب و غریب قیا س آرائیاں ہورہی تھیں مرحوم و مغفور اباحضور نے میرے بڑے بھائی کو مخاطب کرکے کہا
‘‘ ریاض تم نے غلط سناہوگا مجھے تو یقین نہیں آرہا۔
’’ یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا بھائی ریاض نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا
نہ جانے کس نے تیز آوازمیں کہا سب چپ ہوجائو خبروںکا وقت ہوگیاہے اور میں اس سوچ میں گم تھا نہ جانے یہ لوگ کیسی باتیں کررہے ہیں اور آج ان سب کویکایک ٹرانسسٹر سے کیوں محبت ہوگئی ہے خیر خبریںشروع ہوئیں تو گویا سکوت ِ مرگ طاری ہوگیاپہلی ہی ہیڈلائن سے ہی بدترین خدشات بھیانک حقیقت بن گئے میں نے دیکھاسب چیخیں مارکررونے لگ گئے جیسے کسی قریبی عزیزکی موت واقع ہوگئی ہو میں حیران پریشان ہرکسی کا چہرہ دیکھتا پھررہاتھا لیکن وہاں تو ہر چہرہ حسرت ویاس کا مرقع تھاسمجھ نہیں آرہی تھی ان لوگوںکوکیاہوگیاہے۔شعورآیاتو پتہ چلاقائدِ اعظمؒکاپاکستان آدھاہوگیاتھا۔
کبھی کبھی یہ خیال آتارہا پاکستان کی اساس تو لاالہ الا اللہ تھی پھریہ کیونکرہوا غورکیا تو شعور،لاشعورکی کھڑکیاں کھلتی چلی گئیں عام طورپر مشہورہے ،پاکستان کو دولخت کرنے کے تین کردار شیخ مجیب الرحمن،انداراگاندھی اور ذوالفقارعلی بھٹوہیں اور چوتھا کردار جنرل یحییٰ خان تھا جو دراصل اقتدار کے ایوانوںکی کٹھ پتلی تھا ذلت،رسوائی کے عالم میں خوفزدہ ہوکرقید ِ تنہائی میںانتقال کرگیااسے کوئی بھی اچھے الفاظ میں یادنہیں کرتا باقی تین کرداروںکا تجزیہ کیا جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ شیخ مجیب الرحمن،انداراگاندھی اور ذوالفقارعلی بھٹو اپنے اپنے ملکوں کے مقبول ترین رہنما تھے کروڑوں دلوںپر حکمرانی کرنے والے لیڈر جن کے نام پر آج بھی سیاست کی جارہی ہے شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کا بانی کہاجاتاہے بہت سے بنگالی اسے اپنی قوم کا نجات دہندہ بھی کہتے ہیں لیکن چارسال بعد ہی اس بابائے قوم کو 15اگست 1975 ء کے اس کے خاندان سمیت بے دردی سے قتل کردیا گیا صرف ان کی بیٹی حسینہ واجد ہی محفوظ رہیں کیونکہ وہ اس وقت وہاں موجود نہ تھیں سقوط ِ ڈھاکہ کا دوسرا کردار انداراگاندھی تھیں جو پاکستان کو دوٹکرے کرکے پورے بھارت کی ہیرو بن چکی تھیں13اکتوبر1984ء کو ان کے اپنے محافظوں نے اس وقت گولیوںسے بھون ڈالا جب انہیں گارڈآف آنردیا جارہا تھا اور تیسرے کردار ذوالفقارعلی بھٹو کو ایک قتل کے الزام میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا اس وقت کے صدرِ پاکستان ضیاء الحق کی توثیق کے بعد4اپریل1979ء کو پھانسی دیدی گئی دیکھا جائے تو یہ قدرت کا انتقام بھی کہا جاسکتاہے کہ پاکستان توڑنے والے تینوںکرداروںکی موت غیرفطری اندازمیں ہوئی قدرت نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ شیخ مجیب الرحمن،انداراگاندھی اور ذوالفقارعلی بھٹو کی کوئی(MALE) اولاد ِ نرینہ زندہ نہیں رہی سب کے سب کسی نہ کسی انداز میں قتل کردئیے گئے۔
اللہ کی ظاہرنشانیوں پر اب بھی کسی کو کوئی شک ہے تو وہ تاریخ کا مطالعہ کرلے یہ عبرت کا مقام ہے کہ پاکستان توڑنے والوںکی نسل ختم ہوگئی دنیا کی تاریخ میں اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ملتی کہ پاکستان توڑنے والوںکا انجام کس قدرخوفناک،افسوسناک اور دہشت ناک ہوا اور سب میں کئی قدریں مشترک ثابت ہوئیں کہ تینوںکردار غیرفطری موت مارے گئے ، تینوں خاندانوں میں کوئی مرد سربراہ زندہ نہیں سب کے سب کا ایک جیسا انجام ہوا۔ پاکستان تاقیامت قائم رہنے کے لیے معرض ِ وجودمیں آیاہے پاکستان کے دشمن یہ بات جان لیں کہ اس مملکت ِ خداد دادکا براسوچنے والوںکو اللہ تبارک تعالیٰ عبرت کا نشان بناکررکھ دے گا اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔اس کے باوجود جب دسمبرآتاہے تو دل کے زخم ہرے ہوجانا ایک منطقی بات ہے یقیناسقوط ِ ڈھاکہ ایک خوفناک سانحہ تھا لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا قوم کو آزادی کی قدرہے نہ قیمت کااندازہ اس ماحول میں محبت ِ وطن اپنی روح کے زخم کسے دکھائیں کہ بیشتر حال مست مال مست بنے ہوئے ہیں ہر قسم کی سیاسی وابستگی اور شخصیات سے بالا ترہوکر ایک پاکستانی بن کر سوچیں کیونکہ زندو قومیں اپنی تاریخ اور ماضی سے سبق سیکھتی ہیں کہ غلطیوںکااعادہ نہ ہو ہم ہیں کہ دائرے میں سفرکرتے کرتے منزل تلاش کرتے پھررہے ہیں اسی لیے ہرسال دسمبر آتاہے تو دل کے زخم اس طرح ہرے ہوجاتے ہیں جیسے ان سے لہو رس رہاہو کئی مرتبہ دعا بھی کی ہے الہی اس سال دسمبر نہ آئے یہ مہینہ بھی ایسا ظالم ہے جو روح پر تازیانے لگاکرنئے سال کی رنگ رنگیوںمیں گم ہو جاتاہے اللہ ہماری حالت پررحم فرمائے (آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر