وجود

... loading ...

وجود

جام کمال کی عداوت میں منفی سرگرمیاں

جمعرات 21 اکتوبر 2021 جام کمال کی عداوت میں منفی سرگرمیاں

بلوچستان میں حکمران جماعت کے اندر وزیراعلیٰ جام کمال پر عدم اعتماد کی باتیں شروع ہوئیں تو اس دوران چند افراد رکن بلوچستان اسمبلی جان محمد جمالی کی رہائشگاہ پر جمع ہوئے، جان محمد جمالی جو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے مرکزی آرگنائزر ہیں، نے کہا کہ مختلف ڈویڑن کے آرگنائزر پر مشتمل منعقدہ اجلاس میں تنظیمی امور پر تبادلہ خیال اور جام کمال خان سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا۔ چنانچہ لب لباب اخبارات کو یہ جاری ہوا کہ جام کمال خان پارٹی کو وقت نہیں دے سکے ہیں، لہٰذا وہ پارٹی صدارت چھوڑ دیں۔
جان محمد جمالی سینئر آدمی ہیں، صوبے کے وزیراعلیٰ رہے ہیں، ایوان بالا کے ڈپٹی چیئرمین اور بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں، مگر ان کی سرشت، عمر اور تجربے کے برعکس اظہار کرتی ہے۔ انہوں نے پیرانہ سالی میں بھی چوٹ دینے کی روش اپنا رکھی ہے۔ کئی دن سمجھا جارہا تھا کہ وہ مصالحت کے حامل ہیں لیکن پھر وہ جام مخالفین کی قطار میں نمودار ہوئے ہیں۔ ان چند افراد کے ساتھ اسلام آباد گئے، کوئٹہ کے اندر بھی جلی و مخفی نشستوں میں جام مخالفین کے ساتھ منصوبہ بندیوں میں شامل رہے، وزارت اعلیٰ کی خواہش انہیں بھی دامن گیر ہے، پھر 12 اکتوبر کو نوابزادہ طارق مگسی کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں الٹی زقند لگائی کہ معاملہ پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں باہمی طور پر حل کرتے ہیں، کہا کہ انہیں اور جام کمال کو قربانی دینی پڑی تو دینی ہوگی، اگر طارق مگسی کو کوئی ذمہ داری دینی پڑی تو اسے انکار نہیں کرنا چاہئے، یعنی ذو معنی بات کہہ ڈالی، یہاں اشارہ طارق مگسی کو آگے کرنے کا دیا گیا۔
کنگز پارٹی کے اندر صدارت کا معاملہ اس طرح آگے بڑھا ہے کہ تب جام کمال خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پارٹی صدارت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ ضابطے کے تحت تحریری طور پر استعفا نہ دیا، جس کے بعد مخالف افراد کو مزید موقع ملا، اس طرح چند دن بعد کنگز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر منظور کاکڑ نے ظہور بلیدی کا بطور قائمقام صدر نوٹیفکیشن جاری کیا، جس پر جام نے اپنے حامیوں کے کہنے پر پارٹی صدارت کی ذمہ داریاں پھر سے سنبھال لیں۔ فیصلہ 12 اکتوبر 2021ء کو پارٹی اجلاس میں کیا گیا، اس پر مخالف حلقہ چی بہ جبیں ہوا کیونکہ وہ پارٹی صدارت کے ذریعے جام کیخلاف مزید مشکلات پیدا کرنے پر جْت گئے تھے۔ جسے جام کمال اور ان کے حامیوں نے بھانپ لیا۔
بات دستور کی کی جائے تو جام کمال خان درست کہتے ہیں کہ جب تحریری استعفا اپنے دستخط کے ساتھ پارٹی کو نہیں دیا تو کس طرح کوئی عہدیدار قائمقام صدر کے تقرر کا مراسلہ جاری کرسکتا ہے؟، جام کمال اور پارٹی کے دوسرے سینئر اس باب میں پارٹی دستور کا نکتہ یہ بیان کرچکے ہیں کہ قائمقام صدر کا انتخاب فرد واحد نہیں بلکہ ایگزیکٹو کونسل یا کمیٹی کرتی ہے۔ بقول جام کمال خان کے بغیر دفتری اقدام و کارروائی کے قائمقام صدر بنادیا گیا ہے۔ بوقت ضرورت بھی قائمقام صدر کے تقرر کے لیے کونسل کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔
بہرحال مخالف دھڑا جس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، سینیٹر منظور کاکڑ، سینیٹر نصیب اللہ بازئی، سینیٹر سعید ہاشمی، ظہور بلیدی، عبدالقدوس بزنجو، صالح محمد بھوتانی، محمد خان لہڑی، عبدالرحمان کھیتران وغیرہ اپنے راستے پر ہی ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو اسمبلی کے اسپیکر ہیں، وہ عوامی اور میڈیا فورم پر جام کمال خان سے وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب اگر بات اسمبلی قوانین اور دستور کی کی جائے تو کیا یہ شخص آئینی طور پر مزید اس منصب کے لیے اہل ٹھہر سکتا ہے؟، جبکہ اسپیکر کے عہدے پر موجود شخص سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر غیر جانبدارانہ رہے گا اور حزب اختلاف اور حکومتی بینچوں کے درمیان توازن کو برقرار رکھے گا مگر یہاں تو خود اسپیکر فریق بنا بیٹھا ہے۔
یہ سارے اسلام آباد جاکر بڑوں سے ملاقات کے لیے وقت دینے کی التجائیں کرچکے ہیں۔ دراصل ان ساڑھے 3 سالوں میں محروم ان میں سے کوئی بھی نہیں رہا ہے۔ حیرت ہے کہ ان کے ساتھ صوبے کے سرمایہ دار اور ٹھیکیدار بھی متحرک ہوئے ہیں، جنہوں نے پیسہ لگانا شروع کردیا ہے۔ ظاہر ہے ہوا موافق چلے گی تو ان کی دولت دو چند ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ بلوچستان میں اتھل پتھل و گڑ بڑ ہوتی ہے تو لامحالہ وفاق، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ارتعاش پیدا ہوگا، ویسے بھی پی ڈی ایم اور جماعت اسلامی حکومت مخالف احتجاج پر ہیں۔
بلوچستان میں جام مخالفین اور پی ڈی ایم کی جماعتوں جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ملن ہوچکا ہے۔ گویا وفاقی حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا ہوگا، بلوچستان کے اندر بے یقینی پیدا ہوگی۔
یہاں ویسے بھی جام عداوت میں منفی کوششیں ہوئی ہیں، 2 اکتوبر کو تربت کے علاقے بلیدہ میں پولیس چھاپے کے دوران فائرنگ سے ایک بچہ جاں بحق ہوا تھا، ان کی رپورٹ درج نہ کرائی گئی، ڈیٹھ سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا، جس پر ورثاء نے میت کے ساتھ کوئٹہ پہنچ کر ریڈ زون پر دھرنا دیا جہاں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی شخصیات یکجہتی کے لیے گئی، طرح طرح کی تقاریر ہوئیں، رکن بلوچستان اسمبلی سید احسان شاہ کی کاوش سے مسئلہ حل ہوا، وزیراعلیٰ بلوچستان سے ملاقات میں لواحقین کی داد رسی ہوئی۔
ظہور بلیدی بلیدہ تربت سے منتخب ایم پی ہیں، وزارت خزانہ کا قلمدان ان کے پاس تھا، چاہتے تو مسئلہ وہیں حل ہو جاتا۔ لواحقین نے وزیراعلیٰ جام کمال سے کہا کہ رکن اسمبلی انہیں کوئٹہ جانے کی ترغیب دے چکے تھے۔ چنانچہ ایسا ہی تربت کے علاقے ہوشاب میں 10 اکتوبر کو 2 بچوں کے بم دھماکے میں جاں بحق ہونے کے سانحے کے بعد ہوا، وہاں کی انتظامیہ رپورٹ دے چکی ہے کہ بچوں کے ہاتھ دستی بم لگا، کھیلتے ہوئے انہوں نے پن نکالا اور نتیجتاً دھماکے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوئے، ایک بچہ زخمی ہوا۔
اس کے برعکس لواحقین نے الزام لگایا کہ ایف سی نے مارٹر گولہ فائر کیا ہے، معلوم نہیں کہ یہ کیسے جانا کہ ایف سی نے گولہ فائر کیا۔ غرض یہ میتیں بھی کوئٹہ پہنچائی گئیں، 13 اکتوبر کو ریڈ زون پر میتوں کے ہمراہ دھرنا دیا گیا، یہاں بھی مختلف الخیال لوگوں کا تانتا رہا، ایف سی اور فوج کے خلاف نازیبا نعرے لگتے رہے۔ سننے میں آیا ہے کہ اس خاندان کو بھی ایم پی اے صاحب نے کوئٹہ میتیں لے جانے کی ترغیب دی ہے اور سْبکی حکومت اور سیکورٹی اداروں کو اٹھانی پڑی ہے۔
معاملہ منشاکے مطابق انجام کو یوں پہنچا کہ 18 اکتوبر کو بلوچستان ہائیکورٹ نے بچوں کی ہلاکت کے واقعے میں غفلت برتنے پر ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ، اسسٹنٹ کمشنر تربت اور نائب تحصیلدار کو معطل کرکے ان کیخلاف تحقیقات کا حکم دیا۔ عدالتی احکامات کے تحت واقعے کا مقدمہ مکران کے سی ٹی ڈی تھانے میں ایف سی اہلکاروں کیخلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ، دھماکا خیز مواد ایکٹ، قتل اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت درج کرلیا گیا۔عدالت نے 6 دنوں سے کوئٹہ میں میتوں کے ہمراہ دھرنے پر بیٹھے لواحقین کو احتجاج ختم کرکے بچوں کی تدفین کی ہدایت بھی کی۔ گویا ترغیب کاری کا عمل جام مخالفت کی کڑی میں دیکھا جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر