... loading ...
(مہمان کالم)
پال کرگمین
شاید یہ بات نیوز میڈیا سمیت اکثر لوگوں کواچھی نہ لگے کہ وہ نائن الیون حملوں کے حوالے سے ابھی تک ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں‘ کچھ لوگ تو اس قومی وحدت اور یگانگت کے حوالے سے پریشان ہیں جو ان حملوں کے بعد ہمیں نظر آئی تھی۔ زیادہ گہرائی میں سوچیں تو میرا احساس یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ ان دنوں کو یاد کرتے ہیں جب ہمیں اپنے سیاسی شدت پسندوں سے زیادہ غیر ملکی انتہا پسندوں سے خطرہ محسوس ہوتا تھا مگر اس طرح کی قومی وحدت کے دن ہم نے کبھی نہیں دیکھے۔ یہ محض ایک افسانوی بات ہے اور اگر ہم امریکی جمہوریت کی اس حالتِ زار کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسے مزید فروغ پانے سے روکنا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ امریکی سیاست دانوں نے نائن الیون حملوں کے وقت سے ہی ان حملوں کو قومی اتحاد کو فروغ دینے کے بجائے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ایک موقع سمجھ کر استعمال کیا۔ اس دہشت اور خوف کی فضا میں بھی اس قنوطیت پسندی نے ہمیں یہ بات سمجھائی کہ جس وقت امریکا بیرونی حملوں کی زد میں تھا‘ اس وقت بھی ہمیں سب سے بڑے خطرات داخلی محاذ پر درپیش تھے۔ ریپبلکن پارٹی اس وقت تک مطلق العنانیت کی طر ف مائل نہیں ہوئی تھی مگر وہ جوکچھ کر سکتی تھی اور کرنا چاہتی تھی اس نے کیا۔ اسے اپنی اپوزیشن کی قانونی حیثیت اور جواز سے شدید نفرت تھی۔ ہم اس وقت بھی 6 جنوری کو کیپٹل ہل پر ہونے والی بغاوت کی راہ پر چل رہے تھے، اس ریپبلکن پارٹی کی طرف جا رہے تھے جو اس ہلڑبازی کی حمایت کر رہی تھی اور اگر اسے ایک اور موقع ملا تو بھی اس کی حمایت کرنے کی کوشش کرے گی۔ اب یہ عوامی ریکارڈ کا معاملہ ہے کہ نائن الیون حملوں کے وقت بش حکومت میں شامل اربابِ اقتدار کا فوری ارادہ یہی تھا کہ ان حملوں کو عراق پر حملے کے جواز کے طور پر استعمال کیا جائے۔ جس وقت پینٹاگون جل رہا تھا‘ وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ نے اپنے مشیروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’سب کچھ ملیا میٹ کر دو‘‘۔
کئی میڈیا تنظیموں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ان جنگی عزائم کے حامیوں کی حمایت کی تھی۔ دی ٹائمز نے تو اس حوالے سے ایک بڑا معذرت نامہ شائع کیا تھا۔ مگر جو لوگ نائن الیون حملوں کو ایک بڑی جنگ کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے اور جھوٹے دعووں کے ساتھ اس جنگ کو بیچنا چاہتے تھے اور جسے عوامی اعتماد کو ناقابل معافی انداز میں ٹھیس پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا‘ بدقسمتی سے اب یہ سب کچھ عوام کی زبانوں اور ذہنوں سے غائب ہو چکا ہے۔ دہشت گردی کو جس طرح داخلی سیاسی اہداف کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا تھا‘ اب ہم شاید ہی کبھی اس کا ذکر سنتے ہوں۔
قوم کو جب کسی خطرے کا سامنا ہوتا ہے تو ہم اپنے رہنمائوں سے مشترکہ قربانیاں دینے کی توقع کرتے ہیں مگر معروف ریپبلکن لیڈروں نے نائن الیون حملوں کو جواز بنا کر امیر طبقات اور کارپوریشنز کے ٹیکس میں کٹوتی کر دی۔ نائن حملوں کے صرف 48 گھنٹے کے اندر اندر ہائوس ویز اینڈ مینز کمیٹی کے چیئرمین نے کیپٹل گین ٹیکس کم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ بعد میں ہائوس میجارٹی وہپ ٹام ڈیلے نے اعلان کر دیا ’’جنگ کے زمانے میں ٹیکس میں کمی کرنے سے زیادہ اہم بات کوئی نہیں ہوتی‘‘۔ 2003ء میں ریپبلکن پارٹی نے عراق جنگ میں کامیابی کی آڑ میں کیپٹل گین ٹیکس اور منافع پر ٹیکس ریٹس کم کر دیے تھے۔ ہمیں اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ عراق پر قبضے کے معاملے کو کس غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا تھا۔
قوم سازی ایک مشکل کام ہوتا ہے اور اس کے لیے انتہائی قابل اور کوالیفائیڈ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر بش حکومت نے اسے بالادستی کے ایک موقع کے طور پر استعمال کیا۔ یہ بھی اپنے سیاسی وفاداروں کو نوازنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ قصہ مختصر‘ جس وقت ہائی جیکروںنے ٹوئن ٹاورز پر حملہ کیا تھا‘ اس کے بعد ریپبلکن پارٹی ایک نارمل سیاسی جماعت نہیں رہی‘ جو خود کو وسیع تر قومی مفادات کی عارضی کسٹوڈین سمجھنے لگی۔ یہ ایسے کام کرنے کے لیے بھی تیار تھی جن کے بارے میں پہلے تصور بھی محال تھا۔
میں نے 2003 میں یہ اعلان کیا تھا کہ ریپبلکن پارٹی پر اس وقت اس موومنٹ کی بالا دستی ہے جس کے لیڈرز ہمارے موجودہ سیاسی نظام کی قانونی حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کرتے‘‘ مگر بہت سے لوگ میری یہ بات سننے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ مجھ جیسے جن لوگوں نے بھی ان خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی‘ ان کی بات کو ’’سنسنی خیزی پھیلانے کی کوشش‘‘ کہہ کر مسترد کر دیا گیا حالانکہ ہم جیسے متنبہ کر نے والے ہر مرحلے پر درست نشاندہی کر رہے تھے؛ البتہ یہ سچ ہے کہ ماضی میں اس ادراک کی شدت کم کرنے والے کچھ عوامل بھی تھے۔
صدر جارج بش کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ نائن الیون حملوں کے چھ دن بعد ہی انہوں نے مسلم مخالف جذبات کو کم کرنے کے لیے ایک اسلامک سنٹر کا دورہ کیا اور امریکی عوام سے تمام مذاہب کا احترام کرنے کی استدعا کی۔ ذرا ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں بھی ایسا ہی کوئی کام کرنے کے بارے میں تصور کرنے کی کوشش کریں۔ یہاں ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ہمارے کئی معروف دانشور حضرات‘ جنہوں نے عراق کے خلاف جارحیت کے جذبات کو فروغ دینے میں ہاتھ بٹایا اور جو جنگوں کا ایک وسیع سلسلہ شروع کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے‘ کھل کر سامنے ا? گئے تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ جمہوری اقدار کے فروغ پر ان کا یقین تو پختہ تھا مگر اس کے لیے انہوں نے جو طریقہ کار اپنایا اور اپنے لیے جن اتحادیوں کا انتخاب کیا تھا‘ اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے تھے مگر یہ محض ایک حادثہ یا اتفاق نہیں ہے کہ ریپبلکن پارٹی نے جمہوریت کے لیے احترام اور برداشت جیسی قدروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہم اس وقت جہاں کھڑے ہیں وہاںجمہوریت محض ایک دھاگے کے سہارے قائم ہے۔ اس سمت میں تو ہم طویل عرصے سے محو سفر تھے۔
20 سال پہلے امریکا پر سفاکی سے حملے کیے گئے تھے مگر اس کے باوجود اہم بات یہ ہے کہ اس کے خلاف آواز ہمارے ایوان کے اندر سے آ رہی تھی۔ اس وقت اس قوم کو جو حقیقی خطرہ درپیش ہے‘ وہ خودکش بمباروں سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے دائیں بازو کے حامی حلقوں سے لاحق ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔