... loading ...
کھیل ابھی ختم نہیں ہوا! زبیر عمر تاریخ کے بہاؤ میں ہے۔ فطرت کے ابدی قوانین جہاں لاگو ہوتے ہیں۔ گاہے مکافات عمل بھی!!
انسان اپنی قوت اگر خود سے کشید نہ کرتا ہو، تو بساطِ حیات پر اُسے’ مہرے’ کی حیثیت قبول کرنا پڑتی ہے۔مہرہ ، فرزیںکاکردار ادا کرنا چاہے، تو آپے میں نہیں رہتا،جامے سے باہر دکھائی پڑتا ہے۔ زبیر عمر بھی دکھائی دیے۔وہ اپنے ‘مقام’ کا درست تعین نہ کرسکے۔ وہ جو کچھ بھی ہے، شاطر کی ”عنایت ” سے ہے، اپنے دم قدم سے نہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے نامۂ اعمال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دریدہ عفتوں کی برہنگی کو نوچنے والے ہاتھوں کو مہروںکی طرح حرکت کرنا ہوتا ہے۔ یہاں تو فرزیں بھی شاطر کا ارادہ نہیں پاسکتا!! بیچارہ مہرہ کیا چیز ہے؟ علامہ اقبال نے طاقت کے کھیل کی اس بناؤٹ کو بے نقاب کیا تھا:
اس کھیل میں تعیینِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں، میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرئہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ!
انگور پکنے سے پہلے منقح بننے کی ضد نہیں کرتے۔ طلال چودھری تنظیم سازی کرتے ہوئے بے خبر رہے۔اب گمنام وادیوں میں حالت ِ دم سازی میں رہتے ہیں، کہ میں تیراچراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا! عشق کی کیفیت میں یہ شاید وارفتگی ہے مگر طاقت کے کھیل میں یہ پیادوں کی ترتیب ہے۔ زبیر عمر تنظیم سازی سے زیادہ ترجمانی کا ”بار” رکھتے تھے۔ نواز شریف اور مریم کی” ترجمانی ”آسان کام تو نہیں۔ کم بارکر کی کتاب ” THE TALIBAN SHUFFLE” پڑھ لیں ۔ نوازشریف نوجوان امریکی خاتون صحافی کو رِجھاتے ہوئے مکالمے میں جو گدگدی کرتے ہیں، گَد بَدا کے پیشکشیں کرتے ہیں، گدھے گھوڑے کو ایک بھاؤ کرتے ہیں تو پڑھنے والا سٹپٹا جاتا ہے، یہ چراغ حسن حسرت کیا کہہ گئے:
جوانی مٹ گئی، لیکن خلش دردِ محبت کی !
جہاں معلوم ہوتی تھی، وہیں معلوم ہوتی ہے
جوانی ختم ہوجاتی ہے ، ہوس نہیں۔ بالکل جیسے طاقت کا نشہ طاقت جانے کے بعد بھی مخمور رکھتا ہے۔” شکار’ ہوس کے مارے ،” شکاری” طاقت کے مارے۔عالَم دونوں بے خودی کے ہیں۔ مگر نتائج الگ الگ۔ ایک پسِ آئینہ لحاف میںمینڈکوں کے ٹرانے کی آواز یں دباتا ہے۔ دوسرا ہاتھی کے دانت دکھاتا ہے۔پیادے کا کام ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں والا ہوتا ہے۔مگر وہ ہاتھی کے ساتھ گناچوسنا چاہے تو منہ کو منہ آئیں گے۔ بڑے بزرگ کہہ گئے، ہاتھی کی ٹکّر ہاتھی ہی سنبھال سکتا ہے۔ زبیر عمر ہاتھی بن کر ٹکّر سنبھالنے چلے تھے،انجام دیکھیے! لحاف میں مینڈک ٹرانے لگے۔ طاقت کی گھمن گھیریوں میں یہی ہوتا ہے۔ ہوس ، طاقت کو للکارے تو ”خمار” بے قابو دھماچوکڑی کرتا ہے۔ زبیر عمر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پیادہ، دوسری سمت کے فرزیں کو آنکھیں دکھائے، اور اپنی سمت کے گھوڑے کو گدھاسمجھے تو اُس پر بساط تنگ ہوجاتی ہے۔زبیر عمر کی بھی ہوگئی۔
طاقت کی کشاکش میں اصل الاصول ہدف ہوتا ہے۔اُصول اور اخلاقیات نہیں۔ بستر بدل جائے تو واردات پر رائے بھی بدل جاتی ہے۔ چیئرمین نیب کی ”سر سے پاؤں ” تک ” احتسابی کارروائی”پر مبنی ویڈیو کا ماجرا مختلف قرار پایا۔ تب طاقت کے اصل مراکز حرکت میں آئے تھے۔ چیئرمین نیب کی” دفاعی لائن” کافی مضبوط تھی۔ یقین نہ آئے تو اُن ٹی وی مالکان سے پوچھیں ، جنہیں قوت کے مدارالمہام میں زحمت دے کر ”قومی مفاد ”کا مطلب سمجھایا گیا تھا۔یہ طاقت کی مفادِ عامہ میں تشریح تھی۔پاکستان کی جدید سیاسی لغت میں مفادِ عامہ کا عامتہ الناس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔شورش کاشمیری کے شہپر خیال نے آسمانِ طاقت کا نظارہ ذرا پہلے کرلیا تھا، قوم کے رہنماؤں کے نام دو خطوط میں الفاظ کے عملی معانی ڈھونڈے تھے، عوامی مطالبات کو کبوتروں کی غٹر غوں کہا تھا اور مفادِ عامہ کے معانی”رائے عامہ کے خلاف لیکن رائے عامہ کے نام پر” افشاء کیے تھے ۔ مگر یہ معاملے کا ایک رخ تھا۔ لکیر کے دوسری طرف ایک بھونچال تھا۔چیئرمین نیب کا23 مئی 2019 کو اسکینڈل سامنے آیا ۔شہباز شریف نے حقائق سامنے لانے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس اسکینڈل کو سامنے لانے والوں میں کہیں بھی پسِ پردہ قوتوں کا نام نہیں لیا گیا ۔ پی ایم ایل این کا جماعتی موقف یہ تھا کہ چیئرمین نیب پر دباؤ میں لانے کے لیے یہ حرکت وزیراعظم ہاؤس سے کی گئی ہے۔ شاہد خاقان عباسی اپنی زُبانِ تڑاق پڑاق کویوں حرکت میں لائے تھے: ہم اپنی بات پر قائم ہیں کہ وزیراعظم نے چیئرمین نیب کا اسکینڈل اپنے دوست(طاہر اے خان) کے چینل پر چلوا کر دباؤ ڈالا۔ اگر حکومت صاف ہے تو تحقیقات کروائے ۔ میں خود تحقیقات میں پیش ہونے کے لیے تیار ہوں”۔حکومت کا ردِ عمل نہایت سپاٹ الفاظ میں تھا۔وفاقی وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا: چیئرمین نیب کے اسکینڈل کی تحقیقات کی کوئی ضرورت نہیں، وہ اپنا کام ایمانداری سے کررہے ہیں”۔ ایمانداری سے !!آپ کو ہنسی کیوں آتی ہے ،فروغ نسیم کہہ سکتے ہیں۔ شہر قائد میں انسانوں کے قصاب الطاف حسین کا دفاع بھی اُنہوں نے کیا تھا: نیلسن منڈیلا کے بعد اگر کوئی لیڈر ہے تو وہ الطاف حسین ہیں”۔ معلوم نہیں یہ لوگ اپنے چہرے آئینے میں کیسے دیکھ لیتے ہیں۔ پھر عوام میں آنے کی ہمت کیسے کرلیتے ہیں؟
یہ سوال اب بھی برقرار ہے کہ چیئرمین نیب کی ویڈیو سامنے لانے والے کون تھے؟ مگر یہ سوال اُن کے لیے اب بھی کوئی معنی نہیں رکھتا جو زبیر عمر کی ویڈیو پر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ویڈیو کون سامنے لایا؟طاقت کے کھیل میں کشمکش کے اُصول اخلاقی نہیںہوتے۔ دونوں طرف دیکھیں ، دو ویڈیوز میں الگ الگ ردِ عمل، الگ الگ موقف ، الگ الگ کہانیاں، الگ الگ دفاع!!!شکاری ہو یا شکار دونوں ہی اپنے کھیل کھیلتے ہیں۔ اخلاقی اقدار اور بستر کی برہنگی کی دونوں ہی پروا نہیں کرتے۔ یقین نہ آئے تو مریم نواز کا زبیر عمر کی ویڈیو پر ردِ عمل دیکھ لیں۔
کیا یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی کشتی کو پار لگائیں گے۔ عوام کے دکھوں کا مداوا بنیں گے جوجرائم پر فریقوں کی تقسیم میں صحیح و غلط کا حکم لگاتے ہیں۔ مسئلہ اخلاقیات نہیں، مفادات ہیں۔ شکاری ہویا شکار دونوں ایک ہی نفسیات سے بروئے کار ہیں۔
سادہ اُصول ہے کہ طاقت کے ساتھ طاقت کے اُصول پر لڑنے والے تب ہی کامیاب ہوسکتے ہیں کہ جب وہ زیادہ طاقت رکھتے ہوں۔ اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ۔ پھر طاقت سے لڑنے کا ایک دوسرا اُصول اخلاقی برتری ہوتا ہے۔ اپنے سے بڑی طاقت کو کسی اخلاقی اُصول سے ہی زیر کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی سیاست اس معاملے میں بھی رذالت، خباثت اور رکاکت کی آخری مکروہ تصویر پیش کرتی ہے۔ اگر سیاست زبیر عمر ایسے لوگوں کو اپنے اندر برداشت کرتی ہے تو وہ چیئرمین نیب ایسے لوگوں کے خلاف کسی مقدمے میں سرخرو نہیں ہو سکے گی۔ طاقت کی جبری مساوات میں وہ ہمیشہ شکستہ رہے گی۔ وہی سیاست پاکستانی معاشرے میںجمہور کی محافظ بن سکے گی جو زبیر عمر اور چیئرمین نیب دونوں کو برداشت نہ کرے۔ جنہیں ویڈیوز کے آنے سے کوئی خطرہ نہ ہو، چاہے اس کا محرک کوئی بھی ہو۔ جب رہنما اپنے شب وروز پر اخلاقی پہرہ رکھیں گے تو اُنہیں کیمروں سے خطرہ ہے نہ طاقت کے کھلاڑیوں سے۔ درحقیقت اس کردار کے رہنماؤں سے طاقت کے مراکز دہلتے ہیں۔ مگر پاکستانی سیاست میں یہ کردار جنسِ نایاب ہے۔ یہاں کردار دوسرے کا اور اقتدار اپنا دیکھاجاتا ہے۔ اس کو پھر باجواز بنانے کے لیے برائے فروخت صحافت بھی مہیاہے۔ شرم یہاں کس کو آتی ہے، زبیر عمر کو بھی نہیں آتی۔ جامے کے اندر ہو یا باہر کس ڈھٹائی سے یہ عوام کے سامنے آجاتے ہیں:
کون اس رنگ سے جامہ سے ہوا تھا باہر
کس سے سیکھا تری تلوار نے عریاں ہونا
کھیل ابھی ختم نہیں ہوا! یہ جاری ہے۔بس اتنا واضح ہوا کہ بساطِ سیاست پر مہروں کی تقسیم میں اس دفعہ ویڈیوز کا بھی ایک حصہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭