وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان، ہنوز سیاسی اضطراب

جمعرات 18 نومبر 2021 بلوچستان، ہنوز سیاسی اضطراب

 

لگتا ایسا ہے کہ جیسے ملک کے اندر حکومت و سیاست کی بساط کی ترتیب نو کی جارہی ہے، گہرے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں، ممکن ہے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پہلا شکار بنیں اور بے منصب کردیئے جائیں۔ بلوچستان کے اندر اوائل ستمبر اور اکتوبر تک کی ہلچل اس نتیجے پر منتج ہوئی کہ عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بن گئے۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی مستعفی ہونے کے بعد کراچی اور آبائی علاقے گئے۔ جام کمال موجودہ منظر نامے کو کھلی آنکھوں سے دیکھ و گہرائی سے مشاہدہ کررہے ہیں، اخبارات اور سماجی رابطے کے ابلاغ کے ذرائع پر زیادہ متحرک ہیں، لمحہ لمحہ اپنی حکومت کے کار ہائے نمایا دکھاتے اور بیان کرتے رہتے ہیں، حکومت کو راہ راست کی تلقین و نشاندہی بھی کراتے ہیں۔دراصل بلوچستان عوامی پارٹی معروف طور سیاسی جماعت نہیں کہلائی جاسکتی، راتوں رات بنائی جانیوالی کنگ پارٹی میں جدا جدا ترجیحات کے حامل افراد شامل کرائے گئے، مابعدجولائی 2018ئ￿ کے عام انتخابات کے کئی دوسرے چڑھتے سورج کو دیکھتے ہوئے شامل ہوئے، یوں حکومت کی تشکیل ہوئی۔ بی اے پی اور اتحادیوں پر مشتمل حکومت چلانا جان جوکھوں کا کھیل تھا۔
عبدالقدوس بزنجو ایسے وزیراعلیٰ ہوں تو معاملات قدرے سہل انداز میں چلتے رہتے ہیں کہ جائز و ناجائز کیلئے آمادہ ہوتے ہیں، تاہم جام کمال جیسے افراد مباح، مفاد عامہ و سرکار اور قانون پیش نظر رکھتے ہیں۔بہرحال چنداں راحت والا معاملہ عبدالقدوس اور انکے چند یاران ترجیحات و مشترکات کیلئے بھی نہیں، بی اے پی کے اندر ہنوز معلوم نہیں کہ جماعت کے صدر کون ہیں؟ جام کمال خان نے عہدہ با ضابطہ نہیں چھوڑا ہے جبکہ دوسرے گروہ نے ظہور بلیدی کو قائمقام صدر مقرر رکھا ہے یعنی وقت موجود کنگ پارٹی کے دو صدور ہیں، ایک صدر تو دوسرے قائمقام صدر ہیں۔ انٹرا پارٹی انتخابات کی دی گئی مدت بھی ختم ہوچکی ہے جو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 13 نومبر مقرر کی گئی تھی۔ چنانچہ قائمقام صدر نے الیکشن کمیشن کو مزید مہلت کی درخواست دے دی ہے۔اللہ اللہ کرکے عبدالقدوس بزنجو پر اتفاق ہوا، پھر توقف کے بعد 29 اکتوبر کو بزنجو نے حلف اٹھالیا، مابعد کابینہ کی تشکیل پر اتفاق رائے پر ٹھنی رہی۔ کئی دن بعد یعنی 7 نومبر کو 14 رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا، اب محکموں پر عدم اطمینان و کشمکش ہے، اس طرح کئی دن کی تاخیر کے بعد 15 نومبر کو قلمدانوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا، کئی وزراء رنجیدہ ہیں کہ انہیں حسب وعدہ محکموں کے قلمدان تفویض نہیں کئے گئے۔ ایک وزیر جو عین آخر وقت پر جام کمال کا ساتھ چھوڑ کر حلقہ بگوش مخالف گروہ ہوگئے تھے، کہہ چکے ہیں کہ عبدالقدوس بزنجو دی گئی زبان سے مکر چکے ہیں۔ گویا کھینچا تانی پرکشش محکموں کیلئے ہورہی ہے، جہاں مال و دولت کی فروانی سمجھی جاتی ہے یا جہاں نئے ملازمین بھرتی کرنے کی گنجائش زیادہ ہے۔اگرچہ جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پوری طرح عبدالقدوس بزنجو سے بغل گیر ہیں، پارٹی کے اراکین اسمبلی اور سابقہ حکومت کے اتحادی بھی شامل حکومت ہیں مگر حقیقت یہ بھی پیش نظر رہے کہ بلوچستان میں حکومت و سیاست کا اونٹ اب تک کسی کروٹ بیٹھا نہیں ہے، آئندہ کے چند دن بہت اہم ہیں، تیز ہوا کا تھپیڑا کسی بھی وقت آسکتا ہے۔عبدالقدوس بزنجو نے حال ہی میں یہ بھی کہا کہ ماضی میں نواب ثناء اللہ زہری سے بھی صوبہ نہیں چل رہا تھا تو وہاں بھی کردار ادا کیا گیا، اپنی اہلیت کا جواب یا وضاحت نواب زہری ہی دے سکتے ہیں؟ بزنجو نے تو انہیں بادی النظر میں نااہل کہہ ہی دیا اور خود کو جام کمال پر بھی برتر بتاتے ہیں۔ یہاں مکافات عمل نے سردار یار محمد رند کو پکڑے رکھا ہے، جام مخالفت میں بہت آگے آگے تھے، کچھ عرصہ کیلئے احتجاجاً وزارت چھوڑ دی تھی، اپنی دانست میں سیاسی کھلاڑی بنے رہے۔ جام کمال رخصت ہوئے تو نئے آنے والوں نے انہیں سرے سے پوچھا ہی نہیں، حتیٰ کہ اپنی جماعت تحریک انصاف کے اراکین بلوچستان اسمبلی نے خاطر میں نہیں رکھا ہے۔مبین خان، نصیب اللہ مری اور نعمت اللہ زہری کابینہ میں شامل کردیئے گئے ہیں، ’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اْدھر کے رہے‘ کہ مصداق سردار رند کے ہاتھ کچھ بھی نہ رہا، بطور سیاستدان نرے ناواقف اور ناکام ٹھہرے ہیں۔انہوں نے 15 نومبر کو سوختہ دلی کے ساتھ اسمبلی میں عبدالقدوس بزنجو کی حمایت چھوڑنے کی بات کہی۔
کہتے ہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں آزاد یا حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ پارلیمانی ساتھیوں کے ساتھ مل کر کریں گے۔ سردار رند اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ضرور ہیں مگر کیا تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی ان کے اقدام و فیصلے میں ساتھ دیں گے۔ درحیقیت پارٹی کے پارلیمانی ارکان انہیں پسند نہیں کرتے، مزید تجاوز و نامناسب بات اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اور گورنر بلوچستان ظہور آغا سے متعلق یہ کہہ دی ہے کہ دونوں کچھی کے علاقے میں ہونیوالے 3 افراد کے قتل میں ملوث ہیں۔ضلع کچھی کے مقام بالاناڑی میں 11 نومبر کو زمین کے تنازع پر فائرنگ کے واقعے میں 3 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ اعوان طائفہ کے افراد نے ایف آئی آر میں سابق صوبائی وزیر عاصم کرد گیلو کو بھی نامزد کیا ہے۔ عاصم کرد گیلو، سردار یار محمد رند کے سیاسی حریف ہیں۔ سردار رند کہتے ہیں کہ واقعے سے چند دن پہلے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری، گورنر ظہور احمد آغا اور عاصم کرد گیلو کے درمیان ملاقات ہوئی تھی، ملاقات کی تصاویر پریس کانفرنس کے دوران لہراتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈپٹی اسپیکر اور گورنر بھی قتل میں ملوث ہیں۔اب ظاہر ہے کہ سردار رند اس طرح کی باتیں کریں گے تو پارٹی میں ان کی کیا وقعت رہے گی؟ دوئم سیاسی لوگ تو کسی سے بھی ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال بلوچستان کے اندر سیاسی فضاء بدستور اطمینان بخش نہیں ہے۔ ایک ذمہ دار اور بڑی شخصیت سے ملاقات ہوئی وہ صوبے کی صورتحال پر کافی مضطرب تھے۔ کہا کہ ’’گورنر تو خوبصورت تھے ہی اب تو صوبے کا وزیراعلیٰ بھی خوبصورت انسان بن چکا ہیں‘‘۔ معلوم نہیں کہ اس بد نصیب صوبے کا کیا بنے گا؟گویا انہوں نے ان الفاظ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر