... loading ...
اُستاد کا نام نہایت احترام ہے کیونکہ معاشرے کو سنوارنے اور اچھے اوصاف پید اکرنے میں اساتذہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جہاں اُستاد کی عزت وتکریم نہ ہو وہ قومیں زوال کا شکارہوجاتی ہیں زوال کی وجہ یہ ہے کہ معلم کی دی اچھی تعلیم اور کردارسازی ہی نئی نسل کو بلندی کی طرف لے جاتی ہے مگر اب مادیت پرستی کا زمانہ ہے لوگ دولت یا عزت میں انتخاب کرتے ہوئے دولت کو ترجیح دیتے ہیں اُستاد معلومات دینے کے ساتھ ا گر کردار سازی کے فریضے سے چشم پوشی کرے تو معاشرہ انحطاط کا شکار ہوجاتا ہے لیکن جس اُستادکا اپنا کردار شرمناک ہو وہ طالب علموں کو اچھائی کی تلقین نہیں کر سکتا جو خود بدعنوانی ،اخلاقی گراوٹ اور دھوکہ دہی میں ملوث ہو وہ دیانتداری ،اخلاق اور ایمانداری کا درس نہیں دے سکتا اُستاد کے علم و کردار کا طالب علم بہت اثر لیتے ہیں جامعہ گجرات میںشیخ عبدالرشیدکو بھی عزت اور دولت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا موقع ملاتو انھوں نے عزت کی ملازمت کے دوران مادیت پرستی کا شکارہو کر عزت پر دولت کو ترجیح دی حالانکہ عزت سے دولت بھی کمائی جا سکتی ہے مگر اِس میںکچھ وقت لگتا ہے لیکن انتظار کا یہ وقت ہوسِ زر کا شکار لوگوں کونا پسند ہے بدعنوانی کے ذریعے کمائی دولت سے عزت نہیں مل سکتی ب جانے شیخ عبدالرشید کے سازشی اور گھنائونے کردار سے کتنے طالب علم متاثر ہوکر زمانے میں چھینا جھپٹی میں مصروف اور معاشرے میں بدعنوانی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے پھر رہے ہوں گے جامعات کو اساتذہ کا انتخاب کرتے وقت تعلیم کے ساتھ کردار کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے تاکہ طالب علم جب حصولِ علم کے بعد عملی زندگی کی طرف آئیں تواساتذہ کے پاکیزہ کردار سے متاثرہوکر معاشرے میں تعمیری اور مثبت کردار ادا کریں۔
گجرات یو نیورسٹی چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری وجاہت حسین کا ایک ایسا منصوبہ ہے جس نے گجرات کے عام لوگوں کے لیے اعلٰی تعلیم کے مواقع پیدا کیے ہیں قبل ازیں اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی اپنی بیٹیوں کو لاہور یا راولپنڈی حصولِ تعلیم کے لیے روانہ کرتے ہوئے کئی قسم کے وسوسوں کا شکار رہتے ماں باپ کو ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا کہ اللہ کرے کوئی بدنامی کا داغ نہ لگ جائے اب صبح بہنیں بیٹیاں گھر سے پڑھنے جاتی اور شام کو والدین کے پاس ہوتی ہیں اسی لیے لڑکوں کے ساتھ گجرات میں لڑکیوں کی بھاری تعداد بھی اعلٰی تعلیم حاصل کر رہی ہے اسی وجہ سے گجرات کے لوگ چوہدری پرویز الٰہی ار چوہدری وجاہت حسین کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا گو ہیں مگر جس جامعہ میں شیخ عبدالرشید جیسے ناسور تعلیم دیں گے وہاں ڈگریاں تو مل سکتی ہیں لیکن کردارسازی نہیں ہوسکتی نااہل،نکمے اور جعلسازوں کی صحبت سے فارغ التحصیل ہونے والے لڑکے اور لڑکیاں اچھی روایات قائم کرنے نہیں دولت کی ہوس کا سبق لیکر ہی میدان میں اُتر یں گے۔
جامعہ گجرات میںایڈیشنل رجسٹرار کی آسامی کے لیے دوامیدواران شیخ عبدالرشید اور حاجی نعیم نے درخواست جمع کرائی مزے کی بات یہ کہ دونوں امیدواروں نے نامکمل درخواستیں جمع کرائیں اِس سے قبل زمیندارہ کالج سے شیخ عبدالرشید کو میڈیا معاملات دیکھنے کے لیے جامعہ لایا گیاتھا اورمستقل کرنے کی خاطرہی ایڈیشنل رجسٹرار کی آسامی تخلیق کی گئی چاہیے تو یہ تھا کہ نامکمل درخواستیں ہونے کی وجہ سے شیخ عبدالرشید اور حاجی نعیم دونوں کو ہی انٹرویو کے لیے نہ بلایا جاتا مگر شیخ نے جانے کیا جادوچلایا کہ نامکمل درخواست اور نا اہل ہونے کے باوجود نہ صرف اُنھیں انٹرویو کے لیے طلب کر لیا گیا بلکہ تعیناتی کے آرڈر بھی کر دیے گئے جس کے بعد ہوسِ زر کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیخ عبدالرشید نے جس جامعہ میں تعیناتی ہوئی اُسے ہی نقصان پہنچانا اورمالی طور پر کمزور کرنا شروع کر دیا اورنہ صرف جامعہ کے خرچے پر لوگوں کی کتابوں کی پرنٹنگ کرانے لگے بلکہ جامعہ کے نام پر لوگوں سے پیسے بٹورنے کا دھندہ بھی شروع کردیااگر کسی وی وی آئی پی نے جامعہ کا دورہ کیا تو شیخ عبدالرشید یہاں بھی دامن پھیلا کر پیسے مانگنے شروع کر دیتا بات یہاں تک ہی محدود نہ رہی بلکہ جامعہ کے ہال وغیرہ بھی کرائے پر اُٹھانے شروع کر دیے ایسے ہی غبن اور ہیراپھیریوں کے کیس کی اینٹی کرپشن میں انکوائری جاری ہے جس کے دوران کرپشن کے واضح شواہد مل چکے ہیں مگر عیار اور مکار شیخ عبدالرشید یہاں بھی کیس کا فیصلہ ہونے میں رکاوٹ ہے اِس کی وجہ کیا ہے سمجھ نہیں آتا کہ شواہد کے باوجودکیوں ایک اِدارہ فیصلہ کن کاروائی کی بجائے التوا میں ڈالنے پر مجبورہے؟۔
شیخ عبدالرشید جب جامعہ سے نکالے گئے تو وہ گریڈ بیس کی کی اہم پوسٹ ڈائریکٹر میڈیا کے طور پرکام کر رہے تھے یہاں بتانے والی سب سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے جامعہ گجرات میں دی جانے والی درخواست میںلکھا کہ وہ زمیندارہ کالج میں بطور سپوکس پرسن کام کرتے رہے ہیں اور جب جامعہ نے کاغذات کی تصدیق کے لیے زمیندارہ کالج سے رابطہ کیا تو کالج کی طرف سے حیران کُن جواب ملا کہ تما م کاغذات بوگس ہیں کیونکہ کالج میں ماس کمیونیکیشن کا ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں تو تجربے کا سرٹیفکیٹ کیونکر جاری کیا جا سکتا ہے علاوہ ازیں سپوکس پرسن کی کالج میں کوئی آسامی بھی نہیں اِس لیے بھیجے گئے کاغذات کی تصدیق کرنے سے قاصر ہیں۔
عیار اور مکار شیخ عبدالرشید نے کینڈا سے جنگ اخبار سے منسلک جس شخص کے ساتھ کام کرنے کاحوالا دیتے ہوئے تجربے کا سرٹیفکیٹ پیش کیا اُس نے نے بھی جامعہ گجرات کولکھ کردے دیا ہے کہ شیخ عبدالرشید نامی شخص کا میرے ساتھ کام کرنا تو درکنا ر میں اِس بندے کوجانتا تک نہیں انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے کسی کو تجربے کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا لہذا میری طرف سے جاری کیا گیاتجربے کا سرٹیفکیٹ جعلی ،بوگس اور خود ساختہ تصور کیا جائے مگر جانے شیخ عبدالرشید کے پاس ایسی کیاجادوکی چھڑی ہے کہ ابھی تک جامعہ گجرات کی انتظامیہ برخواستگی کے احکامات جاری کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی اتنی نرمی ،رحمدلی اور طرفداری تبھی ہو سکتی ہے جب غبن ،کرپشن اور فراڈ میں سبھی شریک اوراب پول کُھلنے کے ڈرسے ہی خاموشی اختیار کر نے پر مجبور ہوں جامعہ گجرات کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر شبر عتیق ،پرووائس چانسلر ڈاکٹر فہیم اور ڈین ڈاکٹر مشاہد کی شہرت دیانتدار اور فرض شناس کی سی ہے مگر نیک نام لوگ جامعہ سے ناسور کو نکالنے کی بجائے کیوں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک نااہل شخص کو اہم آسامی پر تعینات کرنے کی تحقیقات کی جاتیں اور جامعہ سے وصول کیاجانے والا ماہانہ لاکھوںروپیہ واپس لیکر جامعہ میں جمع کرایا جاتا اور طلبا کی فلاح و بہبود پر خرچ کیاجاتا لیکن ہر طرف خاموشی ہے جیسے سب کو کسی نادیدہ قوت کا خوف ہو اتبھی وصول کی گئی رقم واپس لینا تو درکنارابھی تک جامعہ کی انتظامیہ بدنامی کے چلتے پھرتے اشتہارکو اِدارے سے نکالنے کی ہمت نہیں کر سکی حالانکہ جامعہ گجرات میں بد عنوان عناصر کے راج کا خاتمہ کرنے سے نہ صرف اِدارے کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا بلکہ آئندہ ایسے کسی جعلساز کو عیاری اور مکاری کے بل بوتے پر کرپشن کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔