... loading ...
دنیا بھر میں جمہوری و عوامی حکومت کا بنیادی وظیفہ ہی عوام کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انتظامی سہولیات بہم پہنچانا ہوتاہے اور اس اہم ترین ذمہ داری کی ادائیگی کے لیئے ہر جمہوری حکومت شہر،ضلع ،تحصیل سے لے کر یونین کونسل کی نچلی سطح تک مختلف محکمہ جاتی سرکاری ادارے قائم کرکے اُن میں موزوں اور اہل سرکاری اہلکاروں کو تعینات کرتی ہے۔ تاکہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اُن اداروں سے رجوع فرما سکیں اور وہاں موجود حکومتی اہلکار اپنے اختیارات کو بروئے کار لاکر آئین و قانون کی روشنی میں عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں ۔ لیکن اگر بدقسمتی سے حکومت وقت کے قائم کردہ محکموں میں متعین سرکاری اہلکار و افسران عام افرادکو درپیش انتظامی مسائل کو حل کرنے میں بُری طرح سے ناکام ہوجائیں یا پھر وہ اپنے ذمہ واجب لاداکام کا معاوضہ،تنخواہ کے علاوہ بھی بصورت رشوت اعلانیہ و غیر اعلانیہ سائلین سے طلب کرنا شروع کردیں تو پھر اِن بدعنوان عناصر سے باز پرس کرنے کے لیے چند احتسابی ادارے بھی ہر حکومت کے زیرنگیں ضرور موجود ہوتے ہیں ، جن سے متاثرہ افراد،رجوع فرما کر بدعنوان سرکاری اہلکار و ا فسران کے خلاف اپنی شکایات درج کرواسکتے ہے۔
مثا ل کے طور پر محکمہ اینٹی کرپشن کا قیام وطن عزیز پاکستان کے طول و عرض میں عمل میں لایا ہی صرف اس لیے گیا تھا کہ یہ احتسابی ادارہ ،سرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانی کو بے نقاب کرکے بدعنوانی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزائیں دے گا ۔ مگر افسوس صد افسوس، خالص انسداد ِ کرپشن کے لیئے وجود میں آنے والا یہ ادارہ ،کرپشن کی بہتی گنگا کے گند کو سرکاری اداروں سے صاف کرنے کے بجائے خوداس کا ایک جزولاینفک بن کر رہ گیا اور اَب عوام کا اس احتسابی ادارے پربد اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ وہ سرکاری اہلکاروں کی زیادتی کے خلاف ، محکمہ اینٹی کرپشن سے رجوع کرنا تو درکنار، اُلٹا اپنی نجی محفلوں میں اُس پر ’’محکمہ آنٹی کرپشن ‘‘کی پھبتی کس کر کے بھد اُڑاتے ہیں۔
یاد رہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن جیسے احتسابی اداروں کے یکسر ناکام اور غیر موثر ہونے کے بعد ہی وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی محتسب کا ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں ناکہ دودھ کا جلا ،چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اور سانپ کے ڈسے ہوئے کو ،راہ میں پڑی ہوئی رسی پر بھی اکثر سنپولیے کا ہی گمان ہونے لگتاہے۔ کچھ ایسی ہی بدگمانی ،ناکام احتسابی اداروں کا شکار عوام کو وفاقی محتسب کے متعلق ناصرف کل تھی بلکہ آج بھی لاحق ہے۔ دوسروں کاتو خیر ذکر ہی کیا کریں ،خود ہم بھی ایک مدت سے یہ ہی فرض کیے بیٹھے تھے کہ وفاقی محتسب بھی عوامی شکایات پر کاغذی کارروائیوں کا ملمع چڑھاکر انہیں داخلِ دفتر کرنے کے لیے قائم کیا گیا ،دیگر سرکاری احتسابی اداروں کی مانند ایک روایتی سا محکمہ جاتی ادارہ ہی ہوگا ۔ مگر ہماری یہ خام خیالی اُس وقت انتہائی خام اور سراسر فضول ثابت ہوئی جب گزشتہ دنوں ہمارا، اپنا واسطہ ایک مسئلے کے سلسلے میں وفاقی محتسب سے پڑگیا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ حیسکو ،حیدرآباد کے خلاف ایک شکایت وفاقی محتسب کی ویب سائٹ پر آن لائن اندراج کرائی تو ،چند لمحوں بعد ہی موبائل فون پر پیغام موصول ہوا کہ’’ آپ کی شکایت زیرسماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے لیے وفافی محتسب کے ریجنل دفتر حیدرآباد کو ارسال کردی گئی ہے‘‘۔ نیز چند روز بعد وفاقی محتسب کی جانب سے ایک خط بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک موصول ہوا، جس میں میری شکایت کی سماعت اور اُس کے حل کے لیے حیسکو حکام کو وفاقی محتسب کے ریجنل دفتر، حیدرآباد میں طلب کیا گیا تھا۔ یہاں تک تو بات پھر بھی اچھی طرح سے سمجھ میں آگئی تھی کہ وفاقی محتسب ادارہ واقعی ایک متحرک احتسابی ادارہ کے طور پر کام کر رہاہے لیکن جب شکایت کے سماعت سے ایک دن پہلے متعلقہ دفتر سے یاد دہانی کا فون موصول ہوا اور فون کرنے والے نے انتہائی مہذب انداز میں گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف میری شکایت پر اَب تک ہونے والی پیش رفت کی جملہ تفصیلات سے آگاہ کیا بلکہ ساتھ ہی تاکیدکی کہ اگر آپ بھی اپنی شکایت کے سماعت کے وقت موجود ہوں گے تو ہمارے ادارے کو آپ کی شکایت جلد ازجلد حل کرنے میں خاص سہولت ہوگی‘‘۔کسی سرکاری احتسابی ادارے کی جانب سے سائل کی شکایت کے ازالے کے لیے اس قدر دلچسپی کا اظہار کم ازکم میرے لیے تو انتہائی خوش گوار اور حیران کن تجربہ تھا۔
لیکن ابھی تو مزید حیرتیں وفاقی محتسب کے دفتر میں میری منتظر تھیں ۔ پہلا مقام ِ حیرت تو یہ مشاہدہ میں آیاکہ وفاقی محتسب کے ریجنل دفتر حیدرآباد میں کام کرنے والا تمام ہی عملہ ’’ دوستانہ طرز عمل‘‘ کی ایک تصویربنا ہوا تھا۔ نیز سائلین کے لیے انتظار گاہ میں موسم کی مناسبت سے ہر ضروری سہولت مہیا کر دی گئی تھی۔ جبکہ تعلیم یافتہ یااَن پڑھ، شہر سے آئے ہوئے یا دور دراز دیہات سے آنے والے سائلین کو بلاکسی تفریق و لحاظ برابری کی بنیاد پر بھگتایا جارہا تھا۔ علاوہ ازیںوفاقی محتسب کی جانب سے عوامی شکایات کی جانچ پڑتال کے لیے مقرر کیے گئے ایسوسی ایٹ ایڈوائزر، جناب ڈاکٹر ریاض صدیقی صاحب ہر سائل کی شکایت نہ صرف پوری توجہ سے سُن رہے تھے، بلکہ متعلقہ حکام سے باز پرس کرتے ہوئے اہم نکات ضبط تحریر میں بھی لارہے تھے۔ جب خاکسار کی باری آئی تو ڈاکٹر ریاض احمد صدیقی نے شکایت پر حیسکو حیدرآباد سے فقط پانچ منٹ میں ریلیف گرانٹ کروادیا ۔ ویسے تو مسئلہ کا حل ہونا ہی ایک بڑی بات ہوتی ہے لیکن شکایت کا فوری طور پر چند لمحوں میں حل ہوجانا، وہ بھی ایک بڑے سرکاری ادارے کی وساطت سے ،یہ ایک ایسی سر خوشی ہے ،جسے لفظوں سے زیادہ سائلین کے چہرے بیان کرسکتے ہیں اور بلاشبہ میں نے اُس دن بے شمار سائلین کے چہرے ریلیف ملنے کے بعد ستاروں کی مانند دمکتے ہوئے دیکھے۔
عام طور پر تو یہ ہی سمجھا جاتاہے کہ اہلِ صحافت کا کام حکومتی اداروں کی بدانتظامی ،نااہلی اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنا ہوتاہے لیکن میری دانست میں اگر کوئی سرکاری ادارہ خاص طور پر احتسابی ادارہ غیر معمولی کارکردگی کا مظاہر کررہاہے تو اُس کے بارے میں بھی ضرور عوام کو آگاہ کرناچاہئے ۔تاکہ عام آدمی جس کا اعتماد روز بروزحکومت کے قائم کردہ احتسابی اداروں پر سے اُٹھتا جارہا ہے ،دوبارہ سے بحال ہوسکے ۔ میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں کہ سرکاری اداروں سے نالاں اور مایوس افراد کو کم ازکم ایک بار اپنے مسئلہ اور شکایت کے حل کے لیے وفاقی محتسب سے ضرور رجوع کرنا چاہئے ۔خاطر جمع رکھیے کہ سائل کی ہاتھ سے لکھی گئی یا وفاقی محتسب کی ویب سائٹ پر درج کروائی گئی آن لائن درخواست پر وفاقی محتسب کی جانب سے بلاکسی تاخیر کارروائی شروع ہوجاتی ہے اور شکایت کنندہ کو ایس ایم ایس کے ذریعے اسکی شکایت کا نمبر او رتاریخ سماعت کی اطلاع کر دی جاتی ہے ۔جبکہ زیادہ سے زیادہ 60 یوم کے اندر ہر شکایت کو نمٹا بھی دیا جاتاہے۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اگلے برس سے وفاقی محتسب کے صدر دفتر کی طرح تمام علاقائی دفاتر میں بھی آن لائن سماعت کی سہولت فراہم کردی جائے گی ۔ یعنی مستقبل قریب میں کوئی بھی شکایت کنندہ سکائپ،IMOاور انسٹا گرام پراپنے گھر یا دفتر میں بیٹھ کر اپنی شکایت پر ہونے والی سماعت میں براہ راست شریک ہوکر اپنا موقف پیش کرسکے گا۔یاد رہے کہ وفاقی محتسب کے فیصلوں پر کوئی بھی فریق نظر ثانی کی اپیل دائر کر سکتا ہے ،جس کا فیصلہ 45دن میں کر دیا جاتا ہے۔نیز فیصلوں کے خلاف اپیل صرف صدر پاکستا ن کو ہی کی جا سکتی ہے اور صدر پاکستان بھی عموماً وفاقی محتسب کے فیصلوں کو بحال رکھتے ہیں۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ وفاقی محتسب کے قیام سے لے کر آج تک ،اس احتسابی ادارے کی طرف سے جاری کردہ فیصلوں کے خلاف کی گئی اپیلوں میں سے فقط 2 فیصد اپیلیں ہی سماعت کے لیے قبول کی گئی ہیں اور وہ بھی تمام شکایت کنندگان کی تھیں ۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ملک کا کوئی اور احتسابی ادارہ عوامی اُمنگوں کے مطابق کام کرے یا نہ کرے بہرکیف ’’وفاقی محتسب واقعی کام کرتاہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔