... loading ...
ایان جانسن
امریکی اور عالمی تاریخ کی کئی ممتاز شخصیات نے افتاد کے باوجود بڑے پیمانے پر کامیابیاں سمیٹیں۔ آپ میں ان میں سے کئی شخصیات کے نام سنے بھی ہوں گے؛ شاید ان کی معذوری کے بارے میں نہ جانتے ہوں۔ مگر شاید یہ معلوم نہ ہوں کہ ان کے درمیان قدر مشترک وہ کامیابیاں تھیں جوکہ سنگین مصائب کے باوجود انہوں نے سمیٹیں۔ ان مصائب نے ان کی زندگیوں پر اثر ڈالا مگر پھر انہوں نے کامیابیوں کا سفر جاری رکھا۔ ان ممتاز شخصیات میں سے سات کا ذکر درج ذیل ہے:
1۔ اسٹیفن ہاکنگ:
20ویں صدی کے اس عظیم سائنسدان کی زندگی ویل چیئر تک محدود تھی، ان کے غیر متحرک وجود کے دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ کمپیوٹر سسٹم تھا۔ اسٹیفن ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے جب وہ توازن کھونے کے باعث سیڑھیوں سے گر پڑے۔ کچھ عرصہ بعد ان میں موٹر نیورون کی بیماری یا ایک اے ایل ایس کی ایک قسم کی تشخیص ہوئی۔ مکمل معذوری سے قبل انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ چند سال سے زیادہ زندہ نہیں رہیں گے۔ مگر اسٹیفن ہاکنگ کا شاندار کیریئر چالیس سال تک جاری رہا۔ فزکس پر ان کی مطبوعات اور بلیک ہول پر ریسرچ نے انہیں علمی دنیا کی اہم شخصیت بنا دیا۔وہ رائل سوسائٹی آف آرٹس کے اعزازی فیلو جبکہ پونٹیفکل اکیڈمی آف سائنسز کے ایک رکن تھے۔2009ء میں انہیں صدارتی میڈل آف فریڈم دیا گیا جوکہ امریکا کا سب سے بڑا سویلین اعزاز ہے۔
2۔ فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ:
معاشرتی علوم کے بغور مطالعے سے معلوم ہو گا کہ فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ کبھی امریکا کے صدر ہوا کرتے تھے۔ وہ امریکا کے انتہائی مقبول صدر تھے جوکہ چار مرتبہ منتخب ہوئے، مگر 12سال وائٹ ہائوس میں رہے۔ انہوں نے بدترین عالمی معاشی بحران اور دوسری جنگ عظیم کے دور میں امریکا کو شاندارقیادت فراہم کی۔ مگر آپ کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ صدر بننے سے قبل 1921ء میں فرینکلن روزویلٹ پولیو کا شکار ہو گئے تھے، جس سے ان کی چلنے پھرنے اور دائیں ہاتھ کو حرکت دینے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی۔انہوں نے کئی سال تک اپنی ٹانگوں کو حرکت میں لانے کی کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہوئے۔ ان کی باقی زندگی ویل چیئر تک محدود رہی،یا کمربند کے سہارے کھڑے ہو سکتے تھے جس کی لمبائی ان کی دونوں ٹانگوں تک تھی۔ ان کی اس معذوری کا علم سیاسی حلقوں کو تھا، جسے ان کے خلاف استعمال کرکے وہ تاثر دینے کی کوشش کرتے کہ وہ عہدہ صدارت کے لیے موزوں نہیں۔ 1932ء میں جب انہوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا، مشیروں کے علاوہ خود انہیں بھی اپنی معذوری سے متعلق خدشات رہتے تھے، مگر صدارتی مہم کے دوران انہیں کبھی کوئی مسئلہ پیش نہ ا?یا۔ بستر سے اٹھنے سے لے کر روز مرہ کے دیگر کاموں میں دوسروں پر انحصار کے باوجود امریکی تاریخ میں فرینکلن ڈیلونو روزویلٹ کی کامیابیوں کو ہمیشہ تسلیم کیا جائیگا۔
3۔ سٹیوی ونڈر:
سٹیوی ونڈر محض سٹیج کا بڑا نام نہیں تھے، وہ بینائی سے مکمل محروم ہونے کے باوجود پیانو بجانے میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے۔ ڈاکٹروں کی رائے میں قبل از وقت پیدائش کی وجہ سے سٹیو ی کی آنکھوں کو خون پہنچانے والی شریانیں پوری طرح سے نہ بن سکی تھیں جس کی وجہ سے وہ بینائی سے محروم رہے۔لیکن پیانو پر غیر معمولی دسترس حاصل کرنے کے لیے سٹیوی کو بینائی کی ضرورت نہ تھی، ان کی چھونے کی حس انہیں بتا دیتی تھی کہ پیانو کا کون سا پوائنٹ کہاں پر ہے۔ سٹیوی نے 11 سال کی عمر میں ریکارڈنگ کمپنی موٹون کیساتھ کام شروع کیا، اور تب سے وہ پرفارم کر رہے ہیں۔ ان کی موسیقی کی اصناف میںریدہم، بلیوز، جاز اور سوئل شامل ہیں۔ اپنے کیریئر کے دوران سٹیوی کی 30سے زائد ریکارڈنگ ہٹ ہوئیں جن میں ’’سر ڈیوک، سپرسٹیشن اور آئی جسٹ کالڈ ٹو سے آئی لو ویو‘‘ شامل ہیں۔
4۔ ہیلن کیلر:
ہیلن ایڈمز کیلر ایک مصنفہ، سیاسی کارکن اور لیکچرر تھیں۔ وہ کم عمری میں بیماری کے باعث بینائی اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہو گئیں۔ ہیلن کو یہ سیکھنے میں کئی سال لگے کہ دوسروں کے ساتھ کیسے رابطے کئے جائیں۔ وہ دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہونے کے باعث سمجھ نہیں سکتی تھی کہ فلاں زبان کون سی ہے۔ پھر اینی سولیوین نامی ٹیچر نے ہیلن کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سولیوین نے ہیلن کی ہتھیلیوں پر حروف لکھنے کی تکنیک استعمال کی جس نے ہیلن کو حروف تہجی محسوس کرنے کا موقع دیا۔ ہیلن نے پہلا لفظ Doll سیکھا تھا۔ ہیلن پہلی نابینا اور بہری خاتون تھیں جس نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی ٹیچر سولیوین کی مدد سے ہیلن نے 40ملکوں کا دورہ کیا۔ انہیں جاپان سب سے زیادہ پسند آیا جس کے انہوں نے کئی دورے کئے۔ ہیلن نے کل 12 کتابیں لکھیں، جس میں سوانح حیات ’’مائی ریلجین‘‘ بھی شامل ہے۔ انہوں نے جنگوں کی کھل کر مذمت کی، خواتین اور ملازمین کے حقوق کے علاوہ متعدد ترقی پسند آئیڈیلزکے لیے تحریک چلائی۔الاباما ریاست کی بریل کی کتاب میں ہیلن کیلر کی تصویر ہے جس کے نیچے ’’جرات کی علامت‘‘ لکھا ہے۔
5۔ فریدا کاہلو:
فریدا کاہلو میکسیکو کے معروف پینٹر اور اپنے شاندار کام کی وجہ سے معروف ہیں۔ ان کی زیادہ تر پینٹنگز انسانی جذبات، جدوجہد اور زندگی کے تجربات کی عکاسی کرتی ہیں۔ چھ سال کی عمر میں فریدا کو پولیو ہو گیا تھا جس سے ان کی دائیں ٹانگ سکڑ کر کمزور ہو گئی۔ وہ لمبے سکرٹ پہن کر اپنی معذوری کو چھپایا کر تیں مگر چلتی لنگڑا کر تھیں۔ 15سال کی عمر میں انہیں ایک سنگین حادثے کا سامنا کرنا پڑا جس میں وہ نیم مردہ ہو گئیں تھیں۔ انہیں صحت یاب ہونے کے لیے کئی مہینے بستر پر گزارنا پڑے، مگر تمام عمر میں نہ زخم بھرے اور نہ شدید درد کم ہوا۔ حادثے کے بعد ڈاکٹروں سے فریدا سے کہہ دیا تھا کہ وہ کبھی ماں نہیں بن سکیں گے۔ اپنی کچھ پینٹنگز میں انہوں نے ویل چیئر یا ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہونے کی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ ان کی پینٹنگز میکسیکو کے کلچر کی عکاسی بھی کرتی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں دنیا کے چند نامور آرٹسٹوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 20ویں صدی کی پہلی میکسیکن آرٹسٹ تھیں جن کے کام کو ایک عالمی میوزیم نے خریدا۔ فریدا کو زندگی کے مصائب آرٹ کے ذریعے اجاگر کرنے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔
6۔ مارلا رونیان:
مارلا رونیان امریکا کی اولمپک گولڈ میڈلسٹ تھیں، جوکہ بابینا تھیں۔ 9سال کی عمر میں رونیان ایک اعصابی مرض کا شکار ہوئی جس کے نتیجہ میں بینائی سے محروم ہو گئیں۔ مگر انہوں نے اس محرومی کو کمزوری بننے نہ دیا، اور دوڑ کو ایک مشغلہ بنا لیا۔ مارلا رونیان 5ہزار میٹر کی دوڑ میں تین مرتبہ قومی چمپئن بنیں۔ 1992ء کے سمیر پیرا اولمپکس میں انہوں نے چار گولڈ میڈل حاصل کیے۔1996ء کے پیرا اولمپکس میں ایک چاندی اور ایک سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ ان کی کامیابیوں کا سفر یہی ختم نہیں ہوا، انہوں نے کئی امریکی ریکارڈ اپنے نام کئے جن میں بیس ہزار میٹر کے دوڑ، فیملی میراتھن ریس وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے ساتھی کی مدد سے سوانح حیات ’’ نو فنش لائن اور مائی لائف ایز آئی سی اٹ ‘‘، لکھی جس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
7۔ لڈوگ بیتھوون:
لڈوگ بیتھوون بلاشبہ تاریخ کے ایک عظیم کمپوزرہوئے ہیں۔ افتاد کے باجوود انہوں نے اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے خوب نام کمایا، آج بھی دنیا میں ان کے کام کو تسلیم کیا جاتا ہے۔بہرے ہونے کے باوجود انہوں نے کئی معروف دھنیں متعارف کرائیں۔ بیتھوون نے پیانو میں اپنی مہارت پہلی مرتبہ مظاہر ہ ا?ٹھ سال کی عمر میں کیا۔ انہوں نے ویانا میں اپنے دور کے معروف موسیقار موزارٹ کی رہنمائی میں موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ وہ نوجوانی میں ہی غیر معمولی انداز اور برجستگی کی وجہ سے پیانو بجانے میں نام بنا چکے تھے۔26 سال کی عمر میں بیتھوون کی سننے کی صلاحیت متاثر ہونا شروع ہوگئی۔ اس رکاوٹ کے باوجود انہوں نے دھنیں ترتیب دینے کا کام جاری رکھا اور کئی شاندار دھنیں تیار کیں جن کی اہمیت آج بھی آرٹ کی دنیا تسلیم کرتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔