... loading ...
(مہمان کالم)
بریٹ ا سٹیفنز
ڈورین ایبٹ یونیورسٹی آف شکاگومیںجیوفزکس کے سکالر ہیں۔ گزشتہ نومبر میں انہوں نے یو ٹیوب پر سلائیڈز کی مدد سے سمجھانا شروع کیا کہ کس طرح سلیکشن کے عمل میں گروپ شناخت کو بنیادی معیار کے طور پر استعمال کیا جارہاہے۔فوری طور پر یہ سلسلہ منسوخ کرانے کے لیے ان کے خلاف ایک مہم شروع کر دی گئی۔شکاگو یونیورسٹی کے نفیس صدر اور اب چانسلر رابرٹ زمر نے اپنے ایک واضح او رکھلے بیان کے ذریعے فکری ا?زادی کی حمایت کی تو یہ تنازع ختم ہوا۔پھر اگست میں ایبٹ اور ان کے شریک لکھاری نے نیوز ویک میں ایک مضمون شائع کرایا جس میں انہوں نے یہ کہا کہ تنوع‘ مساوات اور اجتماعی شمولیت کی پالیسیز منصفانہ سلوک کے اخلاقی او ر قانونی اصول کی خلاف ورزی ہے۔اس کے نتیجے میں ایک اور احتجاجی مہم شروع ہو گئی اور یہ مہم اس دعوت کے خلا ف تھی جس میں ایبٹ کو ایم آئی ٹی میں کیریسن لیکچرز میں خطاب کے لیے دی گئی تھی اور ا س لیکچرکا موضوع تھا ’’ ماحولیات اور دیگر سیاروں پر زندگی کے امکانات ‘‘۔اس مرتبہ یہ احتجاجی مہم کامیاب ہو گئی۔جیسا کہ ایبٹ نے ہمیں تفصیل سے بتایا کہ ڈیپارٹمنٹ کے چیئر مین نے اسے بلا کر مطلع کیا کہ کسی تنازعے سے بچنے کے لیے ا سکول ان کا لیکچر منسوخ کر رہا ہے۔
ان دونوں واقعات سے اس فرق کی عکاسی ہوتی ہے جو رابرٹ زمر کے پروردہ فکری حوصلے کے کلچر اور ایم آئی ٹی اور دیگر اداروںکے بزدلانہ کلچر میں پایا جاتا ہے۔ اس فرق نے اظہارِ رائے کی ا?زادی کی تحریک کو متاثر کیا ہے۔ یہ اس امرکی بھی یاددہانی کراتا ہے کہ ہماری یونیورسٹیز اپنے طلبا کی آزاد ذہن کے ساتھ تعلیمی آبیاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اس کے برعکس وہ قدامت پسند نظریات کے جزیرے اورضرورت سے زیادہ اخلاقی اعتماد کی فیکٹریاںبن رہی ہیں اور اکثر لبرل جمہوری اقدار کی پاسداری کے بجائے ان کے خلاف برسر پیکار رہتی ہیں۔
میں جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے صدر رونلڈ ڈینیلز کی کتاب ’’Why Universities Owe Democracy‘‘کو پڑھتے ہوئے ان ساری باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔میں ہاپکنز کے ایس این ایف ایگورا انسٹی ٹیوٹ کے بورڈ آف اوور سیئرز کا رکن اور ان کا ذاتی دوست بھی ہوں۔ان کے بارے میںزیادہ سخت رائے نہ رکھیں۔ بعض معاملات میں ان سے مختلف نقطہ نظر رکھنے کے باوجود میرے خیال میںیہ ایک اہم ‘معقول اور قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ڈینیلزکا بنیادی استدلال یہ ہے کہ یونیورسٹیز سماجی تحریک کے لیے ایک زینے کا کام کرتی ہیں ‘جمہوری تمدن اور شہریت کے لیے ایک معلم کا کردار ادا کرتی ہیں۔حقائق اور مہارت کی نگران ہوتی ہیں‘بامقصد اجتماعیت اور شراکت کے لیے ایک فورم کا کام کرتی ہیںجہاں آئیڈیاز اور مسابقت کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔اعلیٰ تعلیم کئی نسلوں سے یہی کردار نبھاتی ا?رہی ہے اور جارج واشنگٹن کے سکولنگ کے اس خواب کو پورا کر رہی ہے جو ہر قریے کے نوجوانوں کو ان حالا ت میں جمع کر نے میں مدد کرے گی اوریہی ا?زاد سوچ انہیں صداقت ‘انسان دوستی اور کے سفر پر گامزن کرے گی۔
داخلے کے معاملے میںسابق طلبا کے بچوں کو ترجیح دینے سے غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار طبقاتی تقسیم کا شکار ہوجاتے ہیں۔اکیڈیمک سپیشلائزیشن کی وجہ سے اب یونیورسٹیاں سوکس کے سوال پر لاپروائی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔اس طرح محض جگالی کرنے جیسی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ایک فضول اور بے مقصد سائنس کے ظہورکی وجہ سے سائنسی ماہرین اور ان کے کارناموں پر اعتماد اور بھروسے کی بابت ایک بحران جنم لے رہا ہے۔سب سے سنگین مسئلہ یہ ہے کہ کیمپس پر اصولوں کے نام پرہٹ دھرمی کی ایک ناقابلِ فہم لہر نظر آتی ہے۔ ڈینیلز کے خیال میں کسی چیز کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے کیونکہ2020 کے نائٹ فائونڈیشن کے سروے کے مطابق 63کالج سٹوڈنٹس یہ محسوس کر تے ہیں کہ کیمپس کا ماحول کئی لوگوں کو ایسی باتوں کے اظہار سے روکتا ہے جن پروہ یقین رکھتے ہیں۔ ا س کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
ڈینیلز کے حل پر بحث کرناتو قدرے مشکل ہے۔وہ حل یہ ہے کہ فوری طور پر سابق طلبا کے بچوں کا داخلہ بند کیا جائے۔ اسکول کے نصاب میں ’’جمہوری تقاضوں ‘‘کو شامل کیا جائے۔سائنس میں کشادہ ذہنی پیدا کی جائے اور ریویو کے عمل میں بھی ریفارمز لائی جائیں۔ یونیورسٹی ہائوسنگ میں خود ساختہ تقسیم کا قلع قمع کیا جائے۔ شراکت داری اور مشاورت کی گنجائش پیدا کی جائے‘ مدلل اختلاف رائے اور گرما گرم مگر مثبت بحث و تمحیص کی فضا کو پروان چڑھایا جائے۔ تمام بنیادی تجاویز خاص طور پر جو دائیں بازو کے مقبولیت پسندی اور بائیں بازو کی تنگ نظری کے دور میں ضروری ہیں‘ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ میں ڈینیلز کی فہرست میں دو مزید نکات شامل کروں گا جن کے لیے یونیورسٹیز جمہوریت کی مرہون منت ہیں۔پہلا نکتہ: دانشورانہ فضیلت کی غیر معذرت خواہانہ پاسداری کی جائے۔ سب سے پہلے ایک کولیگ کے اس کمنٹ نے ڈورین ایبٹ کو اس ایکشن پر مجبور کیا تھا کہ اگر آپ صرف بہترین لوگوں کی خدمات ہی لے رہے ہیں تو آپ بھی مسئلے کا حصہ ہیں۔اگر یونیورسٹیز فضیلت اور برتری کودیگر تما م باتوں پرترجیح نہیں دیرہیں تو وہ جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کر رہیں۔وہ دراصل گروپ تھنک اور اوسط سوچ کے حوالے سے ایساجمہوری رجحان پیدا کر کے جمہوریت کو کمزور کر رہی ہیں جس کا مقصد صرف اکثریت کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس ضمن میںمیرا دوسرا نکتہ حوصلہ ہے۔مجھے خدشہ ہے کہ زیادہ تر یونیورسٹیز کے منتظمین کاغذی حد تک تو بڑے خو ش ہو کر اظہارِ رائے کی آزادی کے اصول کی حمایت کریں گے۔ان کا اصل مسئلہ کچھ ایسا ہے جسے سابق امریکی صدر ابرا ہم لنکن نے یونیورسٹیز کے اپنے عزائم اور ارادوں کے بجائے ایک بھاگنے والے فوجی کی زبان سے ادا کروایا ہے۔فوجی ابراہم لنکن سے کہتا ہے کہ ’’ میر ادل تو جولیس سیزر سے بھی زیادہ بہادر ہے مگر جونہی مجھے کسی خطرے کا سامنا ہوتا ہے تو میری یہ بزدل ٹانگیں اس خطر ے کو دیکھتے ہی بھاگ کھڑی ہوتی ہیں۔ ‘‘عین اس وقت ہمیں بھی بزدل ٹانگوں والا مسئلہ ہی درپیش ہے۔حوصلہ کوئی ایسی خوبی نہیں ہے جسے یونیورسٹیز میں اتنی آسانی سے سکھایاپڑھایا جا سکتا ہو مگر اسے بعض اوقات ایک ماڈل کے طورپر پیش کیا جاسکتا ہے۔جب میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ ا?ف ٹیکنالوجی میں ڈورین ایبٹ کا لیکچر منسوخ کر دیاگیا تھا تو پرنسٹن یونیورسٹی کے قدامت پسند پروفیسر رابرٹ جارج نے ایبٹ کے لیکچر کے لیے میز بانی کی پیش کش کر دی۔شیڈول کے مطابق اب یہ لیکچر 21اکتوبر کو زوم پر ہوگا۔حوصلے کا ا?غازاس وقت ہوتا ہے جب منسوخ شدہ لیکچر کو دوبارہ منعقد کرانے کا فیصلہ کیا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔