... loading ...
(مہمان کالم)
سیم راگوین
امریکا نے آسٹریلیا اور برطانیا کے ساتھ بحرالکاہل اور بحر ہند کی سکیورٹی کے لیے جس تاریخی شراکت داری کا اعلان کیا ہے‘ اس میں براہِ راست چین کا کوئی ذکر تو نہیں کیا گیا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے تھا؛ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دفاعی معاہدہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ امریکا چین کو اپنا دشمن اور حریف سمجھتا ہے۔ امریکا کی چین کے ساتھ اس مخاصمت میں آسٹریلیا کو بھی ایک مرکزی کردار تفویض کیا گیا ہے۔ آسٹریلوی حکومت‘ جو کئی برسوں سے دفاعی میدان میں اپنے خود انحصاری کے عزم کا اظہار کر رہی تھی‘ اب امریکا کے ساتھ اپنے نئے دفاعی اتحاد پر بڑی اترا رہی ہے۔ آسٹریلیا سمجھتا ہے کہ امریکا ایشیا میں ایک لمبے عرصے تک سرگرم رہے گا اور اگر ضروری ہوا تو وہ چین کو سرنگوں کرنے کی کوشش بھی کرے گا مگر ایسا ہونا نہیں چاہئے۔
اس شراکت کو جسے اوکس (AUKUS) کا نام دیا گیا ہے‘ امریکا اور برطانیا کے مابین ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے تحت ا?سٹریلیا کو جوہری ایندھن سے چلنے والی ا?بدوزیں بنانے کی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی۔ یہ لڑاکا طیاروں یا چھوٹی توپوں جیسے ہتھیاروں سے متعلق کوئی عام سا معاہدہ ہرگز نہیں۔ دنیا کے چند ہی ممالک کے پا س ایٹمی ایندھن سے چلنے والی ا?بدوزیں ہیں اور برطانیا کے بعد آسٹریلیا امریکا کی اس اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے والا دوسرا ملک ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ آسٹریلیا اس ’حسنِ سلوک‘ کا مستحق کیوں ٹھہرا؟ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ امریکا کا قدیم ترین اور قریبی اتحادی ہے۔ بہت سے امریکی مبصرین کے خیال میں اس کی وجہ چین کا بڑھتا ہوا جارحانہ رویہ ہے، مگر توانائی کے شعبے میں کوئلے کی کانوں کے معاملے میں آسٹریلیا چین کا بڑا حریف بھی ہے۔ آسٹریلیا کو کوئلے اور جو کی برآمدات میں چین کے معاشی جبرکا سامنا بھی رہا ہے، 2019ء میں چین کے ہیکرز آسٹریلوی پارلیمنٹ کی ویب سائٹ کی ہیکنگ میں بھی ملوث پائے گئے۔ اس کی سکیورٹی ایجنسیوں نے چین کی طرف سے جاسوسی اور مداخلت کی رپورٹس بھی دی تھیں۔ کئی چینی عہدیدران اپنے آسٹریلوی ہم منصبوں کے ساتھ توہین آمیز رویہ اپنانے کے مرتکب بھی پائے گئے ہیں۔
گزشتہ سال ایک چینی ڈپلومیٹ نے آسٹریلیا کے خلاف 14 شکایات پر مبنی ایک فہرست جاری کی تھی جو ایک ایسی دستاویز تھی جس میں جون میں ہونے والی G-7 سربراہ کانفرنس میں ہونے والی بات چیت کا ذکر تھا۔ ان شکایات میں آسٹریلیا کے اس سخت گیر موقف کا ذکر تھا جس کے تحت اس نے چین کے ٹیلی کام آئیکون ہواوے کو 5G انفراسٹرکچر میں مسابقت سے روکنے سے لے کرچین کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ معاہدہ ختم کرنے تک کوشش کی۔ آسٹریلیا نے گزشتہ پانچ سال کے دوران اپنے دفاعی خصوصاً نیوی کے ہتھیاروں کی خریداری میں اضافہ کیا ہے جب کہ اوکس معاہدہ ان اخراجات کو نئی بلندیوں تک لے گیا ہے۔ امریکا کی طرح آسٹریلیا بھی چین کی عسکری میدان‘ خاص طور پر بحری فورس پر تیز رفتار سرمایہ کاری کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اپنی تاریخ میں آسٹریلیا نے بحر الکاہل کے دفاع کے لیے زیادہ تر اپنے دوستوں یا اتحادیوں پر ہی انحصار کیا۔ یورپی باشندوں کی آبادکاری کے بعد سے‘ یعنی گزشتہ 200 سالوں میں آسٹریلیا کو اپنی علاقائی سلامتی سے متعلق خطرہ صرف دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی محسوس ہوا تھا مگر اب ایشیا کے بحری راستوں پر چینی بالادستی سے آنے والے دنوں میں امریکا نہیں بلکہ آسٹریلیا کو اصل خطرہ لاحق ہو گا۔ اگرچہ اوکس معاہدے پر دنیا کے کئی ممالک کو حیرانی ہوئی تھی مگر اس حوالے سے آسٹریلیا کا محرک بالکل واضح ہے۔ فرانس کے ساتھ آبدوزوں کے ایک مہنگے اور تاخیرکے شکار پروجیکٹ کے بعد آسٹریلوی حکومت نے دنیا کی جدید ترین آبدوز ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ صرف اپنی بحریہ کو مضبوط بنانے بلکہ اسے امریکا کے مزید قریب جانے کے لیے بھی ایک غنیمت جانا ہے۔
صدر بائیڈن کی حکومت آسٹریلیا کی تشویش سے متفق ہے کیونکہ اسے بھی چین کے بارے میں متنوع قسم کے خدشات لاحق ہیں۔ امریکا تو ایشیا میں اپنی مرضی سے ہے مگر آسٹریلیا کی یہ مجبوری ہے۔ امریکا کی طرف سے عسکری اور تکنیکی تعاون کے یہ اقدامات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں مگر اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ امریکا چین کے ساتھ سرد جنگ جیسی کسی نئی مسابقت میں الجھنا چاہتا ہے یا نہیں۔ امریکا اپنے جغرافیائی محل وقوع، دوست ہمسایہ ممالک، مضبوط ترین معیشت اور اپنے دفاع کے لیے دنیا کے جدید ترین اسلحے کے معاملے میں بہت خوش قسمت ہے مگر چین بھی بہت مضبوط ملک ہے۔ پچھلی ایک صدی کے دوران اس کی معیشت کا حجم ہی اسے امریکا کا طاقتور ترین حریف بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے امریکا کی بھی یہ ضرورت اور مجبوری ہے کہ وہ بھی چین جتنی بڑی معاشی طاقت بن جائے۔ اس کے لیے محض یہ جواز کافی نہیں کہ چین اپنے ہمسایوں کو بلاوجہ ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔ نہ ہی امریکا کے آسٹریلیا جیسے اتحادی کو خطرے کی وجہ سے دونوں ممالک کو اپنا اتحاد مضبوط بنانے کی ضرورت ہے نہ اس کی یہ وجہ ہے کہ اگر چین نے عالمی بالادستی حاصل کر لی تو امریکا کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس ضمن میں ہمارا موقف بالکل واضح ہونا چاہئے کہ چین امریکا کی قومی سلامتی، اس کے وجود اور مفادات سمیت اس کے طرز حیات کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ چونکہ چین ابھی اپنے عزائم واضح نہیں کر رہا‘ اس لیے امریکا کے پاس بھی اس با ت کی کوئی فوری وجہ نہیں ہے کہ وہ اسے ایک علاقائی قوت بننے سے روکنے کے لیے کوئی فوری خطرہ مول لے۔
اس بات کی پریشانی آسٹریلیا کے ان فیصلہ سازوں کو ہونی چاہئے جنہوں نے اپنے مستقبل کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ وابستہ کرنے کا رسک لیا ہے یا پھر امریکا کو اس کی تشویش ہونی چاہئے کہ آخر امریکا چین کے ساتھ ایسی مسابقت میں کیوں الجھنا چاہتا ہے جبکہ اس کے خدشات ابھی دور دور تک وجود نہیں رکھتے۔ اگر آ سٹریلیا کے پاس اس اہم ترین سوال کا جواب نہیں ہے تو اسے اس امر کا بخوبی ادراک ہو جانا چاہئے کہ اسے اکیلے ہی اپنی سلامتی اور اپنے دفاع کو یقینی بنانا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔