... loading ...
(مہمان کالم)
بروک ہیرنگٹن
پنڈورا پیپرز کی بعض رپورٹس پر بڑی رنگین شہ سرخیاں لگی ہیں مگر 12ملین سے زائدلیک ہونے والے اس خفیہ فنانشل ریکارڈ زکی دولت کے بارے میں بہت کم آگہی پائی جاتی ہے جس میں دنیا بھر کی معروف شخصیات کے نام آتے ہیں۔ ہمیں یہاں بھی اسی طرح کا طریقہ واردات نظر آتا ہے جیسے 2016 ء میں منظر عام پر آنے والے پاناما پیپرز اور 2017ء کے پیراڈائز پیپرز میں دیکھنے میں آیاتھا یعنی اعلیٰ درجے کی ناقابلِ تصور قانونی کرپشن۔ایسا لگتا ہے کہ جن طاقتور لوگوں کو اس لعنت کے خاتمے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی انہوں نے ہی اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس میں ہاتھ رنگے۔لیک ہونے والی ہر رپورٹ سے ایک ہی میسج ملتا ہے کہ یہ امید نہ رکھیں کہ کوئی بھی حکومت عوام کی خدمت کرے گی یا یہ کہ جدید حکومت کے دائرہ کار میں قانون کی حکمرانی سب کے لیے ہو گی۔ نئے قوانین اتنا ریسکیو نہیں کر رہے کیونکہ انہیں اتنی جلدی سے وضع نہیں کیا جا سکتایا وہ اتنے جامع نہیں ہوتے کہ کوئی بڑی تبدیلی لا سکیں؛ تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ ٹیکنالوجی اور رائے عامہ کی وجہ سے ا شرافیہ کے آف شور کمپنیوں کی مالیاتی سروسز کے استعمال کے خلاف تحریک تقویت پکڑتی جا رہی ہے۔
میں نے پچھلے 15سال آف شور دنیا کو اندرسے ریسرچ کرنے، بطور ویلتھ منیجر سرٹیفکیشن لینے اور ایجنٹس کے کام کرنے کے طریقہ کار کا مطالعہ کرنے کے لیے دنیا بھر کے سفر میں گزارے ہیں۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ ٹیکس ہیونز ٹیکس سے بچنے کے لیے نہیں ہوتیں۔ یہ اشرافیہ کو اس قانون کی حکمرانی سے بچاتی ہیں جو وہ ہم پر لاگو کرتی ہے۔آف شور کمپنیاں بہت زیادہ معاشی اور سیاسی عدم توازن پیدا کرکے دنیا کو عدم استحکام کا شکار کر رہی ہیں۔پنڈورا پیپرز میں زیادہ تر نام دنیا کے90 ممالک کے330 سیاست دانوں کے آئے ہیں جن میں 35 موجودہ اور سابق سربراہان حکومت بھی شامل ہیں۔وہ جس قوم کی خدمت کے لیے آتے ہیں اسی سے لو ٹ مار کرکے اپنا لائف ا سٹائل بہتر بناتے ہیں۔ان پیپرز میں کئی سیاستدانوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو کرپشن کے خلاف مہم چلاتے رہے مثلاً چیک رپبلک کے وزیراعظم آندرے بابیس،کینیا کے صدر اوہورو کینیاٹا اور یوکرائن کے صدر ولادیمیرزیلنسکی۔2016ء میں چیک رپبلک کے جن امرا کے نام پاناما پیپرز میں آئے تھے‘ آندرے بابیس نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔2020 ء میں ایک انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کرپشن کرنے والوں کا علاج صرف ان کی گردنیں اڑانا ہے۔اب ان پر الزام ہے کہ انہوں نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے کئی کروڑ ڈالرز کی بیرونِ ملک جائیدادیں خریدی ہیں۔پاناما اور پیراڈائز پیپرز میں نام آنے کے باوجود دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ میرے اندازے کے مطابق ان میں سے صرف 10 لوگوں کو سزائیں ہوئی ہیں جن میں صرف ایک سیاستدان ہے۔
اکانومسٹ تھامس پِٹکی نے پاناما پیپرز آنے سے پہلے ہی کہا تھا کہ جن قوم پرست سیاستدانوں نے اشرافیہ کی کرپشن کے خلاف کریک ڈائون کے وعدے کیے تھے ان کے حق میں عوام نے بھرپور ردعمل ظاہر کیاتھا۔ احتساب کی جتنی بھی شکلیں نظر آرہی ہیں وہ موثر ہونے کے باوجود قانون کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔بہت زیادہ متمول افراد کو جرمانے اور مقدمات کے مقابلے میں بدنامی کا زیادہ خوف محسوس ہوتا ہے۔مشاہدے میں یہ بات آرہی ہے کہ اب رائے عامہ بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور سیاستدانوں کو بھی اب اپنی بدنامی کی صورت میں کرپشن کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔جب مسٹر مٹ رومنی 2012ء کے صدارتی الیکشن میں حصہ لے رہے تھے تو بائیں بازو سمیت امریکی عوام کی بڑ ی تعداد نے اس خبر کو زیادہ قابلِ توجہ نہیں سمجھاتھا کہ ان کی دولت زیادہ تر آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے کمائی گئی مگر پاناما پیپرز کا انکشاف ہونے کے بعد ٹیکس میں غبن جیسے معاملے پر عوام کی رائے منفی ہو گئی اور قانونی طریقہ استعمال کرنے کے باوجود اس عمل کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔اس امر کی بہترین عکاسی 21ویں صدی کے اوائل میں نظر آتی ہے جب کارپوریٹ سیکٹر کی ٹیکس گریز عادت پر غیر جانبدار رہنے کے بجائے عوامی اشتعال بڑھنے لگا اور چند ہی برسوں میں بار بار دبائو ڈالنے کی تحاریک سامنے آئیں۔ پنڈورا پیپرز سامنے آنے کے بعد شاید آندرے بابیس کی شہرت پر برے اثرات مرتب ہوں۔چیک پولیس کا موقف ہے کہ وہ ان کے آف شور کاروبار کے خلاف کارروائی کرے گی اور ممکن ہے کہ ایک ہفتے بعد ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں عوام کا فیصلہ بھی سامنے آ جائے۔
امید کی ایک وجہ ٹیکنالوجی بھی ہے جس کی مدد سے عوام اور صحافیوں کو ڈیٹا بڑی آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے۔گزشتہ پانچ سال کے دوران مخبروں کے لیے انقلابی امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ PGP انکرِپشن جیسے ٹولز استعمال کر کے وہ اپنی شناخت خفیہ رکھ سکتے ہیں اور اس طرح انہیں آف شور کمپنیوں کا بھاری ڈیٹا ڈلیور کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کسی رد عمل سے بھی بچ جاتے ہیں۔پانچ سال ہو چکے ہم ابھی تک ’’جان ڈو ‘‘کی شناخت نہیں جانتے جس نے پاناما پیپرز لیک کیے تھے اور نہ ان لوگوں کو جانتے ہیں جنہوں نے چار سال پہلے پیرا ڈائز پیپرز لیک کیے تھے۔یہ ڈیجیٹل سرویلینس کا کمال ہے اور اس سے مخبروں کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی۔مجھے دنیا بھر کے ویلتھ منیجرز سے بات چیت کرکے پتا چلا کہ ان کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ان کے کام کی وجہ سے دنیا میں خوفناک قسم کی سیاسی اور معاشی عد م مساوات پیدا ہوئی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی اِن سائیڈر پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے ایسی کرپشن کو خفیہ رکھنے کا پردہ چاک کر سکتے ہیں جو آ ف شور کرپشن کو ممکن بناتا ہے۔ اب اِن سائیڈرز کے لیے ممکن ہو گیاہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق کام کر سکیں۔ہم بھاری بھر کم پنڈورا پیپرز کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں کتنی تحریک پیدا ہو چکی ہے ، ان میں ایک کے بجائے 14آف شور ذرائع سے انفارمیشن حاصل کی گئی۔اس سے پتا چل رہا ہے کہ نہ صرف مخبروں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں بلکہ وہ ارکانِ پارلیمنٹ کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں دنیا کے طاقتور افراد کاعوامی عدالت میں احتساب کرنے میں تعاون کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔