... loading ...
اچھی خاصی دکان چل رہی تھی روزانہ ہزاروںکی سیل ، چھٹی کے دنوںمیں لاکھ سے بھی تجاوزکرجاتی گاہک پرگاہک ہر وقت رش نے سہیل کو کچھ بدمزاج بھی بناڈالا قرب و جوارمیں بڑا سٹورنہ ہونے کے سبب لوگوںکی آمدورفت کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا کچھ عرصہ گذرا اس کے سامنے ایک بہت بڑا ڈیپارٹمنٹل ا سٹورکھل گیاجہاں گروسری،ہوزری،میڈیسن،کاسمیٹک الغرض دنیاجہاں کی لوکل اور امپورٹڈ پراڈکٹس وسیع رینج میں دستیاب تھیں رفتہ رفتہ اس کے گاہک اور سیل کم ہوتی چلی گئی توبدمزاج کے ہوش اڑ گئے اب وہ ہرگاہک سے بڑے حسن ِسلوک سے پیش آنے لگا یہ ایک شخص کی کہانی نہیں دنیا میں سینکڑوں ہزاروں افراد کی یہ کہانی ہوسکتی ہے جب وسائل اورنعمتوں کی افراط ہوتی ہے تو انسان سمجھتاہے یہ اس کا کمال ہے کہ اس نے اپنی محنت سے یہ سب کچھ کردکھایا۔میں ایک الیکٹرونکس کی دکان پر کچھ سامان خریدنے کے لیے کھڑا تھا رش کے باعث کئی کسٹمرادھر ادھرکھڑے باری کاانتظارکررہے تھے میرے ساتھ کھڑے ایک نوجوان نے دکاندارکو سامان لکھی ایک پرچی پکڑا ئی دکاندارنے ایک سرسری نظرڈالی اور نوجوان کو کہا میرے پاس آپ کا سامان نکالنے کے لیے وقت نہیں ہے میں یہ سن کر جیسے سن ہوگیا میں نے سوچا اتنا ناشکرا شخص جس کے پاس گاہک کو سامان دینے کا ٹائم نہیں ہے اگر اللہ لوگوںکے دلوںکو پھیردے وہ سارا دن مکھیاںمارتا پھرے اور گاہک ایک بھی نہ آئے پھر میں دیکھوںکہ اس کے پاس تھوڑا سامان کی خریداری کے لیے آنے والے وقت ہی وقت ہوگاحالانکہ دوکان پر گاہک اللہ بھیجتا ہے. یہ فلسفہ جس کی سمجھ میں آگیا اس نے راز پالیا ۔کہتے ہیں ترکی کی قدیم روایات میں ایک یہ بھی ہے کہ دکاندار جب صبح دکان کھولتے ہیں تو وہ باہرایک کرسی یا اسٹول رکھ دیتے ہیں جونہی وہ بسم اللہ کرتے ہیں اسے اٹھا کر دکان کے اندر لے آتے ہیں۔ایک شخص کچھ خریداری کے لیے ایک سٹورمیںگیا اس نے سیل مین کو کچھ سامان نکالنے کو بولا کائونٹرپربیٹھے مالک نے کسٹمرکو کہا آپ یہ سامان سامنے والے ا سٹور سے خرید لیں۔
’’کمال ہے کسٹمر نے کہا اتنا بڑا سٹور اور آپ کے پاس میرا مطلوبہ سامان نہیں ہے۔
’’سامان تو افراط میں موجودہے ملک نے بڑے ادب سے جواب دیا
’’پھر۔۔ اس نے حیرت سے پوچھ ہی لیا سامان موجودہے تو پھر آپ دے کیوںنہیں رہے ؟ کیا میرے پیسے پیسے نہیں ہیں۔
’’نہیں جناب ۔۔ دکاندارنے بڑی نرمی سے جواب دیا میں نے صبح سے ہزاروںکی سیل کرلی ہے لیکن میں دیکھ رہاہوں وہ سامنے والے ا سٹورمیں ابھی تک ایک گاہک بھی نہیں گیا میں چاہتاہوں آپ سامان ان سے خرید لیں۔ گاہک کو حیرت کاایک جھٹکا لگا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں ورنہ تو پروفیشنل جیلسی میں دکاندار لڑنے مرنے پراتر آتے ہیں ۔۔گاہک کے ہونٹوںپردل آویزمسکراہٹ پھیل گئی اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایاپھر عقیدت سے ا سٹورکے مالک کاہاتھ چوم لیا۔
یہ واقعہ ایک برطانوی نژاد مائیکل نے اپنی یادداشتوں میں پہلے نمبرپرتحریر کیا تھا جس نے اعتراف کیا کہ بزنس مینجمنٹ کی کتابوں میں اس نے ہمیشہ اپنے مد مقابل منافس(compititor) کو نیچا دکھا کر آگے بڑھنا ہی سیکھا تھا جب برطانیا، چین اور ملائشیا مشہور سپرا سٹورز میں کام کرنیوالے ایک لائق فائق مینجر کو بن داؤد سپر ا سٹوز مکہ میں کام کرنیکا اتفاق ہوا اس نے مکہ مکرمہ میں کچھ عرصہ اس نے بطور ریجنل منیجر کے اپنی خدمات سرانجام دیں اس نے دیکھا کہ ایک معروف سپر ا سٹور کی برانچ اسکے ا سٹور کے بالکل سامنے کھلنے کی تیاریاں ہورہی ہیں جس میں وہ خدمات انجام دے رہا تھا اس نے سوچا نیا ا سٹور یقینا ا اس کے اسٹور کی سیل پر اثر انداز ہوگا لہذا اس نے فورا بن داؤد سپر ا سٹوز کے مالکان کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں اس نئے سپر ا سٹور کے متعلق کچھ معلومات، مشورے اور آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کرنے کی تجاویز دیں ۔
’’یہ تو اچھی بات ہے ہمارے ایریا میں نیا سپر ا سٹور کھل رہاہے ۔ بن داؤد سپر ا سٹوز کے مالک نے موبائل پر اس سے کہا سنو نئے سپر ا سٹور کے ملازمین کی سہولت کے لیے ان کا سامان رکھوانے، ا سٹور کی تزئین و آرائش اور ان کے کھانے چائے پانی کا خاص خیال رکھنے کی اب تمہاری ذمہ داری ہے ۔مائیکل کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔مائیکل نے بزنس مینجمنٹ اور کاروباری حریفوںکا مقابلہ کرنے کے لیے جو کچھ پڑھا سنا تھا یہ سب اس کاالٹ تھا حقیقتاً اسکو زندگی میں حیرت کا شدید ترین جھٹکا کبھی نہیں لگا تھااس کی سب تھیوریاں دھری کی دھری رہ گئیں تھیں۔
’’ جناب وہ کیوں مائیکل نے پریشانی کے عالم میں پوچھ ہی لیا وہ تو ہمارے کاروباری حریف ہیں۔
’’ وہ کاروباری حریف ہیں تو پھرکیا ہوا ؟بن داؤد ا سٹورز کے مالک نے کہا کہ وہ اپنا رزق اپنے ساتھ لائیں گے اور ہمارا رزق ہمارے ساتھ ہوگا اگر اللہ نہ چاہے تو ہم اپنے لکھے گئے رزق میں ایک ریال کا اضافہ نہیں کرسکتے اور نئے ا سٹور والوں کے رزق میں ہم ایک ریال کی کمی نہیں کرسکتے تو کیوں نہ ہم بھی اجر کمائیں اور مارکیٹ میں نئے آنیوالے تاجر بھائی کو خوش آمدید کہہ کر ایک خوشگوار فضا قائم کریں کیوں ٹھیک ہیں نا۔
دوسرا واقعہ بھی عام لوگوںکے لیے عجیب و غریب ہوسکتاہے۔حج ِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والوں نے یقینا مکہ مکرمہ میں ایک عظیم الشان مسجد مسجد فقیہ بھی دیکھی ہوگی بلکہ ہزاروں لاکھوںنے شاید نماز بھی پڑھی ہو یہ مسجد مشہور الفقیہ پولٹری کمپنی کے مالک نے تعمیرکروائی تھی۔یہ بھی کاروباری دنیا کا عجیب واقعہ ہے کہ اسکی حریف کمپنی الوطنیہ چکن لاکھوں ریالوں کی مقروض ہوکر دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گئی- فقیہ کمپنی کے مالک نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اپنی مخالف کمپنی کے مالک کو ایک خط کے ساتھ ایک دس لاکھ ریال سے زائد کا چیک بھیجا اس نے خط میں لکھا تھا’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم دیوالیہ پن کے قریب
کھڑے ہو مجھے افسوس ہوگا اگرتمہاری کمپنی بند ہوجائے جس سے جڑے سینکڑوں خاندان معاشی بدحالی کا شکارہوسکتے ہیں، میری طرف یہ رقم قبول کرو، اگر مزید رقم کی ضرورت ہے تو ضرور بتانا پیسوں کی واپسی کی فکر مت کرنا جب تمہارے پاس ہوں لوٹا دینا-” اب دیکھئے کہ ارب پتی شیخ الفقیہ کے پاس الوطنیہ کمپنی خریدنے کا ایک نادر موقع تھا لیکن اس نے اپنے سب سے بڑے مخالف کی مالی مدد کرنے کو ترجیح دی-یہ سچے واقعات آپکو اسلامی تجارت کے اصولوں سے متعارف کراتے ہیں، کسی مخالف کمپنی سے پریشان نا ہوں، اگر آپ اپنا کام ایمانداری سے کرتے اور کسی پر احسان کرتے تو اللہ تعالیٰ آپ کا بازو پکڑ کر آپکو کامیابی کی معراج تک پہنچا دیتے ہیں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی کی ٹانگ کھینچنے سے آپکا رزق زیادہ نہیں ہوگااسکے جو نصیب کا ہے ہرصورت مل کر رہے گا غورکریں تو یہ سب مثبت سوچ سے ہی ممکن ہے رزق اور عمرمیں اضافہ دکھی انسانیت کی دعائوںکے طفیل ہی ممکن ہے اور اس کی بدولت قیامت تک نام بھی زندہ رہتاہے جس کو یقین نہ ہو آزماکردیکھ لے یا پھر اس سے پہلے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرلے ہمارے اردگرداس کی روشن مثالیں موجود ہیں اچھی مثال قائم کرنے کے لیے دوسروںکااحساس کریں ان کی مجبوریوںسے فائدہ اٹھانے کی کوشش نیکیوںکو غارت کردیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔