وجود

... loading ...

وجود

کردنیشنل کاز!!!

جمعرات 16 دسمبر 2021 کردنیشنل کاز!!!

یاسریاکس

کردوں کی اکثریت ترکی، عراق، ایران اور شام میں رہتی ہے۔ ا?ذربائیجان، ا?رمینیا، روس اور دیگر وسط ایشیائی ملکوں میں کرد ایک اقلیت کی صورت میں موجود ہیں، مگر ان ملکوں میں ان کا قابل ذکر سیاسی کردار نہیں ہے۔ تاریخ میں کردوں کا سب سے پہلے ذکر یونانی تاریخ دان اور کمانڈر زینوفون نے اپنی کتاب ’’انابیسس‘‘ میں کیا جو کہ اس نے چوتھی صدی قبل مسیح میں لکھی۔ اپنی کتاب میں اس نے کردوغ سرزمین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’اس خطے کے پہاڑوں پر ایک جنگلی قبیلہ رہتا ہے، جس کا تعلق خونخوار اور جنگجو نسل سے ہے جو کہ کبھی مغلوب نہیں ہوا۔ ایک موقع پر عظیم بادشاہ نے انہیں محکوم بنانے کے لئے ان کے ملک ایک لاکھ بیس ہزار جنگجوئوں پر مشتمل فوج بھیجی، مگر ان میں کسی ایک جنگجو کو بھی زندہ وطن واپس آنا نصیب نہ ہوا‘‘۔
صلاح الدین ایوبی جس نے 1187ء میں جنگ حطین کی فیصلہ کن لڑائی میں صلیبی جنگوںکا خاتمہ کیا، وہ نسلاً کرد تھے۔ وہ تمام مسلمانوں بشمول عربوں، ترکوں اور کردوں کے لیے قابل احترام شخصیت ہیں۔ وہ تاریخ کی معروف ترین کرد شخصیت ہیں۔ عثمانی دور اور ترکش جمہوریہ کے قیام کے بعد بھی کردوں نے متعدد بغاوتیں کیں، اس روایت کو آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں عثمانی سلطنت کی شکست کے بعد کردوں کے علاقے غور و فکر کے بغیر برطانوی اور فرانسیسی مینڈیٹ میں تقسیم کر دیئے گئے، جس میں نسلی یا فرقہ وارانہ حقائق پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ امریکی تاریخ دان ڈیوڈ فرامکین اپنی کتاب میں اس تقسیم کی کہانی یوں بیان کرتے ہیں ’’ایک امن معاہدہ جو کہ امن کو غارت کرنے کے لئے تھا‘‘۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی اس خطے میں قائم نہیں ہو سکا۔
عراقی کرد اپنے ملک میں خود مختاری حاصل کرنے والے پہلے کرد ہیں۔ انہیں 1970ء میں علاقائی خودمختاری ملی، دو عشروں بعد امریکا نے سکیورٹی کونسل سے قرار داد منظور کرا کے عراقی کردستان کو ’’نو فلائی زون‘‘ قرار دلایا۔ اس قرارداد نے کردوں کو موقع دیا کہ وہ اپنی خودمختاری کو مزید مضبوط بنا سکیں۔ 2017ء میں کردستان کی علاقائی حکومت کے صدر مسعود بارزانی نے مکمل خودمختاری کے لئے ریفرنڈم کرایا، جس میں عراقی کردوں کی اکثریت نے مکمل خودمختاری کی حمایت کی، مگر عالمی برادری نے ریفرنڈم کے نتائج قبول نہ کیے کیوںکہ ان کی نظر میں ریفرنڈم کرانے کا مناسب وقت اور موقع نہیں تھا۔
ادھر شامی کرد توقع کر رہے تھے کہ 2011ء سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کے باعث کمزور پڑنے والی اسد حکومت انہیں اپنے ’کاز‘ کے حصول کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ لیکن اب شامی کرد توقع کرتے ہیں کہ انہیں اپنی شناخت منوانے کے لئے ابھی ’’انتظار گاہ ‘‘ مزید وقت گزارنا چاہیے۔ امریکا انہیں ہر قسم کی قابل تصور سیاسی اور فوجی حمایت فراہم کر رہا ہے۔ شامی کردوں کی مضبوط ترین سیاسی جماعت ڈیمو کریٹک یونین پارٹی نے حال میں مختلف 25 کرد سیاسی گروپوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کر کے ’’کردش نیشنل یونٹی پارٹی‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہے، اسی طرح کی ایک تنظیم ’’کردش نیشنل کونسل آف شام‘‘ استنبول میں کام کر رہی ہے۔ 17نومبر کو عراقی کردستان سے شائع ہونے والے بارزانی نواز کردش اخبار نے شامی کردوں کے دونوں گروپوں کے بارے میں لکھا ’’دونوں حریف سیاسی گروپوں نے مشترکہ سیاسی ویڑن کے لئے مذاکرات کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا ہے۔ دونوں گروپوں کے درمیان مذاکرات کے لیے امریکا نے فعال کردار ادا کیا تھا، شام کے لئے امریکا کے خصوصی نمائندے ولیم روباک بھی ان مذاکرات میں شریک ہوئے اور امریکی حکومت کے لئے دونوں گروپوں کے کردار کی تعریف کی۔
عراقی کردستان کے موجودہ صدر نیچروان بارزانی نے کامیاب مذاکرات پر شامی کردوں کو مبارک دی ہے۔ ترکش میڈیا رپورٹس کے مطابق نیچروان بارزانی حکومت شمالی عراق میں کردستان ورکرز پارٹی کی سرگرمیوں کے بارے ترکی کو انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتی ہے۔ شاید ایسا وہ اس لیے کرتی ہے تاکہ انقرہ کے اسے حمایت حاصل رہے، شاید ایک بڑی وجہ کردستان ورکرز پارٹی کا علاقائی حکومت کے لئے درد سر بننا ہے۔
شامی کردوں کے لئے نیچروان بارزانی کی حمایت کی وجہ مستقبل کے حوالے عزائم ہو سکتے ہیں جن میں شام اور عراق کے کرد علاقوں کا انضمام اور کردش راہداری کے قیام کے لیے شام حکومت پر دباو? ڈالنا شامل ہے جو کہ ایران سے بحیرہ روم تک طویل ہو۔
شامی اور عراقی کرد علاقوں کا انضمام ہوتا ہے یا نہیں، سب سے زیادہ گھاٹے میں ترکی رہے گا۔ عراق و شام میں کردوں کی قومی شناخت مستحکم ہونے سے ترکی کے کردوں کا قومی ’’کاز ‘‘ مزید تقویت حاصل کرے گا۔ انقرہ کو یہ احساس نہیں کہ کردش نیشنل کونسل ا?ف شام نامی جس تنظیم کی وہ کئی سال سے سرپرستی کر رہا ہے، وہ ڈیموکریٹک یونین پارٹی آف شام کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے، جسے ترکی کردستان ورکرز پارٹی کے ذیلی تنظیم قرار دیتا ہے، جو کہ گزشتہ 35 سال سے ترکی کے خلاف لڑ رہی ہے۔ شامی کرد تنظیموں کے مابین اتفاق رائے پر ترکی نے سرکاری سطح پر تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا، شاید انقرہ کی نظر میں یہ اتفاق رائے خاص اہمیت کا حامل نہ ہو۔ کردوںکے مابین وسیع تر قومی اتحاد کی اگر یہ کوششیں کامیابی کے ساتھ جاری رہتی ہیں تو پھر ان کے سنگین نتائج کا ترکی کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر