... loading ...
یہ بھارت دیس آخر کس کا ہے؟آج کا سب سے بڑا سوال یہی ہے۔کیا یہ صرف ان مٹھی بھر فرقہ پرستوں کی جاگیر ہے، جنھوں نے ملک میں فرقہ پرستی کا الاؤ جلارکھا ہے یا اس پر ان تمام امن پسندوں کا حق ہے جو یہاں صدیوں سے رہتے چلے آئے ہیں۔ ان میں ہندو‘ مسلمان‘سکھ‘ عیسائی‘بودھ سبھی شامل ہیں۔ جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ صرف ہندوؤں کا ملک ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جب سے نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بنے ہیں تب سے ہی ہندوؤں میں احسا س تفاخر پیدا ہوا ہے اور وہ سر اٹھاکرچلنے کے قابل ہوئے ہیں۔ وزیرداخلہ امت شاہ نے حال ہی میں احمدآباد میں ایک مندر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا کہ ’’وزیراعظم نریندر مودی کے2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعدہندوؤں کو ذلت سے نجات ملی ہے اور ان کے اندر تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہندو عقیدت کے فراموش کردہ مراکز کا احیاء شروع ہوا ہے۔‘‘اس کا مطلب یہ ہوا کہ مودی کے اقتدار میں آنے سے قبل اس ملک کے ہندو غیرمحفوظ تھے اور انھیں ذلتوں کا سامنا تھا۔حالانکہ امت شاہ نے اپنے بیان میں ان ذلتوں کا حوالہ نہیں دیا جو اس ملک میں ان جیسے ہندوؤں کو درپیش رہی ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب سے بی جے پی نے مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا ہے تب سے اس ملک میں تمام سرگرمیوں کا محور ہندتوا ہی بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی پیروی کرتے ہوئے اس ملک کی سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں بھی اب ہندتواکے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں اور وہ کوئی بھی ایسا بیان دینے سے پرہیز کررہی ہیں، جس کی ضرب ہندتوا پرپڑتی ہو۔ملک کی سب سے بڑی سیکولر جماعت کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے بھی سیکولرازم کا دفاع کرنے کی بجائے خود کو ہندو کہنا ضروری سمجھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ ملک ہندوؤں کا ہے اور میں ہندو ہوں۔‘‘ حالانکہ انھوں نے اپنے اس بیان کی وضاحت کرنے کے لیے ہندتوا ور ہندو کی تشریح بھی کی، لیکن ان کے اس بیان کو بی جے پی کے نقش قدم پر چلنے والا بیان ہی قرار دیا گیا۔
اگر یہ بیان موہن بھاگوت،نریندر مودی یا امت شاہ دیتے تو ہمیں اس پر ہرگزکوئی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ ان کی سیاست کا محور ہی ’ہندو، ہندی اور ہندوستان‘ہے، لیکن یہ بیان کیونکہ ایک ایسی پارٹی کے لیڈر نے دیا ہے جس نے آزادی کی جنگ لڑی اور جس کی قیادت حکیم اجمل خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا محمدعلی جوہراور طیب جی جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں بھی رہی ہے۔ایسے میں ان کے اس بیان کا کیا مطلب نکالا جانا چاہئے۔ یقین مانئے جب سے راہل گاندھی کا یہ بیان سامنے آیا ہے،وہ لوگ خاصے پریشان ہیں جو کانگریس کو سیکولر نظریات کی سب سے بڑی پارٹی سمجھتے ہیں اور آرایس ایس کے اس نظرئیے کی نفی کرتے ہیں کہ اس ملک کا ہر باشندہ خواہ اس کا مذہب کوئی بھی ’ہندو‘ہے۔حالانکہ کانگریس نے ماضی میں بھی سیکولر نظریات سے انحراف کیا ہے، لیکن ایک ایسے وقت میں جب ملک میں سیکولر جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق ہیں، کانگریس کا ایسی زبان بولنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
جس روز راہل گاندھی نے جے پور میں مذکورہ بیان دیا، اس کے اگلے ہی روز ہمارے وزیراعظم نریندرمودی نے’ہر ہر مہادیو‘ کے نعروں کے درمیان وارانسی میں عظیم کاشی وشوناتھ کوریڈور کے پہلے منصوبے کا آغاز کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم ایک حکمراں سے زیادہ ایک ’اوتار‘کے بھیس میں نظر آئے اور انھوں نے سادھوؤں کا لباس زیب تن کرکے گنگا کے ٹھنڈے پانی میں ڈبکیاں بھی لگائیں۔ وزیراعظم کے اس پروگرام کی میڈیا میں ایسی ہی زبردست کوریج ہوئی ہے جیسا کہ پچھلے سال اگست میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی ہوئی تھی۔وزیراعظم نے اپنے حلقہ انتخاب وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر کے توسیعی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ کر ایک بار پھر بنارس کی گیان واپی مسجد کے مسئلہ کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ متھرا کی شاہی عیدگاہ کو متنازعہ بنانے کاکام یوپی کے نائب وزیراعلیٰ پہلے ہی کرچکے ہیں۔ایودھیا کے بعد کاشی اور متھرا فرقہ پرستوں کے نشانے پرہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت اترپردیش میں اسمبلی الیکشن کی گہما گہمی ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے اب آپ کو ترقی اورخوشحالی کے گیت نہیں گانے ہوتے بلکہ خود کو سب سے بڑا ’ہندو‘ثابت کرنا ہوتا ہے، جو کہ وزیراعظم نے کاشی وشوناتھ کوریڈور کی تقریب میں اپنی تقریر کے دوران بھرپور انداز میں کیا۔انھوں نے تاریخ کے پرانے زخم کریدے اور اپنے عمل سے خود کو ایک سیکولر جمہوری ملک سے زیادہ ہندوراشٹر کا وزیراعظم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے درمیان خود کو زیادہ بڑا ہندو ثابت کرنے کی مقابلہ آرائی ہورہی ہے۔
راہل گاندھی نے گزشتہ اتوار کو جے پورمیں کانگریس کی ’قومی ریلی‘ میں کہا کہ ’’آج ملک کی سیاست میں دوالفاظ کا مطلب الگ الگ ہے۔میں ہندو ہوں، لیکن ہندتو وادی نہیں ہوں، مہاتما گاندھی ہندو تھے اور ناتھو رام گوڈسے ہندتو وادی۔ راہل گاندھی نے کہا کہ’’یہ دیش ہندوؤں کا ہے، ہندتووادیوں کا نہیں۔‘‘راہل گاندھی جس پارٹی کے لیڈر ہیں، اس میں انھیں ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس ملک کو ہندوؤں کا دیش کہیں۔ انھیں یہ کہنا چاہئے تھا کہ ’’یہ دیش ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں، پارسیوں، اوربودھوں سبھی کا ہے۔ سبھی نے مل کر اس کو انگریزوں سے آزاد کرایا تھا، اس لیے سبھی کا اس پر برابری کا حق ہے۔جو لوگ اس کو ہندوؤں کا ملک قرار دیتے ہیں وہ اس کی روح پر حملہ کرتے ہیں اور میں ایسے لوگوں کو یہ وارننگ دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس ملک کے سیکولر آئین پر حملہ نہ کریں۔‘‘ لیکن ایسا کہنا چونکہ ملک کے موجودہ سیاسی ماحول میں اقتدار کی سیاست کے لیے موزوں نہیں ہے، اس لیے راہل گاندھی نے اپنے ’ہندو‘ ہونے کا اعلان کرنا ضروری سمجھا۔مگر وہ اس بات کو بھول گئے کہ ان کے آبائ واجداد نے کبھی اس بات کو ضروری خیال نہیں کیا، کیونکہ وہ اس حقیقت کو بخوبی جانتے تھے کہ مذہب انسان کا نجی معاملہ ہے اور اس ملک کا دستور سیکولر ہے جس میں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ اس ملک میں اکثریت کے مذہب کو کوئی خاص رعایت حاصل نہیں ہے بلکہ وہ اس ملک کے دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ جب سے بی جے پی نے مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا ہے، اس ملک کی سیاست ’یک رخی‘ ہوگئی ہے۔ اب یہاں اکثریتی طبقے کو ذہن میں رکھ کر ہی سب کچھ ہورہا ہے اور اس کا سب سے منفی اثر ان مسلمانوں پر پڑا ہے جو اس وقت ملک کی سب سے پسماندہ قوم ہیں۔آج انھیں سیاسی طورپر اچھوت بنادیا گیا ہے۔ اب وہ سیاسی پارٹیاں بھی مسلمانوں کا نام لینے سے ڈرتی ہیں، جنھوں نے اپنی ساری طاقت مسلمانوں کے ووٹوں سے حاصل کی ہے۔مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے سیکولرازم کے نام پر جن سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں کو مضبوط کیا، اب وہ پوری طرح ’ہندتوا‘کی سیاست کررہی ہیں۔ یعنی ہندوہی اس وقت سیاست کا محور ہیں۔بی جے پی نے اپنی شاطرانہ چالوں سے ملک میں ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ اس وقت مسلمان کا مطلب پاکستان اور جناح کو قرار دے دیا گیا ہے اور اس حوالے سے ان پر ’ملک دشمنی‘ کا الزام لگادینا سب سے آسان کام ہے۔ماضی میں سیاسی پارٹیاں مسلم مسائل کے بارے میں گفتگو کرتی تھیں، لیکن اب کوئی زیب داستاں کے لیے بھی مسلمانوں یا اقلیتوں کا نام نہیں لیتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب مسلمان ’اپنی سیاست اور اپنی قیادت‘ کے نعرے لگانے لگے ہیں، جنھیں دور اندیش لوگ مسلمانوں کے حق میں مضر سمجھتے ہیں۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سیکولرازم کا مطلب مذہب بیزاری یا لامذہبیت بالکل نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم سبھی مذاہب کا احترام اور انھیں پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ سیکولرازم کے اسی تصور پر گامزن ہوکر ہم نے اب تک کا سفر طے کیا ہے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس سفر کی منزل آپہنچی ہے اوراس تصور کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں صحیح سوچ رکھنے والے تمام ہندستانیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ’جیو اور جینے دو‘ کے اصول کو باقی رکھنے کے لیے ایک بار پھر سیکولرازم کے سبق کو دوہرائیں اور ان طاقتوں کو منہ توڑ جواب دیں جو اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ملیا میٹ کر کے اسے ہندوراشٹر میں تبدیل کردینا چاہتی ہیں۔ اگر اس کام کو وقت رہتے انجام نہیں دیا گیا تو کل بہت دیر ہوجائے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔