... loading ...
دوستو،ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی جانب سے ملک میں کرپشن کا پیمانہ جانچنے کے لیے کرائے گئے نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے (این سی پی ایس) 2021ء سے معلوم ہوا ہے کہ ملک میں پولیس اور عدلیہ کرپٹ ترین ادارے ہیں۔ سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت حکومت کی خود احتسابی کے معاملے پر مطمئن نہیں جبکہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ ملک میں کرپشن کی اہم ترین وجوہات کمزور احتساب (51.9 فیصد)، طاقت ور لوگوں کی ہوس (29.3 فیصد) اور کم تنخواہیں (18.8 فیصد) بتائی گئی ہیں۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ کرپٹ ترین ادارہ پولیس ہے جس کے بعد عدلیہ کا دوسرا نمبر ہے۔ این سی پی ایس میں بتایا گیا ہے کہ ٹینڈر اور ٹھیکے دینے کا شعبہ تیسرا کرپٹ ترین شعبہ ہے جس کے بعد صحت، لینڈ ایڈمنسٹریشن، بلدیاتی حکومتیں، تعلیم، ٹیکسیشن اور این جی اوز کا سیکٹر آتا ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق حالیہ سروے 14 اکتوبر 2021ء سے 27 اکتوبر 2021ء تک ملک کے چاروں صوبوں میں کرایا گیا جس میں عام عوام نے گورننس سے جڑے اہم ترین معاملات پر اپنی رائے پیش کی ہے۔
پولیس کا نام جہاں بھی لیا جاتا ہے، رشوت یا پیداگیری کا تصور فوری ذہن میں آجاتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ پولیس میں سب کرپٹ نہیں ہوتے لیکن اوورآل پولیس اہلکاروں کی اکثریت کرپشن کا شکار ہے، اس کی وجہ شاید مہنگائی، کم تنخواہ، وسائل کی کمی، اسٹیٹس سمبل وغیرہ ہوتے ہوں گے۔۔ یہ بات تو کسی عقل کے اندھے کو بھی آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ۔۔ جو تھانیدار پیسے دے کر کرسی حاصل کرتا ہے کیا وہ کمائے گا نہیں؟؟ ہم جب کراچی میں ایک اخبار کے لیے کرائم رپورٹنگ کرتے تھے تھے تو ایک تھانے کے اے ایس آئی سے کافی اچھی دوستی ہوگئی۔ وہ اپنے تھانے کی ’’اندرونی‘‘ کہانیاں بمعہ ثبوت ہمیں دیتا تھا،ایک روز ہم ایک ہوٹل پر ساتھ بیٹھے کھانا کھارہے تھے کہ ہم نے اسے پریشان دیکھا، وجہ پوچھی تو کہنے لگا۔۔ بہت جلد ایس ایچ او لگنے والا ہوں، آجکل پیسوں کا بندوبست کررہا ہوں۔۔ ہم نے اس کی بات مذاق میں اڑاتے ہوئے کوئی دوسری کہانی شروع کردی۔۔ تین چار ماہ بعد ایک روز اس کا اچانک فون آیا۔۔ کہنے لگا۔۔ فلاں تھانے کی طرف سے گزر ہوتو میرے ساتھ کھانا ضرور کھالینا۔۔ ہم نے حیرت سے پوچھا، کیا تبادلہ ہوگیا۔۔کہنے لگا۔۔آپ کا بھائی ایس ایچ او لگ گیا ہے۔۔ ہم اگلے ہی روز پہنچ گئے۔۔ کھانے سے زیادہ اس بات کی کھوج لگانا چاہ رہے تھے کہ۔۔یہ بندہ ایس ایچ او کیسے بن گیا؟؟ کھانے کے دوران باتوں باتوں میں کہنے لگا۔۔ بیوی کا سارا زیور بیچا، ایک دوست سے پانچ لاکھ روپے ادھار لیے۔۔ پچیس لاکھ روپے میں یہ کرسی ملی ہے۔۔ایک ماہ ہوگیاتیرے بھائی نے بیوی کا سارا زیوربنوا دیا۔۔ دوست سے جو قرضہ لیا تھا واپس کردیا۔۔ سالے اور بیوی کے نام دو بنگلے کردیئے۔۔ بیوی کے اکاؤنٹ میں پچاس لاکھ سے زائد رقم ڈال دی۔۔ قسمت نے کیسا پلٹا کھایا ہے۔۔ ہم نے لقمہ دیا۔۔ پلٹا نہیں کھایا، یہ سب تیرے نصیب میں تھا تجھے ویسے ہی مل جانا تھا۔ تم نے حرام کا رخ کیا، یہ سب حرام ہوگیا۔۔ اس دن کے بعد سے ہم اپنے دوست سے دوبارہ نہیں ملے۔۔ایک دیہاتی کا بکرا مر گیا۔ تو دیہاتی نے اپنے بیٹے سے کہا یہ بکرا لے جاؤاور پولیس انسپکٹر کو دے آؤ۔۔ میں نے سنا ہے کہ وہ حرام کھاتے ہیں۔
ایک بہت ہی عیار اور مکار مجرم کو گرفتار کرنے پر انسپکٹر کو انعام دیتے ہوئے ڈی آئی جی صاحب نے پوچھا۔۔ انسپکٹر تمہیں کیسے پتا چلا کہ عورت کے بھیس میں وہ مجرم مرد ہے؟۔۔انسپکٹر نے سادگی سے جواب دیا۔ ۔ سر! مجرم وغیرہ تو مجھے پتا نہیں تھا۔۔ مجھے تو وہ عورت ہی لگی تھی لیکن ذرا مشکوک دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے اس کا پیچھا شروع کر دیا۔ وہ ایک شاپنگ مال میں گھس کر چیزیں دیکھنے لگی۔ وہاں بہت سے آئینے بھی لگے ہوئے تھے۔ جب وہ کسی آئینے کے سامنے نہیں رُکی تب میں سمجھ گیا کہ وہ عورت نہیں ہے۔۔ ایک شاعر کو کسی جرم میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ عدالت میں مقدمہ چلا۔ تو جج نے پوچھا۔آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا پسند کریں گے؟۔۔شاعرنے بڑی انکساری سے کہا۔۔ جی بس اپنی تازہ غزل سنانا پسند کروں گا۔۔ایک شخص رات کو زخمی حالت میں سڑک پر پڑا تھا۔ پولیس نے ابتدائی رپورٹ تیار کی اور ہوش آنے پر اس شخص سے پوچھا۔کیا تم شادی شدہ ہو؟وہ شخص غصے سے بولا۔۔۔جی میں بیوی کی ٹکر سے نہیں بلکہ گاڑی کی ٹکرسے زخمی ہوا ہوں۔ پولیس کے سپاہی نے اپنی چھڑی سے ملزم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انسپکٹر سے کہا۔ ’’جناب! اس چھڑی کے سرے پر انسان نہیں شیطان کھڑا ہے‘‘۔ ملزم نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔’’حضور! اس سے یہ بھی پوچھ لیجیے کہ کس سرے پر؟‘‘۔۔
باباجی کا کافی دنوں سے تذکرہ نہیں ہوا۔۔ باباجی نے ایک بار اپنی نوجوانی کا قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ۔۔ پولیس نے جب ہمارے محلے سے ایک صاحب کو پکڑا اور بتایا کہ یہ ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ چرس بھی بیچتا ہے۔۔میں ایک ہفتے تک حیران و پریشان ہی رہا۔۔ہم نے باباجی سے حیرانی وپریشانی کی وجہ پوچھی تو مسکرا کر بولے۔۔ میں اسے پانج سال سے جانتاتھااورمجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ ایک ڈاکٹر بھی ہے۔۔باباجی کا ہی فرمان عالی شان ہے کہ ۔۔میں نے ایک بات نوٹ کی ہیں جب سے کورونا آیا ہیں باقی بیماریوں کی تو کوئی عزت ہی نہیں بچی ہیں۔۔ایک چور کے گھر پولیس نے چھاپا مارا۔چور اپنی جان بچانے کے لیے جھولے میں لیٹ گیا اور چوسنی منہ میں ڈال لی۔پولیس والے نے پوچھا۔۔ یہاں کیا کر رہے ہو؟؟۔۔چوربولا۔۔ دُودُو پی را ہوں۔۔پولیس والا مسکرا کرکہنے لگا۔۔شاباش بیٹا۔۔ جلدی جلدی دُودو پیو، پھر پیپ پیپ میں چلیں گے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔’’جب تم دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہو تو اچھی چیزیں خود لوٹ کر تمہاری طرف آتی ہیں۔یہ قانون قدرت ہے‘‘خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔