وجود

... loading ...

وجود

حکومتی برتری اورآئینی ترامیم

هفته 20 نومبر 2021 حکومتی برتری اورآئینی ترامیم

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپوزیشن کے 203 کے مقابلے میں221 ووٹوں حکمران اتحادکو 33بل پاس کر انے میں کامیابی ہوئی ہے ۔پاس ہونے والے بلوں میں ای وی ایم کے استعمال، سمندر پار پاکستانیوں کوووٹ اور گرفتار بھارتی جاسوس نیوی کمانڈر کلبھوش کو اپیل کا حق ینے کے بل شامل ہیں، پارلیمنٹ سے بل پا س کرانا غیر آئینی یا غیر قانونی عمل نہیں البتہ اختیار کیے گئے۔ حکومتی طریقہ کارکی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ترامیم کی تفصیلات پہلے کمیٹیوں کو بھیجی جاتیں جہاںاراکین کھل کر بحث ومباحثہ کرتے تاکہ قانون کا حصہ بننے سے قبل ہی سقم دور کر لیے جاتے مگر قومی اسمبلی میں حکومت کو سادہ اکثریت حاصل ہے، اسی وجہ سے ہر بار حکومت کو قانون سازی میں مشکلات پیش آتی ہیں لیکن پارلیمنٹ میں بحث کا موقع نہ دے کر کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا۔ ملکی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال تھا کہ قانون سازی کے عمل سے شاید حکومتی ممبران کی کچھ تعداد شریک نہ ہو جس کے اشارے بھی مل رہے تھے، لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اندازوں کے برعکس اپوزیشن کے آٹھ جبکہ دوحکومتی ممبر غیر حاضر رہے ،جس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ ملکی سیاست کے بارے صدفی صد درست اندازہ لگانا محال ہے پی ٹی آئی کے ناراض رہنما عامر لیاقت حسین کے بقول ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں اور لانے والے اہتمام کے ساتھ لائے ہیں۔ اگر واقعی عملی طور پر ایسا ہوا ہے تو سمجھنا مشکل نہیں کہ اِدارے ابھی سیاسی عدمِ استحکام نہیں چاہتے باوجود اِس کے کہ ملک میں مہنگائی و بے روزگاری نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے ۔
غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے کسی بیرونی طاقت کو اڈے دینے یا سرزمین استعمال کرنے کی اجازت کے متعلق سوال کا جواب ہاںمیں دینے کی بجائے ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کربہت سوں کو حیران کردیا تھا جسے حکومت نواز حلقے وزیرِ اعظم کی ہمت و جرات قرار دیتے ہیں لیکن کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے کا بل پاس کرنے سے اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر دبائو بڑھے گا اور عوام میں حکومتی عمل سے ناپسندیدگی کی لہر جنم لے سکتی ہے حالانکہ نواز شریف دور میں ہی عالمی عدالتِ انصاف کے روبرو پاکستان ایسا وعدہ کر چکا ہے لیکن عوامی ناپسندیدگی کے خدشے کی بنا پر قانون سازی نہ کرسکے اب حکومت نے بظاہر عالمی عدالت سے کیا وعدہ پورا کیاہے گرفتار جاسوس کواپیل کا حق دینے سے مستقبل میں حکومتی جماعت کی مقبولیت میں کمی آسکتی ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے تمام اہداف حاصل کر لیے اور برتری ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن شکوک و شبہات کی فضا مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اپوزیشن کا موقف ہے کہ اسپیکر نے گنتی میں ہیرا پھیری کی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اپوزیشن کو حالات کا اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی ہے۔ پرائیویٹ ممبرز ڈے میں دو بلوں پر حکومت کو شکست دینے سے اپوزیشن کوحوصلہ ملا لیکن مزید تیاری نہ کی گئی جبکہ حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے آپشن کا انتخاب کرتے ہوئے ہوم ورک جاری رکھااور کامیابی کا یقین نہ ہونے تک اجلاس ملتوی کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔آئینی اصلاحات ای وی ایم اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے حکومت نے اسپیکر کی وساطت سے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن اپوزیشن نے جوابی خط میں ترامیم کو اتفاقِ رائے سے پاس کرنے کی شرط پرہی مذاکرات پر رضا مندہونے کو مشروط کردیا جس سے بات آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ حکومت کسی حوالے سے بھی اپوزیشن کی کوئی شرط تسلیم کرنے پر تیارنہیں۔ اسپیکر اور اپوزیشن کے درمیان جاری بات چیت سے حکومت کو البتہ اتنا وقت مل گیاکہ اتحادیوں کو راضی اور پرویز خٹک جیسے لوگوں کو مطمئن کرسکے جس کا اپوزیشن ادراک نہ کر سکی۔ اسی لیے حکومت برتری ثابت کرنے اور آئینی ترامیم میں کامیاب ہو ئی اب اپوزیشن نے منظورشدہ بل چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کمیٹی بنا دی ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عدالتیں قوانین کی تشریح ضرور کرتی ہیں مگر قانون سازی کے حوالے سے پابندیاں نہیں لگا سکتیں۔
انتخابی عمل میں ترمیم کے باوجود یہ بات وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ ای وی ایم کو انتخابی عمل کا حصہ بنانے کاحکومتی مقصد بآسانی پورا ہو جائے گا کیونکہ ایک طرف اگر اپوزیشن کو تحفظات ہیں تو الیکشن کمیشن بھی پوری طرح مطمئن نہیں ۔بار ایسوسی ایشنوں میں بھی اِس حوالے سے مخالفت اور بے اطمنانی موجودہے۔ عملے کی تربیت اور انٹرنیٹ کی فراہمی کوممکن بنانا ہے انھی دشواریوں کے پیشِ نظر سیکرٹری الیکشن عمر حمیدخان نے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میںالیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مشینوں کے استعمال میں چیلنجز درپیش ہیںاِس لیے قانون پاس ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن آئندہ الیکشن ای وی ایم کے مطابق کرانے کا پابند نہیں۔ بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں آئندہ انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ شہباز شریف بھی ای وی ایم کو شیطانی مشن قرار دیتے ہیں ۔اِن حالات میں پہلی بار انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اِس لیے عملی اقدامات سے پہلے حکومت کو تحفظات دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے ۔
بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن دنوں ہی عوامی مشکلات دور کرنے کی بجائے دائو لگانے پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں نئی آئینی ترامیم پاس کرنے میں بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سوچ کارفرما ہے جب حکومتی بینچوں پر بیٹھے اراکینِ پارلیمنٹ میں ای وی ایم کے حوالے سے بے اطمینانی ہے۔ اپوزیشن بھی خفاہے توقانون سازی سے قبل رائے عامہ کو حق میں کرنے پر توجہ کیوں نہیں دی گئی۔ اب حالات سے ایسے اِشارے ملتے ہیں کہ مستقبل میں حکومت اور اپوزیشن میں موجود تنائو اور محاذآرائی میں اضافہ ہوگاای وی ایم کے استعمال میں جلد بازی سے انتخابی نتائج پر نہ صرف شک و شبہات بڑھیں گے بلکہ اوورسیز کوووٹ کا حق دینے سے بھی افہام وتفہیم کی بجائے تلخی میں ہی اضافہ ہوگا۔ اوورسیز کو ووٹ کا حق دینے کا مطالبہ کئی برس سے جاری ہے مگر حکومتی جلد بازی سے ظاہر ہوتاہے کہ اِس فیصلے میں خلوص نہیں بدنیتی ہے ۔ اِس وقت بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی تعداد سوا کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے تارکینِ وطن کی اکثریت موجودہ حکومت کی حامی ہے اسی لیے حکومت کوشاں ہے کہ جلد از جلد تارکین وطن کی انتخابی عمل میں شرکت یقینی بنائی جائے اُسے تارکین وطن سے نہیں اُن کے ووٹوں سے غرض
ہے ۔ نئی انتخابی ترمیم سے وہ کسی جماعت کی فتح و شکست میں فیصلہ کُن کردار کے قابل ہو گئے ہیں لیکن اِس طرح انتخابات میں غیر ملکی مداخلت بڑھنے کا خدشہ بھی رَد نہیں کیا جا سکتا۔ آئینی ترامیم سے قبل مشاورت سے گریز اور عجلت میں منظوری سے حکومت کی اپنی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ اگر ترامیم سے مشاورت کی جاتی تو آج حکومت یوں دفاعی پوزیشن پر نہ ہوتی کیونکہ الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں امریکا ، آسٹریلیا، بھارت،برازیل،بیلجیئم ،فلپائن ،وینزویلا اور ایسٹونیا میں استعمال کی جارہی ہیں ۔یہ کوئی عجوبہ نہیں پاکستان یہ مشینیں استعمال کرنے والا دنیا میںپہلا نہیں بلکہ9واں ملک ہے ۔اِ س لیے تنقید کا جواز نہیں لیکن عجلت میں قانون سازی کے ذریعے برتری کے سوا حکومت کے ہاتھ کچھ نہیں آیا ،آئینی ترامیم میں حکومتی خلوص کے حوالے سے شک کی فضا موجود ہے، جسے ختم کرنا کسی اور کا نہیں حکومت کا کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر