... loading ...
(مہمان کالم)
بریٹ ا سٹیفنس
شام میں امریکا کی ایک فوجی چوکی پر ہونے والے ڈرون حملے کو پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے ایک ’’پیچیدہ، مربوط اور سوچا سمجھا حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس چوکی پر امریکی حلیفوں کو داعش سے جنگ لڑنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ حملہ پانچ ایرانی ڈرونز کی مدد سے کیا گیا جسے ایران کے بہی خواہ اس کی مدد اور اشیرباد سے کنٹرول کر رہے تھے۔ ہم اس انتظار میں ہیں کہ اب امریکا اس کا جواب کیسے دیتا ہے۔ صدر بائیڈن کی حکومت کی ابھی تک شدید خواہش ہے کہ ایران کو ایسا ایٹمی معاہدہ کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر لایا جائے جس کے بعد ایران کے اربوں ڈالرز فری ہو جائیں گے اور وہ ایسے مزید حملے کرنے کے قابل ہو جائے۔ مائیکرو سافٹ سائبر سکیورٹی ماہرین کے مطابق دی ٹائمز کے ڈیوڈ سینگر نے بھی سوموار کو یہ رپورٹ دی کہ ایک روسی انٹیلی جنس ایجنسی SVR ایک مرتبہ پھر امریکا کے ’’ہزاروں سرکاری، کارپوریٹ اور تھنک ٹینک کمپیوٹر نیٹ ورکس کو تباہ کرنے میں ملوث ہے‘‘۔ جب صدر جو بائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو ذاتی حیثیت میں یہ وارننگ دی کہ وہ ایسے مزید حملے کرنے سے باز رہیں اور اس سے پہلے ہونے والے حملوں پر امریکا کے کم جرمانے عائد کرنے کے باوجود اس کے ایک مہینہ بعد ہی یہ سب کچھ ہو گیا۔ عین انہی دنوں میں صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ’’اب کشیدگی میں کمی لانے کا وقت بھی ا? گیا ہے‘‘۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ان کے روسی ہم منصب ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس وقت تائیوان کی فضائی حدود میں چینی فضائیہ کے طیاروں کی بڑھتی ہوئی پروازیں بھی امریکا کے لیے سخت تشویش کا باعث ہیں۔
صدر بائیڈن متعدد بار اور حال ہی میں سی این این پر بھی اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ تائیوان کے ساتھ امریکی معاہدے کی رو سے کسی بھی بیرونی حملے کی صورت میں ہم اس کا دفاع کرنے کے پابند ہیں۔ اسی دوران وائٹ ہائوس کی طرف سے آنے والے وضاحتی بیان میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت کسی فوجی مداخلت کی ضمانت دیے بغیر امریکا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تائیوان کو اس کے دفاع میں خاطر خواہ مدد فراہم کرے۔ بالفاظ دیگر فارن پالیسی کے مرکزی چیلنجز میں سے ایک ایشو پر ہمارے صدر اس وقت حقائق کو بہتر انداز میں سمجھنے میں ناکا م رہے ہیں۔ ایک اور مسئلے پر وہ دنیا کو اپنا پیغام درست طریقے سے نہیں دے سکے۔ تیسرے مسئلے پر یہ بات واضح نہیں ہے کہ کیا امریکا کی کوئی مربوط پالیسی ہے بھی یا نہیں۔ امریکا کی قابل اعتماد دوستوں کے اتحادی اور مہم جو دشمنوں کے حقیقی حریف ہونے کے طور پر ساکھ بری طرح کمزور پڑ رہی ہے۔ اس کمزوری کی وجوہات کا سلسلہ ماضی کے کئی برسوں تک پھیلا ہوا ہے۔ امریکا کی اپنے موقف سے پھر جانے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ مگر صدر جو بائیڈن کو حالیہ الیکشن میں ان کی فہم و فراست، تجربے اور اہلیت کی بنا پر ہی صدارت کے منصب کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ کیا کوئی بھی سنجیدگی کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے اپنے مطلوبہ نتائج واقعتاً حاصل کر لیے ہیں؟ اور یہ بات صرف تائیوان، روس اور ایران سے متعلق ہی نہیں ہے۔ صدر بائیڈن نے اپنی حکومت اس دعوے کے ساتھ بنائی تھی کہ انہیں مکمل ادراک ہے کہ اس وقت دنیا کدھر جا رہی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری آ جائے گی اور ہم اپنے حریفوں کے ساتھ بھی سفارتکاری کی سہولت کا بہترین استعمال کر سکیں گے۔
ہمارے جنوبی بارڈر پر انسانی پالیسی پر بھرپور عمل کرنے سے امریکا کو اندرونی طور پر درپیش انسانی بحران میں بھی کمی واقع ہو گی۔ 4 جولائی تک امریکا میں کووڈ کی تباہ کاریوں میں بھی کمی آ جائے گی۔ ہم 11 ستمبر تک افغانستان سے اپنی فوج کے محفوظ انخلا میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ ہماری معیشت بھی پھلنا پھولنا شروع ہو جائے گی مگر ابھی تک ہماری کوئی توقع بھی پوری نہیں ہو سکی؛ تاہم اتنے اشارے ضرور ملے ہیں کہ ہماری حکومت نے اس بات پر غور ضرور کیا کہ کیا کچھ غلط ہو سکتا ہے۔ اگر اس نے کوئی عملی اقدام کیا بھی ہے تو اس میں منصوبہ بندی کا شدید فقدان نظر آیا۔ رہا افغانستان‘ تو جولائی میں صدر نے کہا تھا ’’ہمیں وہاں ایسے کوئی حالات نظر نہیں آئے کہ آپ کوسفارتخانے کی چھت سے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ہزاروں افراد کو نکالنے کی ضرورت محسوس ہو‘‘۔ مگر اس کے چند ہفتے بعد ہی دنیا نے دیکھا کہ ہزاروں افغان شہری اس ملک سے جہازوں کی مدد سے نکالے جانے کی بھیک مانگ رہے تھے۔ اتحادیوں سے تعلقات‘ ٹائمز کے ا سٹیون ارلینگر نے اگست میں رپورٹ کیا تھا ’’صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ افغانستان سے تباہ کن انخلا اور وہاں قائم اشرف غنی کی حکومت کے اچانک خاتمے پر ہمیں اپنے اتحادیوں کی جانب سے کسی قسم کی تنقید سننے کو نہیں ملی مگر یورپ میں تو زوردار اور مسلسل تنقید ہو رہی ہے‘‘۔ جہاں تک امریکی سرحدوں کی بات ہے تو مارچ میں صدر جو بائیڈن نے قوم کو یقین دہانی کرائی تھی کہ تارکین وطن کی آمد میں اضافہ عارضی ہے اور یہ ہر سال دیکھنے میں آتا ہے مگر اس کے برعکس گزشتہ سال امریکی بارڈر پٹرول اور تارکین وطن کے مابین تصادم کی تعداد اپنی ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئی۔ رہی معیشت تو جولائی میں صدر نے قیمتوں میں اضافے کو متوقع اور عارضی کہہ کر مسترد کر دیا تھا مگر آج کل ’دی ٹائمز‘ میں اس طرح کی شہ سرخیاں اکثر نظر آ رہی ہیں ’’بڑھتی ہوئی قیمتیں، جو کبھی عارضی سمجھی جاتی تھیں اب جو بائیڈن کے ایجنڈا کے لیے خطرہ بن گئی ہیں‘‘۔ حتیٰ کہ بائیڈن حکومت کی ایک حقیقی تزویراتی کامیابی یعنی امریکا برٹش آسٹریلین نیوکلیئر سب میرین معاہدہ بھی درست طریقے سے نہ کیا جا سکا کیونکہ فرانس نے اس معاہدے پر شدید ناراضی کا اظہا رکیا ہے۔ اگر آئندہ ہمیں کبھی اس کی مدد کی ضرورت پڑی تو کیا ہم یہ توقع رکھیں کہ فرانس اپنا سفارتی غصہ بھلا دے گا؟
یہ سب ہماری اپنی غلطیاں ہیں اور ان سب کی ذمہ داری بجا طور پر صدر بائیڈن پر ہی آئے گی۔ یہاں یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے 2014ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ صدر بائیڈن اس امر کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں کہ اہم خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور کے فیصلے کے موقع پر وہ ہمیشہ غلط پوزیشن پر کھڑے ہوتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر بائیڈن کو اس وقت انتہائی غلط مشورے بھی دیے جا رہے ہیں۔ اس وقت امریکا کی اشد ضرورت ہے کہ جو بائیڈن کی صدارت کامیابی سے ہمکنار ہو اور دنیا کو ایک کامیاب امریکا کی فوری ضرورت ہے۔ جو بائیڈن کی ناکام صدارت کا متبادل حکومت کی تبدیلی ہرگز نہیں ہے۔ اس کا متبادل اس عالمی نظام کی مکمل تبدیلی ہو گا جو کسی ملک کو افلاس زدہ اور کمزور بنا دیتا ہے۔ صدر جو بائیڈن کے لیے مشورہ ہے کہ وہ اپنی نئی نیشنل سکیورٹی ٹیم کا انتخاب کریں، بڑے پن کا مظاہرہ کریں اور باب گیٹس جیسے لوگوں کو اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔