... loading ...
آزاد و خودمختار ممالک کسی ملک کے دبائو میںآکر پالیسیاں نہیں بناتے مگر کچھ عالمی طاقتیںچاہتی ہیں کہ دنیا اُن کی مرضی و منشا کے مطابق چلے ایسا آزاد وخودمختارمماک کے لیے ممکن نہیں کیونکہ ہر ملک کی اولیں آرزو اپنے شہریوں کی زندگی آسودہ اور خوشحال بناناہوتی ہے کسی عالمی طاقت کی مرضی و منشا کے مطابق چلنا نہیں کیونکہ بیرونی طاقتوں کی مرضی و منشا کے مطابق چلنے سے عوامی بھلائی کے منصوبے ثانوی درجے پر جا سکتے ہیں ہیں جس سے ہرملک کی حکومت بچنے کی کوشش کرتی ہے مگر عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے ملکوں کو جھکانے کے لیے پابندیوں جیسے ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں جس سے دنیا ایک بارپھر تقسیم ہورہی ہے عالمی تنائو بڑھانے کے باوجود یہ کردارکمزور پوزیشن پر ہیں پھر بھی دنیا میں ٹکرائو کی سطح پر لانے کے عمل سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ۔
انسانی حقو ق ،مزہبی و شخصی آزادیوںاور جمہوریت کے نام پرترقی پذیرممالک کو بلیک میل کیا جاتا ہے بدقسمتی سے امریکا کی عالمی بینکنگ نظام پر اجارہ داری ہے اور اُس کی لگائی پابندیاں کسی ملک کی تجارت اور معاشی ترقی کو مفلوج کر سکتی ہیں اسی لیے ہر ملک اُس کی معاشی پابندیوں سے بچنے کی کوشش کر تا ہے اب جبکہ رواں صدی کے آغاز سے چین نے اپناعالمی کرداربڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کوبطورہتھیار استعمال کرنا شروع کیا ہے جس سے کچھ ملکوں کو امریکی ناراضگی کی پرواہ نہ کرنے کا حوصلہ ہواہے جبکہ کچھ ممالک نے بیک وقت چین اور امریکاسے بنا کر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری کے لیے قوانین نرم بنالیے ہیں جس سے دنیا کی تقسیم میں تیزی آئی ہے اور عالمی سطح پر تنائو بڑھتا جارہا ہے کیونکہ اب مقابلے پرفوجی طاقت رکھنے کے باوجود معاشی طور پر کمزو راکیلا روس نہیں بلکہ دنیا کی سب سے ذیادہ ترقی کرتی طاقتور معیشت اور فوج رکھنے والے چین سے بھی ہے اسی بنا پر امریکااور اُس کے اتحادی مغربی ممالک کو مقابلہ بازی میں مشکلات ہیں کمزور پوزیشن بہتر کرنے کے لیے امریکا اور مغربی ممالک کا فوجی اتحادنیٹو چاہتا ہے کہ مستقبل میں اگر براہ راست ٹکرائو کی نوبت آتی ہے تو جنگ کا میدان روس اورچین کے نزدیک ہو جس کے لیے ایک طرف توروس سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک یوکرائن اور جارجیا کو نیٹو میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے بھارت کی مالی و فوجی امداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے مگر کیا روس کی طرح امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادی چین کو بھی گرفت میں لے کر کمزور کر سکیں گے؟ ایسا خواب تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن عملی طور پر کافی مشکل ہے کیونکہ روس اور چین میں بڑھتی قربت ظاہر کرتی ہے کہ خطرے کی صورت میں دونوں ملک مل کر میدان میں اُتر سکتے ہیں یوں بات روایتی کی بجائے جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر منتج ہونے کا امکان ہے ۔
آمرانہ حکومتوں کا بہانہ بناکر تختہ اُلٹنے کے لیے امریکااور اُس کے مغربی اتحادیوں نے کئی ممالک میں فوجی کاروائیاں کیں اِن فوجی کاروائیوں کا مقصد انسانی حقوق اور ،مذہبی و شخصی آزادیوں کی صورتحال بہتر کرنا اور جمہوریت کا فروغ بتایا گیا مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوجی کاروائیوں کے بعد اُن ممالک میں صورتحال بہتر ہوئی؟ایسا ہر گز نہیں بلکہ افغانستان ،عراق،شام اور لیبیا جیسے ممالک کو بے دریغ تباہ و برباد کرنے سے اِن ملکوں میں مرکزیت متاثر اور سیاسی عدمِ استحکام نے جنم لیا نیززرائع آمدن کم ہونے سے عوام کی زندگی اجیران ہوئی اسی بنا پر اِ ن ممالک سے بڑے پیمانے پر مہاجرت شروع ہوئی اِس مہاجرت کو روکنے کے لیے یورپی ممالک آج بھی سخت اقدامات میں مصروف ہیں مگر چین یا روس کے خلاف فوجی کاروائیوںکا فوری امکان تو نہیں اگر ایسی نوعیت کی کوئی بھی کاروائی ہوتی ہے تو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا امکان رَ د نہیں کیا جاسکتاایسا ہونے کے تباہ کُن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں کیونکہ مقابلہ پر چین و روس ایسی دو طاقتیں متحد ہیں جن کے ہتھیاروں کی پہنچ سے امریکا اور مغربی ممالک باہرنہیںمگر بڑھتے عالمی تنائو سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا اور مغربی مالک کو اپنی کمزور پوزیشن اورخطرات کاکامل ادراک نہیں اگر ادراک ہوتا تو نیٹو یوں کُھل کر یوکرائن کی پشت پناہی پر آنے اور سابقہ روسی صوبوں حالیہ آزاد ممالک جارجیا اور یوکرائن کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنے سے گریز کرتا سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ اور مشرقی و مغربی جرمنی کے ایک ملک بنتے وقت یورپ نے روس کے صدر میخائل گوربا چوف کواِس بات کا یقین دلایا تھا کہ ایسے ملکوں کو نیٹو کا رُکن نہیں بنایا جائے گا جنھوں نے روس سے آزادی حاصل کی یاروس کے ماضی میں اتحادی رہے لیکن اب یورپ اپنے وعدوں کی پاسداری کی بجائے نفی کرتے ہوئے مشرقی یورپ کے ممالک کو بھی نیٹو اتحاد میں شامل کرنے پر بضدہے ۔
چین کے عالمی کردار کو محدود کرنے کے لیے امریکا اور مغربی ممالک کُھل کر سامنے آگئے ہیں انھوں نے سرمائی اولمپکس تقریبات کا بائیکاٹ کر دیا ہے جس کے بعد سفارتی حلقوں میںایسی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ بیجنگ میں منعقد ہونے والی سرمائی اولمپکس تقریبات میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن صرف شریک ہی نہیں ہو ں گے بلکہ قوی امکان ہے کہ افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کریں روس اور چین کا ایک دوسرے سے تعاون بڑھتا جارہا ہے اُن کاباہمی تجارت کا حجم 115 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے دنیا میں حامی ممالک کی ورچوئل کانفرنس بلاکر امریکی صدرجو بائیڈن نے طاقت کا خوب مظاہرہ کیا علاوہ ازیںچین کو نظرانداز کرتے ہوئے تائیوان کو مدعو کرنااِس امر کا واضح پیغام ہے کہ ٹرمپ کی طرح جو بائیڈن بھی چین سے کسی قسم کی نرمی سے پیش نہیں آنا چاہتے مگر امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے بیک وقت دوبڑی طاقتوں سے ٹکرائو کی پالیسی اختیار کرکے کوئی دانشمندی نہیں دکھائی اگرروس کی معیشت کمزور ہے تو فوجی طاقت پہلے سے بڑھ گئی ہے اُس کی ہتھیارسازی کی صنعت بہت ترقی یافتہ ہے اور نیٹو کے رُکن ترکی اور امریکہ کے چین کے پڑوس میں بڑے اتحادی بھارت بھی دبائو کے باوجود روسی میزائلوں کے خریدار بن چکے ہیںنیز کریمیاکو اپنا حصہ بنانے کے بعد روس وہاں ہزاروں فوجی تعینات کر چکا ہے مقابلے پر نیٹو نے مشرقی یورپ کے ملک پولینڈاور شمالی یورپ کی بالٹک ریاستوں ایسٹونیا،لیتھوینیا،لٹویا میں پانچ ہزار فوجی تعینات کر دیے ہیں ایسے حالات میں جب روس کے ساتھ دنیا کی بڑی معاشی اور فوجی قوت چین جیسا ملک بھی ہے تواُسے زیر کرنا کسی کے لیے آسان نہیں جبکہ دونوں ملکوں کے پاس ویٹو پاور بھی ہے اِس لیے عالمی تنائو بڑھانے کے باوجود امریکی اتحادیوں کی کمزورپوزیشن برقرار ہے۔
ہتھیاروں کی برتری کے علاوہ مزید قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ یورپ کو فراہم کی جانے والی نصف سے زائد قدرتی گیس روس سے آتی ہے مزید براں عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کے بارہ فیصد حصے کا مالک بھی روس ہے اگر قدرتی گیس اور پٹرول کی فراہمی میں رخنہ آتا ہے تو نہ صرف یورپ میں توانائی کا بحران پید ا ہو جائے گا بلکہ یہ بحران پوری دنیا کومتاثر کر سکتا ہے اِس لیے عالمی تنائو میں اضافہ کرتے ہوئے امریکاکو ہر گزیہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اُس کی معیشت نہ صرف زوال پزیر ہے بلکہ فوج بھی زخم خوردہ ہے جمہوری حوالے سے بھی موجودہ صدر کے انتخاب کے بعد امریکا میں انتقالِ اقتدار کی نئی
روایات قائم ہو چکی ہیں اِس لیے عالمی تنائو بڑھانے کی بجائے کم کرنا ہی امریکا اور اُس کے اتحادیوں کے لیے سود مندہے معاشی ،سفارتی اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں جب روس اور چین کو شکست نہیں دی جا سکی تو انسانی حقوق ،مذہبی و شخصی آزادی اور جمہوریت کے نام پر دونوں ممالک کو کیسے دھمکایا اور زیرکیا جا سکتا ہے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔