... loading ...
وزیراعظم عمران خان اپنی جنگ ہار رہے ہیں۔ وہ خود کو تقدس کے ایسے مقام سے دیکھتے ہیں جو خود اُنہیں ہی دکھائی دیتا ہے۔ سوانگ بھرنا ہالی ووڈ کا کام ہے، رہنما کا نہیں۔ اگر کوئی اقتدار کو ”مزے کی چیز“ سمجھتا ہے تو وہ فاش غلطی پر ہے۔ رہنما کی پینترے بازی یا خود نمائی کارکردگی سے منسلک ہو کر نظرانداز کی جاتی ہے، لیکن اگر کوئی کارکردگی ہی خود نمائی یا پینترے بازی کی رکھتا ہو، تو وہ شکار ی نہیں رہ سکتا، وقت کے ہاتھوں شکار ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ناموری (سلیبرٹی) جب تک طاقت کے کھیل کے سے باہر ہو، وہ کشش اور غیر کشش کے سوال سے جڑی ہوتی ہے، مگر جب یہ رہنمائی کے منصب کو چھوتی ہے تو مفید اور غیر مفید کی بحثیں پیدا کرتی ہیں۔
شاہ رخ خان، ریما یا میرا کسی منچ پر ہو تو بات صرف بوریت کی حد تک ہوتی ہے۔ وہ جب تک اپنے حاضرین و ناظرین کو بور نہیں کریں گے، کام چلتا رہے گا۔ مگر رہنماعوام کو جذباتی سطح تک قائل کرتے ہوئے دماغوں کو اپنی جانب راغب رکھتے ہیں۔ عمران خان دماغوں کو کیا راغب کرتے، وہ اقتدار سے پہلے کی اپنی ذاتی کشش بھی کھو چکے۔ ہر گزرتا دن اُن کے اقتدار پر ایک نیا بوجھ لاد رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو اس بات پر داد دینی چاہئے کہ وہ کم از کم تین سال تک یکساں صفحہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ جبکہ اس صفحے کے پُرزے پُرزے ہونے کا خطرہ اُن کے اقتدار سنبھالنے کے ابتدائی ماہ وایام میں ہی تھا۔اُنہیں بھی داد دینی چاہئے جن کی نگاہیں زرداری منڈلی اور شریف ٹھٹھ سے مقابلے کے لیے عمران خان پر پڑیں۔ اگرچہ عمران خان کے بہت سے اقدامات نے اُن کے لیے ہاتف ِ غیبی کا کام دیا تھا۔ مگر جب مقتدر حلقے ٹھان لیتے ہیں تو پھر پروا کب کرتے ہیں۔ طاقت کی حرکیات میں سوچنے کا کام بھی دماغ سے نہیں ہاتھ سے لیا جاتا ہے۔ عمران خان کے حوالے سے یہی کچھ ہوا۔ درحقیقت یہ 2014 کا دھرنا ہی تھا، عمران خان کی سیاست جس کی بھینٹ چڑھی، جن عالی ”دماغوں“نے دھرنے کو سیاسی کنٹرول کے آلے کے طور پر متعارف کرایا، وہ تاریخ میں ہمیشہ جوابدہ رہیں گے۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ تب سے آج تک پاکستانی سیاست دھرنے کی قیدی چلی آتی ہے۔انتخاب کنندہ اور چنیدہ دونوں ہی بھول گئے، انجیل متی سے اخذ ایک محاورہ اُن کی رہنمائی کے لیے موجود تھا:۔
. ”Live by the sword, die by the sword“
(تلوار سے زندگی کرنے والے تلوار سے ہی مرتے ہیں)
عمران خان تحریک لبیک کے دھرنے سے ویسے ہی شکار کیے گئے جیسے اپنے دھرنے سے وہ نوازشریف کو شکار کرنے نکلے تھے۔ وہی دھرنے کی تلوار!مگر اس محاورے کی تہہ داری میں خود انتخاب کنندگان کے لیے بھی پیغام ہے، وہ عمران خان کو جن کے خلاف تلوار بنانا چاہتے تھے، وہی عمران خان اب ایک تلوار بن کر اُن کے سامنے بھی لہرا رہی ہے۔ دونوں ہی جن جن کے لیے اور جن جن کے خلاف تلوار بنے، وہی اب ایک دوسرے کے خلاف تلوار بنے پھرتے ہیں۔ یہ کھیل کوئی مختلف نہیں، چناؤ کے مذکورہ اُصول میں نتائج کے فطری جبر کے عین مطابق ہے۔المیہ یہ ہے کہ اس کھیل میں کامیاب اور ناکام دونوں ہی اپنے اپنے طریقوں کے قیدی ہیں۔ اُنہیں کچھ نیا سوجھتا نہیں، اس لیے وہ نتائج بھی بدلنے پر کبھی قادر نہیں ہو پاتے۔
وزیراعظم عمران خان کوئی مستحکم شخصیت نہیں رکھتے، اگرچہ اُن کے متعلق بعض لوگ خلاف واقعہ دعوے ضرور کرتے پھرتے ہیں۔ حزب ِمخالف کے طور پر ایک لمبی سیاسی اننگ کھیلتے ہوئے اُنہیں کرکٹ کی مختلف اصطلاحات کے ساتھ بیان کیا جاتا۔ بڑے لوگوں کے ارد گرد رہنے اور دکھائی دینے کی عجیب وغریب اور پسماندہ نفسیات میں کچھ لکھنے والوں نے اُنہیں شکست نہ ماننے والے اور دباؤ قبول نہ کرنے والا ظاہر کیا تھا۔ مگر ان تمام دعوؤں کی تشریح غلط ہوتی رہی۔ اہم بات یہ تھی کہ ناموری(سلیبرٹی) کے باعث عمران خان کی غیر مستحکم شخصیت سے اُن کا کھوکھلا پن چھپانا گوارا کیا گیا، بھولنا نہیں چاہئے کہ چار دہائیوں سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی سیاست سے اوبھ جانے والی طبیعتوں کے لیے ایک نیا انتخاب یوں بھی کئی قسم کی مجبوریوں سے گزارا کرنا سکھا دیتا ہے۔ فائدہ عمران خان کو پہنچا۔انتخاب کنندگان نے ہاتف ِ غیبی کی وہ آوازیں جو اپنے اپنے وقت پر سنائی دیں، آخر کیوں نظرانداز کیں؟عمران خان سے پاکستان کے ایک بڑے طبقے کو تب مایوسی ہوئی تھی، جب اُنہوں نے جمائما خان سے شادی کی تھی۔ عمران خان کے غیر ہموار ازدواجی زندگی کے مختلف ادوار میں یہ واحد دور ہے جسے اُن کے مقربین بہتر انتخاب کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ اگر یہ انتخاب درست تھا، تو عمران خان کا علیحدگی کا فیصلہ کسی بھی صورت پسندیدہ نہیں ہوسکتا۔ اور اگر علیحدگی کا فیصلہ درست تھا، تو پھر یہ انتخاب بہترین نہیں ہوسکتا۔ میانوالی کے ہمارے مرحوم دوست انوار حسین حقی اس شادی کے متعلق بعض ایسے حقائق سے آگاہ تھے، جو پاکستان میں کوئی نہیں جانتا۔حقائق آشکار کرتے ہیں کہ عمران خان اپنے دونوں فیصلوں سے ایک غیر متوازن شخصیت کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ انتخاب کنندگان کے پاس اس کا کوئی تجزیہ کیوں نہیں تھا؟ چلیں یہ ابتدائی دور تھا، اور سیاست کے اگلے ادوار میں بہت سی تبدیلیاں وقوع پزیر ہوئیں۔ مگر ریحام خان کا معاملہ تو بالکل تازہ ہے۔
عمران خان کا انتخاب ریحام خان کیسے ہوسکتی تھی؟ کیا عمران خان ریحام خان کے متعلق اتنا بھی نہیں جانتے تھے، جو اسلام آباد کے صحافی تب کھلے عام اپنی محفلوں میں بیان کرتے تھے۔ ذرا وہ انٹرویوز یاد کیجیے، جس میں عمران خان ریحام خان کی خوبیاں بیان کرتے تھے۔ پھر کیا ہوا؟عمران خان نے جولائی 2018ء میں ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اِس شادی کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا۔ عمران خان اور ریحام کی زندگی کے آخری چند ماہ انتہائی سخت تناؤ میں گزرے۔ اس کے بعض اہم ترین گوشے ابھی بھی اخفاء کے پردے میں ہیں۔ یہ سوال اہم حلقوں میں ایک تنبیہ کے طور پر رہنا چاہئے تھا کہ ریحام خان سے شادی اور طلاق دونوں ہی میں اختیار کیا گیا انداز اتنا پُراسرار کیوں تھا؟عمران خان نے ریحام خان سے اپنی شادی کی تصدیق جنوری 2015 ء میں کی تھی، مگر اس پر چہ مگوئیاں اکتوبر 2014ء میں شروع ہوئیں۔ یہ بھی قابل غور پہلو ہے کہ عمران خان کے حوالے سے اکثر ہونے والی چہ مگوئیاں درست ہی ثابت کیوں ہو جاتی ہیں؟ اب ریحام سے شادی کے ایام یاد کیجیے! کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ شادی کب ہوئی؟ عمران خان دھرنے میں تھے، جب یہ باتیں گردش کرتی رہیں کہ وہ کن گاتے گنگناتے راستوں پر اپنا دل چھوڑ آئے ہیں۔ شادی کی مختلف تاریخیں سامنے آئیں۔ ذرا ایک لمحے کو ٹہر کر سوچئے تو سہی!پوری قوم دھرنے میں یرغمال تھی، سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے جب اعلان کیے جارہے تھے، تب عمران خان خاموشی سے اپنی زندگی کو کہاں کھپا اور تھکا رہے تھے۔ یہ اس معاملے کی واحد سنگینی نہیں تھی، یاد کیجیے! آرمی پبلک اسکول کا سانحہ 16/ دسمبر 2014ء کو پیش آیا تھا، عمران خان نے ریحام سے شادی بھی اسی دوران میں کی۔ جب عمران خان دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے بعد آرمی پبلک اسکول سانحے کے متاثرہ والدین سے ملنے گئے تو ایک ماں نے اُن سے روتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ ہم اس کرب سے گزررہے ہیں اور آپ شادی کرتے پھررہے ہیں؟ عمران خان کی ذہنی کیفیت کا جائزہ لینے کا یہ مناسب ترین وقت تھا۔ایک بار پھر طاقت کی حرکیات میں دماغ نہیں ہاتھ ہی سوچنے کا کام کررہے تھے۔ اب ذرا دیکھیے! عمران خان نے ریحام خان کو طلاق کیسے اور کب دی؟عمران خان نے 30/ اکتوبر 2015ء کو ریحام خان کو ایک ایسے وقت میں طلاق دی جب وہ بنی گالہ سے لندن کے لیے روانہ ہوئی۔ وہ جب ہیتھرو ائیرپورٹ پر اُتری تو اُسے پتہ چلا کہ عمران خان اُنہیں طلاق دے چکے ہیں۔ طلاق کے لیے ٹوئٹس کا منفرد طریقہ اختیار کیا گیا، عمران خان کی جانب سے یکے بعد دیگرے تین ٹوئٹس کیے گئے۔ ریحام خان چندماہ سے اس اندیشے کی شکار تھی اور وہ بنی گالہ سے ضروری کاموں کے لیے بھی باہر نہیں نکل رہی تھی۔ ریحام نے لندن کے ضروری سفر کے لیے وقت کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کرکیا تھا۔ خیبر پختونخوا میں زلزلہ آیا ہوا تھا، اور بلدیاتی انتخابات چند روز کے فاصلے پر کھڑے تھے، ریحام خان سمجھتی تھی کہ عمران خان کبھی بھی یہ وقت طلاق کے لیے نہیں چنے گا کیونکہ اس سے اُن کی سیاست پر بہت بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مگر عمران خان نے ریحام کے گھر سے باہر نکلتے ہی اپنی جان چھڑانے کا فیصلہ کیا۔ یہ پھر ایک موقع تھا کہ عمران خان کے فیصلوں کے نفسیاتی عوامل و عوارض کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کی جاتی۔عمران خان کسی بھی تعلق کو قائم کرنے اوراُس پر پھر تین حرف بھیجنے میں کتنی دیر لگاتے ہیں، اس کو ابھی بھی ان واقعات سے سمجھا جاسکتا ہے۔ واقعات کا ایک پورا سلسلہ اپنے بہاؤ میں ہے، مگر کالم کا ورق نبڑ گیا۔درحقیقت عمران خان کے نفسیاتی مطالعے میں یہ چند اشارے ہیں۔اُن کی ازدواجی زندگی سے سیاسی زندگی تک بے شمار کہانیاں یہ سوال اُٹھانے پر مجبور کرتی ہیں کہ آخر ایک غیر متوازن شخصیت پر طاقت ور حلقوں نے انحصار ہی کیوں کیا؟ قصہ کوتاہ!طاقت کے وہ مراکز جو عمران خان کی شخصیت میں سوانگ بھرنے کو کارکردگی اور یوٹرن کو ذہانت سمجھتے تھے، وہ اب اُن کے نئے سوانگ اور نئے یو ٹرن کا لطف لیں۔ اور عمران خان اقتدار کو ایسی مزے کی کوئی چیز سمجھتے ہیں جس کے لیے زندگی بھر کی نظریاتی باتیں گنوائی جاسکتی ہیں تو وہ اس فاش غلطی کے مزے اُٹھائیں۔ ہم یکساں صفحے پر یکساں نتائج کی یکساں تاریخ سے دل بہلانے کے پُرانے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ عبدالحمید عدم کا شعر بھی گنگنانے کے لیے موجود ہے!
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔