... loading ...
(مہمان کالم)
مائیکل شمٹ
واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹرز‘ باب وڈ ورڈ اور رابرٹ کوسٹا کی نئی آنے والی کتاب ’’Peril‘‘ کے مطابق صدر ٹرمپ کے آخری دنوں میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف ا سٹاف جنرل مارک ملی نے اپنے چینی ہم منصب کو یہ یقین دہانی کرانے کے لیے دو مرتبہ فون کال کی کہ صدر ٹرمپ اقتدار میں رہنے کے لیے چین پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور امریکا جنگ کی طرف نہیں جا رہا۔ جنرل ملی نے اپنی دوسری فون کال میں چینی جنرل لی زوچنگ کو بتایا ’’جنرل لی! معاملات کسی حد تک عدم استحکام کا شکار ہو سکتے ہیں مگر یہ سب کچھ جمہوریت کا حصہ ہے۔ ہم 100 فیصد مستحکم ہیں، ہر چیز زبردست طریقے سے چل رہی ہے مگر جمہوریت میں بعض اوقات نشیب و فراز آتے رہتے ہیں‘‘۔
اپنی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود جنرل ملی صدر ٹرمپ کے حوالے سے اس قدر تشویش میں مبتلا تھے کہ انہوں نے اپنے اعلیٰ کمانڈرز کو یہ یاد دہانی کرانے کے لیے ایک میٹنگ بلائی کہ ایٹمی حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے وقت ان کی مشاورت بھی ضروری ہے۔ کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ نائب صدر مائیک پینس نے کس طرح الیکشن نتائج کے سرٹیفکیٹ کے اجرا کو رکوانے کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں میں اعانت کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے سابق نائب صدر ڈین کوئیل سے بھی بات کی تھی جنہوں نے بھی 1992 کا الیکشن ہارنے کے بعد نتائج کا سرٹیفکیٹ رکوانے کی کوشش کی تھی۔ مائیک پینس صدر ٹرمپ کے منصوبے میں کھل کر ان کے ساتھ نظر آئے اور جھوٹے دعوے کیے کہ ایریزونا کے الیکشن نتائج غلط تھے اور وہ پوچھ رہے تھے کہ کیا ان نتائج کی سرٹیفکیشن رکوانے کا کوئی طریقہ ہے۔ جب مائیک پینس کے ترجمان سے اس بات پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ ’’Peril‘‘ جو 21 ستمبر کو لانچ ہو رہی ہے‘ میں بتایا گیا ہے کہ اس میں شامل تمام مواد ہم عصر نوٹس، دستاویزات اور اس سارے عمل میں شامل عینی شاہدین کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔
نیویارک ٹائمز نے کتاب کی ایک کاپی حاصل کر لی ہے۔ صدر ٹرمپ کے منصبِ اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد شائع ہونے والی میڈیا رپورٹس اور کتابوں کی طرح اس کتاب میں بھی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح صدر ٹرمپ کے آخری مہینوں میں خاص طور پر ان کے الیکشن ہارنے اور اس کے نتائج تسلیم نہ کرنے کے بعد ان کی اقتدار پر گرفت نہایت کمزور ہو گئی تھی۔ تمام اعلیٰ مشیر‘ جن میں جنرل ملی، وزیر دفاع مارک ایسپر اور اٹارنی جنرل ولیم بار شامل تھے‘ اس بات پر قائل نظر آتے تھے کہ صدر ٹرمپ کی امریکی جمہوریت کو روندنے یا کوئی عالمی تنازع شروع کر نے کی کوشش کو روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ کتاب کے مطابق‘ جنرل ملی سمجھتے تھے کہ صدر ٹرمپ الیکشن کے نتائج کو قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر بالکل تیار نہیں۔ کتاب کا نصف حصہ صدر جو بائیڈن کی حکومت کے ابتدائی چند مہینوں سے متعلق بحث پر مشتمل ہے جب انہیں کووڈ جیسی مہلک وبا، غیر مستحکم معیشت، کانگرس اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر جو بائیڈن کے حوالے سے کتاب میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے افغانستان کے بارے میں اپنے مشیروں سے بات چیت کے دوران کہا تھا ’’اگر اس مشن کا مقصد اشرف غنی کی حکومت کو بچانا ہے تو میں اپنے بیٹے کو بھی وہاں نہیں بھیجنے دوںگا‘‘۔ مگر کتاب میں زیادہ تر تفصیلات صدر ٹرمپ کے بارے میں ہیں۔ اس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جب 2020ء کے الیکشن قریب آ رہے تھے تو امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کہا کہ چین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ ایک عالمی بحران پیدا کرنے کے لیے فوجی حملہ کریں گے اور پھر اس بحران کو حل کرنے کا کریڈٹ لے کر جو بائیڈن کو الیکشن میں شکست دینے کی کوشش کریں گے۔
جنرل ملی نے‘ جو چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت اور سپر پاورز کے درمیان پیدا ہونے والی ممکنہ فوجی کشیدگی پر تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے‘ ایک خفیہ بیک چینل استعمال کرتے ہوئے پہلی مرتبہ اپنے چینی ہم منصب جنرل لی سے بات چیت کی۔ وہ صدر شی جن پنگ اور جنرل لی کو یقین دہانی کرانا چاہتے تھے کہ امریکا چین پر حملہ کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔ 8 جنوری کو ہونے والی بات چیت میں جنرل لی نے بتایا کہ چینی قیادت کو خدشہ ہے کہ امریکی حکومت عدم استحکام کا شکار ہے اور انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے کی کال میں جنرل ملی پر زور دے کر پوچھا کہ کیا امریکی فوج بھی کوئی ایکشن لینا چاہتی ہے؟ جنرل ملی کی تمام تر یقینی دہانیوں کے باوجود جنرل لی اس تشویش کا شکار تھے کہ ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ کسی ایسے لمحے کے منتظر ہوں جسے جواز بنا کر وہ اقتدار پر قابض ر ہ سکیں۔ فون کال کرنے کے باوجود جنرل ملی کو احساس ہوا کہ معاملہ کافی سنگین ہے۔ کتا ب کے مطابق‘ جنرل لی غیر معمولی طور پر پریشان دکھا ئی دیے۔ جنرل ملی کا خیال تھا کہ صدر ٹرمپ جنگ نہیں چاہتے مگر وہ کسی ایسے حملے کا حکم دے سکتے ہیں جس کے نتیجے میں حالات خود بخود جنگ کی طرف چلے جائیں۔ جنرل ملی کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا ’’میں نے انہیں مسلسل یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ا?پ جب اور جہاں بھی حملہ کریں گے تو آپ بہرصورت ایک جنگ میں ملوث ہو جائیں گے‘‘۔ اسی دن جنرل ملی نے سپیکر نینسی پلوسی کے ساتھ بات کی جنہیں یہ خوف لاحق تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بے قابو ہو جائیں گے اور ملٹری طاقت کا استعمال کریں گے۔ مس پلوسی نے کہا ’’یہ تو بہت برا ہو گا مگر کون جانتا ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں؟ وہ تو پاگل ہے، تم تو جانتے ہوکہ وہ ایک حواس باختہ انسان ہے۔ وہ تو عرصے سے پاگل پن کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ لہٰذا آپ یہ نہ کہیں کہ اس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں آپ کو علم نہیں ہے‘‘۔ جنرل ملی بولے ’’میڈم ا سپیکر! میں آپ کی ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں‘‘۔ جنرل ملی‘ جو صدر ٹرمپ کے اعلیٰ ترین عسکری مشیر تھے مگر چین آف کمانڈ میں شامل نہیں تھے‘ نے نینسی پلوسی کو یہ یقین دہانی کرانے کی پوری کوشش کی کہ وہ صدرٹرمپ کو کسی ایسے فیصلے سے روک سکتے ہیں۔ ’’میں ایک بات کی ا?پ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف ا سٹاف میں آپ کو اس بات سے ا?گاہ کرنا چاہتا ہوں کہ فوج کے استعمال میں‘ خواہ یہ ایٹمی حملہ ہو یا کسی غیر ملک پر حملہ‘ ہم کسی قسم کا غیر قانونی یا احمقانہ اقدام نہیں کریں گے‘‘۔ نینسی پلوسی نے پوچھا ’’غیر قانونی یا احمقانہ سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ جنرل ملی بولے: میں آپ کو حلفیہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ امریکی فوج اس طرح کے کسی بھی فیصلے کو روکے گی‘‘ نینسی پلوسی سے ملاقات کے بعد جنرل ملی نے اعلیٰ فوجی کمانڈرز کی میٹنگ بلائی جس میں انہوں نے کہا ’’اگر آپ کو کہیں سے بھی اور کسی کی بھی فون کال موصول ہوتی ہے اور آپ کو خواہ کچھ بھی حکم دیا جاتا ہے تو یہ یاد رکھیں کہ ہر کام کا ایک پروسیس اور پروسیجر ہوتا ہے۔ آپ نے اس پروسیجر پرعمل کرنا ہے اور میں اس پروسیجر کا حصہ ہوں۔ سخت پروسیجر اپنانے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی نادانستہ غلطی، حادثے یا غیر اخلاقی طریقے سے دنیا کی خطرناک ترین جنگ کو شروع ہونے سے روکا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔