... loading ...
لگتا ایسا ہے کہ جیسے ملک کے اندر حکومت و سیاست کی بساط کی ترتیب نو کی جارہی ہے، گہرے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں، ممکن ہے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پہلا شکار بنیں اور بے منصب کردیئے جائیں۔ بلوچستان کے اندر اوائل ستمبر اور اکتوبر تک کی ہلچل اس نتیجے پر منتج ہوئی کہ عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بن گئے۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی مستعفی ہونے کے بعد کراچی اور آبائی علاقے گئے۔ جام کمال موجودہ منظر نامے کو کھلی آنکھوں سے دیکھ و گہرائی سے مشاہدہ کررہے ہیں، اخبارات اور سماجی رابطے کے ابلاغ کے ذرائع پر زیادہ متحرک ہیں، لمحہ لمحہ اپنی حکومت کے کار ہائے نمایا دکھاتے اور بیان کرتے رہتے ہیں، حکومت کو راہ راست کی تلقین و نشاندہی بھی کراتے ہیں۔دراصل بلوچستان عوامی پارٹی معروف طور سیاسی جماعت نہیں کہلائی جاسکتی، راتوں رات بنائی جانیوالی کنگ پارٹی میں جدا جدا ترجیحات کے حامل افراد شامل کرائے گئے، مابعدجولائی 2018ئ کے عام انتخابات کے کئی دوسرے چڑھتے سورج کو دیکھتے ہوئے شامل ہوئے، یوں حکومت کی تشکیل ہوئی۔ بی اے پی اور اتحادیوں پر مشتمل حکومت چلانا جان جوکھوں کا کھیل تھا۔
عبدالقدوس بزنجو ایسے وزیراعلیٰ ہوں تو معاملات قدرے سہل انداز میں چلتے رہتے ہیں کہ جائز و ناجائز کیلئے آمادہ ہوتے ہیں، تاہم جام کمال جیسے افراد مباح، مفاد عامہ و سرکار اور قانون پیش نظر رکھتے ہیں۔بہرحال چنداں راحت والا معاملہ عبدالقدوس اور انکے چند یاران ترجیحات و مشترکات کیلئے بھی نہیں، بی اے پی کے اندر ہنوز معلوم نہیں کہ جماعت کے صدر کون ہیں؟ جام کمال خان نے عہدہ با ضابطہ نہیں چھوڑا ہے جبکہ دوسرے گروہ نے ظہور بلیدی کو قائمقام صدر مقرر رکھا ہے یعنی وقت موجود کنگ پارٹی کے دو صدور ہیں، ایک صدر تو دوسرے قائمقام صدر ہیں۔ انٹرا پارٹی انتخابات کی دی گئی مدت بھی ختم ہوچکی ہے جو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 13 نومبر مقرر کی گئی تھی۔ چنانچہ قائمقام صدر نے الیکشن کمیشن کو مزید مہلت کی درخواست دے دی ہے۔اللہ اللہ کرکے عبدالقدوس بزنجو پر اتفاق ہوا، پھر توقف کے بعد 29 اکتوبر کو بزنجو نے حلف اٹھالیا، مابعد کابینہ کی تشکیل پر اتفاق رائے پر ٹھنی رہی۔ کئی دن بعد یعنی 7 نومبر کو 14 رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا، اب محکموں پر عدم اطمینان و کشمکش ہے، اس طرح کئی دن کی تاخیر کے بعد 15 نومبر کو قلمدانوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا، کئی وزراء رنجیدہ ہیں کہ انہیں حسب وعدہ محکموں کے قلمدان تفویض نہیں کئے گئے۔ ایک وزیر جو عین آخر وقت پر جام کمال کا ساتھ چھوڑ کر حلقہ بگوش مخالف گروہ ہوگئے تھے، کہہ چکے ہیں کہ عبدالقدوس بزنجو دی گئی زبان سے مکر چکے ہیں۔ گویا کھینچا تانی پرکشش محکموں کیلئے ہورہی ہے، جہاں مال و دولت کی فروانی سمجھی جاتی ہے یا جہاں نئے ملازمین بھرتی کرنے کی گنجائش زیادہ ہے۔اگرچہ جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پوری طرح عبدالقدوس بزنجو سے بغل گیر ہیں، پارٹی کے اراکین اسمبلی اور سابقہ حکومت کے اتحادی بھی شامل حکومت ہیں مگر حقیقت یہ بھی پیش نظر رہے کہ بلوچستان میں حکومت و سیاست کا اونٹ اب تک کسی کروٹ بیٹھا نہیں ہے، آئندہ کے چند دن بہت اہم ہیں، تیز ہوا کا تھپیڑا کسی بھی وقت آسکتا ہے۔عبدالقدوس بزنجو نے حال ہی میں یہ بھی کہا کہ ماضی میں نواب ثناء اللہ زہری سے بھی صوبہ نہیں چل رہا تھا تو وہاں بھی کردار ادا کیا گیا، اپنی اہلیت کا جواب یا وضاحت نواب زہری ہی دے سکتے ہیں؟ بزنجو نے تو انہیں بادی النظر میں نااہل کہہ ہی دیا اور خود کو جام کمال پر بھی برتر بتاتے ہیں۔ یہاں مکافات عمل نے سردار یار محمد رند کو پکڑے رکھا ہے، جام مخالفت میں بہت آگے آگے تھے، کچھ عرصہ کیلئے احتجاجاً وزارت چھوڑ دی تھی، اپنی دانست میں سیاسی کھلاڑی بنے رہے۔ جام کمال رخصت ہوئے تو نئے آنے والوں نے انہیں سرے سے پوچھا ہی نہیں، حتیٰ کہ اپنی جماعت تحریک انصاف کے اراکین بلوچستان اسمبلی نے خاطر میں نہیں رکھا ہے۔مبین خان، نصیب اللہ مری اور نعمت اللہ زہری کابینہ میں شامل کردیئے گئے ہیں، ’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اْدھر کے رہے‘ کہ مصداق سردار رند کے ہاتھ کچھ بھی نہ رہا، بطور سیاستدان نرے ناواقف اور ناکام ٹھہرے ہیں۔انہوں نے 15 نومبر کو سوختہ دلی کے ساتھ اسمبلی میں عبدالقدوس بزنجو کی حمایت چھوڑنے کی بات کہی۔
کہتے ہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں آزاد یا حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ پارلیمانی ساتھیوں کے ساتھ مل کر کریں گے۔ سردار رند اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ضرور ہیں مگر کیا تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی ان کے اقدام و فیصلے میں ساتھ دیں گے۔ درحیقیت پارٹی کے پارلیمانی ارکان انہیں پسند نہیں کرتے، مزید تجاوز و نامناسب بات اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اور گورنر بلوچستان ظہور آغا سے متعلق یہ کہہ دی ہے کہ دونوں کچھی کے علاقے میں ہونیوالے 3 افراد کے قتل میں ملوث ہیں۔ضلع کچھی کے مقام بالاناڑی میں 11 نومبر کو زمین کے تنازع پر فائرنگ کے واقعے میں 3 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ اعوان طائفہ کے افراد نے ایف آئی آر میں سابق صوبائی وزیر عاصم کرد گیلو کو بھی نامزد کیا ہے۔ عاصم کرد گیلو، سردار یار محمد رند کے سیاسی حریف ہیں۔ سردار رند کہتے ہیں کہ واقعے سے چند دن پہلے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری، گورنر ظہور احمد آغا اور عاصم کرد گیلو کے درمیان ملاقات ہوئی تھی، ملاقات کی تصاویر پریس کانفرنس کے دوران لہراتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈپٹی اسپیکر اور گورنر بھی قتل میں ملوث ہیں۔اب ظاہر ہے کہ سردار رند اس طرح کی باتیں کریں گے تو پارٹی میں ان کی کیا وقعت رہے گی؟ دوئم سیاسی لوگ تو کسی سے بھی ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال بلوچستان کے اندر سیاسی فضاء بدستور اطمینان بخش نہیں ہے۔ ایک ذمہ دار اور بڑی شخصیت سے ملاقات ہوئی وہ صوبے کی صورتحال پر کافی مضطرب تھے۔ کہا کہ ’’گورنر تو خوبصورت تھے ہی اب تو صوبے کا وزیراعلیٰ بھی خوبصورت انسان بن چکا ہیں‘‘۔ معلوم نہیں کہ اس بد نصیب صوبے کا کیا بنے گا؟گویا انہوں نے ان الفاظ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
٭٭٭٭٭٭