... loading ...
(مہمان کالم)
رام پنیانی
ہندوستان کی متنوع تہذیب اور یہاں پائے جانے والے ’’کثرت میں وحدت‘‘ کا جو نظریہ ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ اس سرزمین پر مختلف تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے، مختلف مذاہب کے ماننے والے ، مختلف زبانوں کے بولنے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے رہتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے بھکتی‘ صوفی سَنت اور تحریک آزادی نے اس سرزمین پر رہنے والی مختلف برادریوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کیا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پچھلے چند دہوں سے اور خاص طور پر چند برسوں سے ہندوستان کی اس تہذیب پر حملے کیے جارہے ہیں اور مختلف برادریوں کے تعلقات کو بگاڑنے کی مسلسل کوششیں ہورہی ہیں۔ چند دن قبل متھرا میں واقع وکاس مارکٹ کے سریناتھ دوسہ ا اسٹال میں توڑ پھوڑ کی گئی اور یہ کام نسلی تفریق کی تائید و حمایت کرنے والے نظریہ پر چلنے والوں نے کیا۔ ان غنڈوں نے سریناتھ دوسہ اسٹال کے مالک عرفان کو دھمکیاں بھی دیں اور یہ کہا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم نے اپنے اسٹال کا نام ایک ہندو نام پر رکھا ہے۔ ان لوگوں نے عرفان کو نہ صرف دھمکیاں دیں بلکہ ان سے وکاس مارکٹ سے نکل جانے کے لیے بھی کہا۔ یہ تو ایک واقعہ تھا، لیکن ہم اسی طرح کے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف کئی ایک دل دہلادینے والے واقعات پیش ا?ئے ہیں۔ راجستھان کے سِکر میں ایک 52 سالہ رکشہ ڈرائیور کو گھسیٹا گیا۔ مارپیٹ کرتے ہوئے اس سے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے کے لیے کہا گیا۔ ان لوگوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس غریب کو یہ انتباہ بھی دیا کہ اسے اس وقت تک نہیں چھوڑا جائے گا جب تک کہ وہ پاکستان نہیں چلا جاتا۔ دوسری طرف مدھیہ پردیش کے ہندوئوں نے ایک چوڑی فروش تسلیم علی کو شدید زدوکوب کیا اور اس سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ چوڑیاں فروخت کرنے کے لیے ایک ہندو علاقے میں کیوں داخل ہوا؟ اْترپردیش کا تو برا حال ہے جہاں ہندوتوا ہجوم نے ایک رکشہ ڈرائیور کو پکڑ کر شدید مارپیٹ کی۔ وہ رکشہ ڈرائیور اپنی 9 سالہ بیٹی کے ساتھ جارہا تھا۔ اْن غنڈوں کے ہاتھوں باپ کو پٹتا دیکھ کر وہ معصوم لڑکی رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔ باپ کو بچانے کے لیے اس سے لپٹ رہی تھی۔ اس کی چیخوں اور آہوں نے سارے بھارت کو رْلا دیا لیکن ان بے رحموں کو کسی قسم کا رحم نہیں آیا۔ اجمیر میں ایک مسلم گداگر کو‘ جو اپنے دو بیٹوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، فرقہ پرستوں نے پکڑ لیا اور مارپیٹ کی۔ حد تو یہ ہے کہ باپ کے سامنے بیٹے کے سر پر لاتیں ماریں اور بیٹوں کے سامنے باپ کو ذلیل کیا اور پھر اسے پاکستان جانے کے لیے کہا گیا۔ ان غیرانسانی واقعات کی فلمبندی کرتے ہوئے اسے سوشل میڈیا پر ایسے وائرل کیا گیا جیسے ان لوگوں نے بڑی بہادری کا کام کیا ہو۔ اسی طرح زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کرتے ہوئے وڈیوز خوب پھیلائے گئے۔
وقفے وقفے سے ہونے والے نسلی منافرت پر مبنی ان واقعات میں سے کچھ واقعات ہی منظر عام پر آئے ہیں جو صرف اس بات کا اشارہ ہیں کہ بے بس و کمزور اقلیتوں کے خلاف فرقہ وارانہ واقعات روز کا معمول بن گیا ہے۔ یہ واقعہ اچانک اور مختلف علاقوں میں رونما ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نفرت پیدا کرنے والی مشینیں آج کل اوور ٹائم کررہی ہیں اور یہ طاقتیں‘ صدیوں سے جن باہمی تعلقات کی آبیاری کی گئی تھی‘ اسے تباہ کرنے پر تْلی ہوئی ہیں۔ حالانکہ ساری دنیا نے دیکھا کہ جدوجہد آزادی کے دوران ہندو‘ مسلم اتحاد کے بے مثال نمونے منظر عام پر آئے۔ اگر ہم موجودہ حالات پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ نفرت پچھلی دو صدیوں سے کی گئی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ دو صدیوں کے دوران فرقہ پرست طاقتوں نے فرقہ وارانہ ہم ا?ہنگی کو نقصان پہنچانے کے لیے بہت کچھ کیا۔ فرقہ پرستوں نے ہندو‘ مسلم‘ دونوں کے خلاف اپنے بیانات کے ذریعے نفرت کا ماحول پیدا کیا۔ تقسیم ملک کے بعدمسلم فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی اور اب ہندو فرقہ پرستی مسلسل نقطہ عروج پر پہنچ رہی ہے اور پچھلے چند برسوں سے اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب تک یہ لوگ جارحانہ موقف اختیار کرچکے ہیں۔ ایسے بیانات دیے جارہے ہیں جس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہورہی ہے۔ مسلمانوں کو ’’بیرونی باشندے‘‘ کہا جارہا ہے۔ مسلم مغل بادشاہوں کو ’’ظالم‘‘ اور ’’لٹیرا‘‘ قرار دیا جارہا ہے اور ان کے تعلق سے لوگوں میں غلط باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ یہ طاقتیں مختلف میکانزم کے ذریعہ ظالمانہ کارروائیوں کو عام کررہی ہے جبکہ اس معاملے میں میڈیا کا ایک بڑا گوشہ بہت ہی زرخیز ثابت ہوا ہے۔ پچھلے دہوں کے دوران میڈیا کی جانبداری بھی بڑھ گئی ہے۔ میڈیا میں تعصب کا مظاہرہ کیا جارہا ہے کیونکہ یہ ایسا گوشہ ہے جن کی ملکیت ان آقائوں کے ہاتھوں میں ہے جو حکومت کے ساتھ خفیہ معاملات کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں لیکن ان کے مقاصد مشترکہ ہیں۔ بھارتی میڈیا کے اس گوشے نے خود کو مسلم کمیونٹی کے خلاف جارحانہ انداز میں لاکھڑا کیا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بھی بے شمار مثالیں پیش کرسکتا ہے اور جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، ہم اس کا نظارہ ’’مغل اعظم‘‘ جیسی ماضی کی فلموں سے لے کر حالیہ وقت کی ’’جودھا اکبر‘‘ سے کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ فرقہ پرستوں اور میڈیا کے گوشوں نے تبلیغی جماعت کو کووڈ انیس پھیلانے والے قرار دیا اور سب نے دیکھا کہ کس طرح میڈیا نے اپنا کردار ادا کیا اور مسلمانوں کو ان نسل پرستوں نے اپنا نشانہ بنایا۔ ایک طرح سے منصوبہ بند سازش کے ذریعے نسلی منافرت پر مبنی نظریہ پھیلایا جارہا ہے اور اب تو فرقہ پرست طاقتیں قرونِ وسطیٰ کے نفرت سازوں کو واپس لارہی ہے۔
جب اس نکتہ پر کرن تھاپر نے اخبار ’’ایشین ایج‘‘ کے لیے اپنے کالم میں روشنی ڈالی تھی‘ تب ان کے آرٹیکل کو روک دیا گیا۔ بعد میں ’’ستیہ ہندو‘‘ کے نیلو ویاس کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ اس ا?رٹیکل میں جموں میں مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام پر روشنی ڈالی گئی تھی اور جس کی شدت ہندو مخالف تشدد سے کچھ کم نہیں تھی۔ اصل نکتہ یہ نہیں کہ کونسی کمیونٹی سب سے زیادہ متاثر ہوئی بلکہ اصل نکتہ یہ ہے کہ سارا برصغیر تقسیم ہند کے کربناک دور سے گزرا۔ نسلی منافرت پر مبنی ایجنڈا یہی چاہتا ہے کہ 14 اگست کو تقسیم کی ہولناکی کے دن کے طور پر منایا جائے جس کا مقصد مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت کے لیے میدان تیار کیا جائے۔ اگر آپ دیکھیں تو تقسیم ہند پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کا حوالہ نہیں دیا گیا اور اگر دیا بھی گیا تو بہت ہی کم۔ بی جے پی کے دیگر ترجمان اب اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کو خوش کرنے سے متعلق کانگریس کی پالیسی کے نتیجے میں ہی تقسیم کے ہولناک واقعات پیش آئے، لیکن وہ بھول گئے کہ تقسیم ملک کے وقت کوئی اور نہیں بلکہ سردار پٹیل ہی مرکزی وزیر داخلہ تھے اور سردار پٹیل کو ہی بی جے پی اپنا ہیرو بنانا کی کوشش کررہی ہے جس کے ذریعے وہ سیاسی فائدے حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی کا سوال ہے ، یہ شکایت ہندو فرقہ پرست انیسویں صدی کے اواخر سے کررہے ہیں۔ جب ان فرقہ پرستوں نے کہا تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس میں مسلمان ارکان رکھے گئے ہیں، اور یہ الزام آج بھی مختلف شکلوں میں موجود تھے۔ ہمیں نسلی منافرت سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہئے اور اپنی مربوط و ہمہ جہتی تہذیب کو فراموش نہیں کرنا چاہئے تب ہی ہم اپنے بہتر مستقبل کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ نفرت کی دیواریں گرانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔