وجود

... loading ...

وجود

بھارت اور اسرائیل کی مشقیں

جمعه 05 نومبر 2021 بھارت اور اسرائیل کی مشقیں

روایتی ہتھیاروں سے کوئی عرب ملک جوہری طاقت اسرائیل کا مقابلہ نہیںکر سکتا ویسے بھی قیادت سے نفرت یا جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں کی وجہ سے کئی عرب ممالک عدمِ استحکام کا شکار ہیں اِس لیے مقابلے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا کیا کوئی عرب ملک اسرائیلی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب بھی ہاں میں دینا اِس لیے ممکن نہیں کیونکہ ذیادہ تر عرب ممالک کے حکمران اقتدار برقرار رکھنے کے لیے اپنی ہی عوام سے برسرِ پیکار ہیںاِس لیے بیرونی خطرات کا سامنا کرنے یا کسی کے لیے خطرہ بننے کی پوزیشن میں نہیں البتہ اپنی عوام کے لیے خطرہ ضرور ہیں مصر،لیبیا اور شام کے حالات اِس بات کی تائید کرتے ہیں مصراور اردن وغیرہ تو اسرائیل سے دوستانہ مراسم اُستوار کر چکے مزید کئی ممالک اسی روش پر گامزن ہیں جبکہ بقیہ ممالک حالات کا جائزہ لیکر قدم بڑھانے کو تیار ہیں لبنان کاتزکرہ اِس لیے غیر ضروری ہے کہ وہ اپنے دفاع سے قاصراورمکمل طور پر صیہونی ریاست کے رحم و کرم پرہے اِس لیے اسرائیلی سالمیت کو بظاہر کسی طرف سے بیرونی خطرہ لاحق نہیں بلکہ اقتدار میں رہنے اور اپنے ملک کو درپیش خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے عرب ممالک اب اسرائیل کو خطرہ نہیں قابلِ اعتبارمحسوس ہوکرتے ہیں۔
موجودہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نفتالی ایک سابق فوجی ہیںاور اپنے ملک کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لیے کوشاں ہیں حال ہی میں انھوں نے امریکہ سے جدید ہتھیاروں کے حصول کے لیے اربوں ڈالرکے مزیداہم نوعیت کے معاہدے کیے ہیںحالانکہ دنیا کے اسی فیصد ڈرون تیار کرنے کے علاوہ اسرائیل کے پاس جدید ترین ٹینک ، میزائل اورہر قسم کی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے ساتھ پلٹ کر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی فضائیہ ہے پھر کیوں بھاری رقوم دفاع پر خرچ کر رہا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ بیرونی خطرات سے بے نیاز ہو کروہ اب مستقبل کے کردار کو بہتر بنانے کی تیاریوں میں ہے کیونکہ اب صیہونی ریاست عالمی تنہائی کا شکار نہیں بلکہ دنیا بھر کے بڑے مالیاتی اِداروں اورہتھیار ساز کمپنیوں کا مرکز ہے جدیدزرعی ٹیکنالوجی کی بدولت بڑے صحرائی حصے کو نخلستان میں تبدیل کر چکاہے کُل آبادی فوجی تربیت رکھتی ہے اِس لیے کسی بیرونی خطرے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ اسرائیلی حدود کے متعلق اُس کے عزائم کیا ہیں ؟ کا جواب اسرائیلی پارلیمنٹ کے پیشانی پر واضح درج ہے اسی لیے عین ممکن ہے اسرائیل ایک بڑی اور فصلہ کُن جنگ کی تیاری میں مصروف ہوحالیہ تیاریوں سے اِن خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ عربوں کے پُرجوش حمایتی پاکستان کو مصروف کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔
رواں ہفتے کے آغاز سے اسرائیل اور بھارت تاریخ کی سب سے بڑی فضائی مشقیں شروع کرچکے ہیں اِن مشقوں میں بحرین اور مراکش بھی شامل ہیں مگر اسرائیل کے ساتھ بھارت کی شراکت داری خاصی معنی خیز ہے نئی نئی دوستی کے نشے میں سرشار متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کے سربراہ ابراہیم نصیرمحمد العلوی بھی مشقوں کا معائنہ کرنے اسرائیل پہنچ گے ہیں مشقوں کے بارے بات کرتے ہوئے اسرائیلی فضائیہ کے چیف امیر لازار نے ایسی خبروں کی نفی کی ہے کہ مشقوں کا ہدف ایران ہے انھوں نے مستقبل میں متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کی میزبانی کا بھی عندیہ دیا عیاں حقیقت ہے کہ اسرائیل اور ایران کے ٹکرائو کے امکانات بہت کم ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایران ایک طاقتور فوج رکھتا ہے جو ڈرون طیاروں کی اچھی بھلی تعداد سے لیس ہے مزید یہ کہ اسرائیلی حملے کی صورت میں اُس کی پراکسی کا خوف ہے یمن میں حوثیوں اور شام میں بشارالاسد کی صورت میں وہ مخالفوں کو سزا دینے کا شاندار مظاہرہ کر چکا ہے اِس لیے اسرائیل کبھی نہیں چاہے گا کہ اُس کے لیے بھی ایسے حالات بن جائیں نیز ایران کو اِس حد تک کمزور کر نا کہ عرب ممالک بلکل ہی بے نیاز ہوجائیںیہ بھی اُس کے مفادات کے منافی ہے اسرائیل نے اگر ایران پر حملہ کرنا ہوتا تو بہترین وقت جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا موقع تھا ایران کی طرف سے امریکی اڈوں کومیزائلوں سے نشانہ بنانے کا بہانہ بنا کر باآسانی سبق سکھایا جا سکتا تھا مگر نہ صرف امریکہ نے کاروائی کی بجائے ایرانی حملے کو نظرانداز کرتے ہوئے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا بلکہ اسرائیل نے بھی طاقت دکھانے کی کوشش نہ کی جس سے ایسے خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ عربوں کو دبائو میں رکھنے اورمسلم امہ میںتفرقہ بڑھانے کے لیے ایرانی خطرے کا موجود رہنا امریکہ و اسرائیل کے لیے ذیادہ فائدہ مند ہے ایران کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل سے دوستی کی لہر نے جنم لیا ہے اگر ایرانی خطرے کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو عرب ممالک کے لیے واحد خطرہ اسرائیل رہ جائے گا اور ایسا ہو یہ اسرائیل کبھی نہیں چاہے گاایک اور بات مشقوں میں بھارت کی شرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ ایران ہر گز مرکزِ نگاہ نہیں کیونکہ ایران اور بھارت دونوں کے ایک دوسرے پر کافی احسانات ہیں البتہ پاکستان تک خطرے کی وسعت مبالغہ آمیزی نہیں کہہ سکتے ۔
متوقع مشقوں کے بارے فوجی حکام بظاہر یہی کہتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے اِس وقت بھی سب سے بڑا خطرہ ایران ہے اور فوجی مشقوں کی منصوبہ بندی میں بڑی حد تک توجہ کا مرکز بھی اُسے ہی بنایا گیا ہے مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ایران اور عرب ممالک کے زمینی حالات میں بڑی حد تک مماثلت ہے اور یہ مماثلت تیل کی پیداوار تک وسیع ہے اِس لیے فوجی حکام بھلے جو مرضی کہہ کر اطمنان دلانے کی کوشش کریں فضائی مشقوں کا اصل مقصد عرب ممالک کو مرعوب کرناہے متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کے سربراہ کی موجودگی سے یہ مقصد باآسانی پورا ہو جائے گا حالانکہ متحدہ عرب امارات کے طیارے مشقوں میں حصہ لینے نہیں آئے مگر فضائیہ کے چیف کی طرف سے مشقوں کے معائنے کی غرض سے آنا بہت اہمیت کا حامل ہے اِس شرکت سے یہ بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اسرائیل کو متحدہ امارات یا دیگر عرب ممالک اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتے۔
بلیو فلیگ نامی جنگی مشقیں اسرائیل 2013 سے ہر دوبرس کے وقفے سے صحرا میں منعقد کر رہا ہے جس میں جدید ترین جنگی طیارے استعمال کیے جاتے ہیں اورنشانہ بازی سے لیکر ذیادہ سے ذیادہ تباہی پھیلانے کی تکنیک کوبہتربنایا جاتا ہے ماضی قریب میں فلسطین کے خلاف نشانہ بازی اور تباہی پھیلانے کی تکنیک کا خوب مظاہر ہ کیا گیا جس کے دوران سینکڑوں افراد بے گھر ہوئے اب بھی ستر سے زائد میراج 2000 ،رافیل اور ایف سولہ طیارے جنگی مشقوں کا حصہ ہیں جن میں پندرہ سو سے زائد اہلکار شریک ہیں یہ تعداد کافی غیر معمولی ہے اور اِس سے صلاحیتوں کو جانچنے سے ذیادہ حملہ کرنے کی قوت میں اضافے کا پیغام ملتا ہے بھارت کی شرکت سے خطرات کا رُخ پاکستان تک وسیع ہونے کا خدشہ کسی صورت رَد نہیں کیا جا سکتا وجہ یہ ہے کہ مشقوں کے علاقے کی جیسی زمین ہے ویسی ہی راجھستان اور سندھ وجنوبی پنجاب میں ہے اِس لیے پاکستان کو مشقوں کے اہداف پر کڑی نظر رکھنے کے ساتھ مناسب حکمتِ عملی سے توڑ کرنے اور جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کے منصوبے پر توجہ دینی چاہیے اسرائیلی کمانڈوز کشمیر میں آچکے فضائی مشقوں میں بھارت کی شرکت خالی ازعلت نہیں ہو سکتی گزشتہ ایک دہائی سے بھارت کا اسرائیلی ہتھیاروں پر انحصار بڑھنے لگا ہے اِس بڑھتے دفاعی تعاون پرعسکری قیادت کوکڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر