... loading ...
مسافر لاہور میں ہے، جہاں قرار وقیام کا احساس ہوتا ہے، مزارِ اقبال پر حاضری کو جی چاہتا ہے۔ مدت ہوئی جہاں حاضری نہیں دی۔ مسافر نے بادشاہی مسجد کے میناروں کو نظر بھر کردیکھا مگر بلندی تو یہاں قبر میں سوتی ہے۔رفعتیں تو یہاں گردن اُٹھا کر دیکھتی ہیں۔ موت نے اُن کے چہرے کو متبسم پایا ، وہ اپنی قبر میں سرخرو اُترے تھے۔کیا عجب کہ بادشاہی مسجد کے مینار روز جھک کر اُن کے لیے دُعا کرتے ہوں!!قوم 9 نومبر کو اُن کا یوم پیدائش مناتی ہے۔ بس مناتی ہے!!!
وہ قوم کتنی بدقسمت ہے جس میں اقبال پیداہوئے ہوں، اور اندھیروں میں بھٹکتی پھرتی ہو۔علامہ کی فکر ہماری ذہنی زمین پر بودی جاتی تو ہمارا روزمرہ یہ نہ ہوتا۔عطاء اللہ شاہ بخاری گاہے مؤدب ہو جاتے۔ وہی بخاری جن سے نہرو ایسے ملتا، جیسے بیٹا باپ سے ملتا ہے۔شاہ جی کے خطاب اور تلاوت پر پورا برصغیر سر دُھنتا، اقبال سیرت کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے تو شاہ جی وجد میں آجاتے! کیا لوگ تھے۔ سال 1938ء کا تھا، مقام امرتسر!! شاہ جی کہہ سکتے تھے، وہ زیادہ جانتے تھے:اقبال کو انگریز سمجھ سکا نہ مسلمان۔انگریز سمجھ لیتا تواقبال بستر پر نہ مرتا، پھانسی کے پھندے پر ہوتا اور مسلمان سمجھ لیتے تو آج غلام نہ ہوتے”۔ جی چاہتا ہے، ادب سے عرض کیا جائے، انگریز سمجھ گئے تھے، مگر جانتے تھے کہ ان کی قوم ان کو سمجھ نہ پائے گی۔سو قوم کو تاریخ کی خجالت میں چھوڑنے کے لیے اغماض کا رویہ رکھا۔ تب ہی ،تب ہی ! آزادی میں بھی ہاتھ کرگئے۔ پوری قوم آزادی کے بھرم میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ ایک طبقۂ اشرافیہ ان پر راج کرتا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جو اس قوم کا مخبر بن کر انگریزوں کا وفادار رہا۔ اب ٹیڑھے منہ سے انگریزی بولتاہے۔ زرعی، سیاسی، صنعتی، عسکری، عدالتی اشرافیہ میں رہ کر ایک دوسرے کو تحفظ دیتا ہے۔ اب بھی اقبال کہاں سمجھ آتے ہیں!علامہ 1907ء میں یہ امید رکھتے تھے!
میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا
مسافر علامہ کی قبر پہ سوچتا رہا! علامہ نکلے ، مگر وہ کارواں درماندہ ہی کیوں رہا؟ وہ اکتیس سال بعد 1938ء میں اپنی قبر میں جا اُترے تھے۔ ذرا پہلے وہ رباعی کہی جس میں درد مجسم ہوگیا تھا۔ آج بھی یہ شعر پڑھتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کیا درد ہے، اور کیا بے نیازی!
سرود رفتہ باز آید کہ ناید ؟
نسیمی از حجاز آید کہ ناید؟
سرآمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے رازآید کہ ناید؟
(سرودِ رفتہ (خدا جانے) واپس آتا ہے یا نہیں، حجاز سے ٹھنڈی ہوا چلتی ہے یا نہیں، اس فقیر (اقبال) کی زندگی کا وقت ِ آخر آپہنچا،
کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے کہ نہیں)؟
بانجھ زمین پر کہاں آئے گا؟ جہاں کا روزمرہ پست سیاست کی نذر ہے۔ جہاں تعصب حکمرانی کرتے ہیں۔ قومی شناخت کی ہر چیز پامال ہے۔ پست خیالات پر قوم کھڑی کی جائے، تو کوئی بڑا آدمی کیسے پیدا ہو،نئے خیال کا شگوفہ کیسے پھوٹے؟علامہ ہمارے عہد میں نہیں سماتے۔ وہ وقت کے رائج تصورات کو پیچھے چھوڑتے ہیں۔علامہ وقت کو زندگی کی تخلیقی قوت میں دیکھتے تھے اور گردش لیل ونہار کے شکار کو غلام سمجھتے تھے۔ ہم میں سے سب ہی ایسے ہیں۔اقبال کے ہاں لیل ونہار میں بسر ہونے والی زندگی کفن پوش ہے۔ مردہ!!وقت کو تلوار کہتے ہوئے فارسی میں کیا شعر کہے!
تو کہ از اصل زمان آگہ نہ ئی
از حیات جاودان آگہ نہ ئی
مسافر کے خیالات منتشر منتشر تھے، وہ علامہ کی قبر پر ارتکاز کا خواہش مند ہے۔ وقت اور زماں ومکاں کا تصور ایسا موضوع نہیں جو کسی کالم میں ٹھیک طرح سے تمہیداً بھی برتا جاسکے۔ علامہ اپنی زندگی کے آخر ِلمحات میں ”دگر دانائے رازآید کہ ناید”؟کہہ گئے۔ تب اُن پرآگہی کا کون سا لمحہ اُترا ہوگا؟ ذرا” اسرارِ خودی”کی تمہید کے وہ فارسی اشعار دُہرائیں!جسے اب اردو میں بھی منظوم کرلیا گیا:
میں نغمہ ہوں مجھے مضراب کی ہر گز نہیں پروا
کہ میں ہوں اس زمانے میں نوائے شاعرِ فردا
نظر سے عہدِ حاضر کی رہے اسرارِ حق پنہاں
یہ وہ بازار ہے جو میرے یوسف کے نہیں شایاں
علامہ اقبال نے اسی تمہید میں وہ خیالات باندھے ہیں کہ عظمتیں حیران ہوتی ہیں۔فطرت کی بلندی سے آسمانوں کے راز صحراؤں میں بکھیرنے والا شاعر ہی کہہ سکتا ہے کہ میں ممکنات کے کارخانے کے باطن سے تقویمِ زندگی کا راز کشید کرکے لایا ہوں۔ دانائے راز اپنی قوم کے لیے حیات کشا تمام راز لائے تھے مگر قوم خوابِ غفلت میں رہی۔ عطاء اللہ شاہ بخاری نے تب ہی تو کہااقبال کو مسلمان نے سمجھا ہی نہیں۔ حضرت اقبال کے خادمِ خاص علی بخش فرماتے تھے کہ علامہ خیالات میں محوہوتے، مراقبہ کہنا چاہئے جب وہ اپنے اوپر نازل خیالات کے تمام سروں کو پکڑنے کی کوشش میں دنیا ومافیا سے بے خبر ہوجاتے ہوں گے۔علی بخش کہتے ہیں ، پھر وہ اچانک سر اُٹھاتے،اور عالم کے پروردگار کی آخری کتابِ ہدایت طلب کرتے۔ گاہے دن میں تین تین مرتبہ قرآن پاک کھولتے۔ یقینا اپنے خیالات کی قرآن سے تائید پانے کی یہ جستجو ہوتی۔علامہ اقبال کے کلام میں تاثیر یوں ہی تو نہ تھی ۔
اُس روز اقبال بہت روئے تھے، وہ دسمبر 1931ء میں مصر تشریف لے گئے تھے۔ ایک صبح صاحب طریقت بزرگ سید محمد ماضی ابوالعزائم اپنے دو بیٹوں کے ساتھ علامہ سے ملنے ہوٹل تشریف لائے۔ وہ بادشاہوں سے ملنے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے تھے۔ مگر علامہ کی خدمت میں ہوٹل پہنچے۔ علامہ نے اُنہیں دیکھ کر ایک اضطراب سے کہا، آپ کیوں تشریف لائے، میںخود حاضر ہوتا۔ تب بزرگ نے ایک حدیث سنائی: خواجہ دوجہاںۖ کا ارشاد ہے، جس نے دین سے تمسک کیا ہو، اُس کی زیارت کو جاؤ گے تو مجھے خوشی ہوگی”۔ پھر فرمایا:میں اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے اس ارشاد کی پیروی میں چلا آیا ہوں۔ سید ابوالعزائم تشریف لے گئے تو اقبال بہت دیر تک روتے رہے کہ مجھ جیسے گناہ گا ر کو متمسک بالدین سمجھ کر خواجہ دوجہاں کے ارشاد کی اتباع کا گمان پیدا ہوا ۔ اقبال ایسے ہی تھے، بخدا ایسے ہی تھے۔درحقیقت برصغیر کے تمام بڑے آخری تجزیے میں میکانکی دماغ کے حامل ثابت ہوئے، جو باہر کی قوت سے حرکت کرتے رہے، یہ تنہا علامہ اقبال کا نامیاتی وجود تھا، جو اندر سے حرکت کرتا تھا۔ زبردست باطنی تجربات رکھتا تھا۔ اُن کا فلسفۂ خودی اسی وفور میں پھوٹا ہے۔ مسافر خیالات کی وادیوں میں گم ہے۔ لاہور میں بادشاہی مسجد کے مینار وں پر اب اندھیرا اُتر رہا ہے۔ مگر علامہ کی قبر میں ایک روشنی ہے۔اُن کے قریب خاموش کھڑے رہنے سے دماغ منور اور دل روشن ہوتا ہے۔مسافر کو یہاں قرار ہے۔ بادشاہی مسجد کے مینار شاید مسافر کی امید میں شریک ہوں، ہمارے ذہن صحرا کی ریت ہوئے تو کیا ہوا، یہ روشنی نسلِ نو کے دلوں میں ضرور اُترے گی، یہ ابرِ خوش ہنگام کہیں تو برس کر اپنے نخلستان پیدا کرے گا۔ اس پیچ وتاب ِ رازی اور سوز وسازِ رومی کی متاعِ بے بہا کا کوئی تو وارث نکلے گا!!
٭٭٭٭٭٭