... loading ...
۔۔
درویش کے چہرے پر عجب نور تھا،اس کی باتیں دل میں ترازو ہو جاتیں ،اسی لیے ان کے عقیدت مندوںکی تعدادمیں برا بر اضافہ ہوتا چلا جارہاتھا ۔سیاست،مسلک اور غیرضروری امور اور متناع باتوں سے بالاترہوکر صرف انسانیت کی خیرخواہی ان کا مقصود تھا۔ اسی لیے ہر عقیدے اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بلاجھجک ان کی مجلس میں آجایا کرتے تھے۔
درویش نے حاضرین پر ایک نظردوڑائی اور بڑے دل سوز لہجے میں کہا ،کبھی بے کار مشاغل سے جان چھڑائیں ،تھوڑی سی فرصت نکالیں ،دل ودماغ کی کھڑکیاں کھول کر سوچئے، تاریخ میں زندہ رہنے والے ا نسان کیسے ہوتے ہیں؟آدم علیہ اسلام سے شروع کریں،اب تلک کھربوں انسان اس دنیا میں آئے اپنی زندگی گزاری اور مرگئے۔ بیشترکی قبروں کے نشانات بھی نہیں ملتے۔ قبرستان جائیں وہاں عبرت کاایک جہان آبادہے۔ وہاں ایسے لوگوںکی قبریں ہوںگی کبھی خوبصورتی جن پر ناز کرتی ہوگی،اصول پرست یا پھر اپنے اصولوں کے غلام ، ظالم کنجوس،دیوث،وحشی،جنسی درندے، امیر،غریب،بادشاہ،وزیر،مشیر سب خاک کے ساتھ خاک ہوگئے ۔قبرستان میں ان لوگوںکی ہڈیاں بھی گل گئیں، جو یہ سمجھتے تھے ہمارے بغیر یہ دنیا نہیں چل سکتی، طرح دار شوخ چنچل عورتیں جن کی ایک ایک ادا پردرجنوں دل تھام کرآہیں بھرنے والے، یا ایسے لوگ جنہوںنے اس دنیا کو ایک طلسم خانہ بنارکھا تھا یا جن کی ذات خودایک طلسم تھی یا وہ جو نگار خانے کی رونق تھیں کچھ ایسی بھی تھیں جنکے دم قدم سے نگار خانے آباد تھے ۔سوچنے کا مقام ہے وہ کہاں چلے گئے؟ ان کا حسن و جمال،طنطنہ،اختیار سب کا سب اب مٹی ہے ،نہ جانے کتنے آسمان زمین کا رزق بن چکے ہیں ۔ہم محدود سوچ کے مالک کرہ ٔ ارض کے حاکموں،محکوموں،اشرافیہ، کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ ہرشخص اس خوش فہمی میں ہے کہ وہ بڑااہم ہے زندگی کی آخری سانسوںتک یہ وہم جان نہیں چھوڑتا ورنہ یہ مقولہ بیشتر لوگ اکثردہراتے رہتے ہیں آج مرے کل دوسرا دن۔ لیکن کوئی اس کی گہرائی میں نہیں جاتا، کیا ہم سب کے لیے اس بات میں عبرت پوشیدہ نہیں کہ بڑے سے بڑااہم،معتبراور بڑے سے بڑا فرد اس دنیا کے لیے ناگزیرنہیں۔ یقین نہ آئے تو قبرستانوںمیں جاکر دیکھ لو کتنے بڑے بڑے آسمان زمین کا رزق بنے ہوئے ہیں اور ان کی قبریں حسرت و یاس کا مجموعہ ہیں ۔لیکن درویش نے اپنی انگشت ِ شہادت ہوا میں لہراتے ہوئے کہا ،زندگی کا تسلسل، ایک انداز ایک زاویہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے لیکن بہت سے لوگوں سے اوجھل بھی ہے ۔کیا آپ جانتے ہیں یقینا جانتے ہی ہوں گے کہ ان مردوں میں سے ہزاروں ابھی’’ زندہ‘‘ ہیں حالانکہ درجنوںکی قبروں کے نام ونشان بھی نہیں ہوں گے۔ کمال تو یہ ہے کہ ان کے تذکرہ کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ، کئی تو ایسے ہیں انہوںنے دنیا کا جغرافیہ بدل کررکھ دیا،کئی کی داستانیں عرب و عجم میں مقبول ہیں، وہ آج بھی ہردلعزیزہیں ،ان کے نام کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، یہ کون لوگ ہیں جن پر تاریخ نازکرتی ہے، جو انسانیت کی آبرو ہیں،جن کا ذکر سننے سے راحت ہوتی ہے، دلوںکو سکون ملتاہے، ہم ان کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ۔تم نہیں جانتے تو جان لیجیے۔یہ لوگ وہ ہیں جن کے متعلق مسلمان پانچ وقت نماز کے دوران یہ دعا کرتے ہیں کہ یاباری تعالیٰ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ان لوگوںکا راستہ جن پر تونے اپنافضل وکرم کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ کیوں حکم نہیں دیاگیا کہ یااللہ ہمیں اپنے راستے پر چلا ۔۔ صرف نیک ،صالح لوگوںکا راستہ اپنانے کی کیوں ہدایت فرمائی۔ یقینا اس میں کوئی حکمت،کوئی راز یا کوئی رمزپوشیدہ ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن پر اپنا فضل و کرم کیا ،ان نیک ،صالح لوگوںکا راستہ ہی صراط ِ مستقیم ہے ۔یہی لوگ ہمارے لیے مشعل ِ راہ ہیں۔انہی کے متعلق کہا گیا ہے
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
ایسے اللہ والوںکی تعلیمات سے گتھیاں سلجھتی ہیں،زندگی کے حقیقی معانی آشکارہوتے ہیں،ان کے ذکروفکرسے نئی جہتیں،نئے جہاں آبادہوتے ہیں لیکن کئی کچھ نہیں جانتے یادرکھو ادھورا اور محدود علم جہالت ہے اور زیادہ علم فتنہ ہے۔ اسی لیے نبی ٔ آخرالزماں ﷺ اللہ کے حضور دعافرمایا کرتے تھے اے اللہ مجھے نافع علم عطافرما۔ یہی آج کا المیہ ہے کہ معاشرے میں چند کتابیں پڑھنے والے آپے سے باہرہوکر مخالفین پرفتوے لگاناشروع کردیتے ہیں،کچھ نے تو سستی شہرت کے لیے ہرکسی میں کیڑے نکالنے کی روش اپنالی ہے کیونکہ چھوٹا آدمی بڑے پر تنقیدہی ا س لیے کرتاہے کہ وہ مشہورہوجائے ۔مشہور بندے کے لیے واردات کرنی آسان ہو جاتی ہے۔
درویش نے کہا ریاکاروںکی صحبت شخصیت کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ ستم طریفی یہ ہے کہ ہمیشہ ریاکاروںنے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھاہے جو قرآن مجید کی آیات اور حدیث ِ مبارکہ کے مطالب اپنی صوابدیدکے مطابق کرکے بھولے بھالے لوگوںکو گمراہ کرتے ہیں ۔اسی لیے مسلمان تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں اور عجیب و غریب عقائد کے فرقے وجودمیں آرہے ہیں اب تو ایک ایک مسلک سے درجنوں نئے مسلک بنتے چلے جارہے ہیں۔ کوئی اختلاف کو برداشت نہیں کرتا اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر بیٹھ جاتاہے ۔اللہ ہم سب کو ایسی خرافات سے محفوظ رکھے آپ خود غور کریں تحقیق کریں کہ نبی پاک ﷺ اور صحابہ ؓ کرام کی تعلیمات و عقائد کیا ہیں ؟ انہوں نے اخلاقی ، معاشرتی ومعاشی رہنمائی کے لیے کیا اصول وضع کیے ،ہم ان کی کس حدتک پاسداری کررہے ہیں؟ اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺ نے جھوٹ،ملاوٹ،چوری،ڈکیتی،غیبت،حق تلفی اور دیگر اخلاقی برائیوںسے منع فرمایاہے۔ ہم ان کے خلاف اپنا فعال کردار ادا کریں۔ اللہ کے احکامات ،اس کے رسولﷺ کے اسوہ ٔ حسنہ اور ان کے نیک صالح بندوںکی روشن مثالوں پر عمل پیرا ہو جائیں ،سنی سنائی باتوںپر توجہ نہ دیں، سوچیں یہ کیوں حکم نہیں دیاگیا کہ یااللہ ہمیں اپنے راستے پر چلا ۔ اللہ وحدۂ لاشریک نے صرف نیک ،صالح لوگوںکا راستہ اپنانے کی کیوں ہدایت فرمائی ۔یقینا اس میں کوئی حکمت،کوئی راز یا کوئی رمزپوشیدہ ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن پر اپنا فضل و کرم کیا ان نیک ،صالح لوگوںکا راستہ ہی صراط ِ مستقیم ہے۔ یہی لوگ ہمارے لیے مشعل ِ راہ ہیں۔ کبھی کبھارقبرستان کا چکربھی لگایاکریں دنیا کی بے ثباتی عیاں ہونے سے عبرت حاصل ہوتی ہے ۔جائز ناجائزدولت کا حصول،لالچ،مکروریا سے دوسروںکی حق تلفی کرنے والوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ انسان دنیا سے کچھ لے کرنہیں جاتا، صرف میت کو کفن اور دو گززمین ہی میسر آتی ہے ، وہ بھی قسمت والوںکا مقدربنتی ہے ورنہ حسرت ہی رہ جاتی ہے:۔
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔدفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں