... loading ...
وقت کے تمام آفاق سمٹ گئے۔ ادراک کے سب روزن مقفّل ہوئے۔ آہ! آہ اظہار کے سب اسالیب عاجز کیوں ہیں؟ملا عمر ! آج آپ یاد بہت آئے!!
آج 11 ستمبر ہے۔ افغان سرزمین آزاد ہے، آپ کے بیٹے حلف اُٹھاتے ہیں۔زمین پر طاقت کے پیروکاروں کا ہجوم در ہجوم ہے مگر
یہ نجوم در نجوم اللہ پر ایمان رکھنے والوں کی بزمِ کہکشاں ہے۔ اب دو دہائیاں بیتتی ہیں، آج ہی وحشت ناک تاریکی ، آسمانی پیغام کی امین روشنی کے مقابل صف آرا ہوئی تھی۔ یہیں کہیں دنیا کے سفاک سورما جارج بش نے آندھی کو دربار حاضر کرتے ہوئے سورج کو غیاب کا حکم دیا تھا۔ امریکا میں جسے ”مسخرہ” کہتے تھے، مگر ہم اس کی مقدس شبیہ کی ‘آرتی’ اُتارتے تھے۔ کابل ہی کیا اسلام آباد اور دہلی میں بھی اس ”دہشت کے دیوتا”کو تقدس حاصل تھا۔ مسخرہ مسکراتا تو ارد گرد کے ممالک کے حکمران بھی دانت نکال لیتے ۔ اُس کے غصے سے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتیں۔ دہشت کا دیوتا” آدم بُوآدم بُو ” کی دل دہلا دینے والی آوازیں نکالتا ہوا کابل پر منڈلانے لگا۔اس کی پھیلائی ہوئی عمیق تیرگی میں تب ارد گرد کے پجاری حکمران بھی وحشت کی بلائیں بن کر نازل ہونے لگے۔ حکم تھا ، دن سکیڑ دیے جائیں ، راتیں پھیلا دی جائیں۔ روشنی کی کوئی کرن نمودار نہ ہو۔ تاریکیاں راج کریں، سب کچھ تاراج کریں۔ حکم تھا ، آزادی، غیرت، دین اور نام محمدۖ لینے والوں کا یہ آخری لمحۂ سکرات ہے۔ دہشت کے دیوتا نے کہا کہ اب پہاڑ میری چھتری تلے رہیں گے۔ یہاں اُگنے والے سورج کو میرے تکبّرکے کمبل سے ڈھانپا جائے گا۔ تسبیح کے دانے میرے احکامات سے پھیرے جائیں گے۔ ”قال اللہ وقال الرسول ” کی صدائیں مجھے بہرا کرتی ہیں ، سو اس کی اجازت نہیں۔ اب یہاں کوئی خدانہیں ، کوئی حمد نہیں، کوئی مناجات نہیں۔ میں ہی تمہارے آسمانوں پر قہاری کا دربان لگا کر بیٹھا ہوں ۔ میرا تخت جنگی طیاروں کے ساتھ اڑتا ہے۔ میرا قہر میزائلوں کے ساتھ گرتا ہے۔ آندھیاں میری ہتھیار ہیں۔ اذانیں بند ہوں، اب یہاں آندھیوں کا رَجَز ہی مقدس بول ہیں۔ سنو اور مجھ سے ڈرو!!!!ابھی یہاں فضاؤں میں بی۔ 52 طیارے ڈھمال ڈالیں گے، ان کی آواز میرے وحشی بھگتوں کے بھجن ہیں، میں دہشت کا دیوتا اس سے خوش ہوتا ہوں۔ پھر بی۔ 52 طیاروں نے 7 اکتوبر کو افغانستان کی فضاؤں میں پہلی پروازیں لیںاور آسمان پر صلیب کانشان بنالیا۔ یہ ہلال کو شکست دینے کا اپنے تئیں اعلان تھا۔ ابھی دہشت کے دیوتا کے لیے 57ہزار طیاروں کو یکے بعد دیگرے اڑانیں بھرنی تھیں۔ یہاں تک کہ رمز فیلڈ کو ہنستے ہوئے کہنا تھا کہ اب افغانستان میں کوئی ہدف باقی نہیں رہا۔ پھر بھی پورا افغانستان ہدف ہی رہے گا۔ وحشت کا یہ ننگا ناچ بیس برس تک جاری رہنا تھا۔ دہشت کا دیوتا سمجھتا تھا کہ پھر کسے باقی رہنا ہے؟ تب اس قہر کے سامنے ایک شخص کھڑا تھا۔ کوئی دوسرا نہیں، تن تنہا۔آج پھر وہی ستمگر 11 ستمبر ہے ، ملا عمر آپ یاد بہت آئے!!
اس ستمگر تاریخ کے تیرہ روز بعد امریکی قہر کی ترجمانی ایک صحافی کے سوال سے ہوئی جب اُس نے ملا عمر سے پوچھا:آپ امریکا سے خوف زدہ نہیں۔ملاعمر کا جواب تھا،اللہ ہمارا مددگار ہے۔ سوال کرنے والے نے کہا تھا، امریکا کی طاقت ہمہ گیر ہے، کوئی غار ، پہاڑ کوئی یار کوئی آڑ آپ کو ، قوم او رملک کو بچا نہ پائے گی۔ ملا عمر نے رسان سے کہا : ایک اللہ کا وعدہ ہے اور دوسرا بش کا دعویٰ۔ ہم دیکھیں گے ، کون سچا ہے؟ توکل ، اللہ پر توکل۔ مادیت نے اسی کو ہڑپ لیا ہے۔ مگر ملاعمر اس سے بلند تھے۔ تب ملا عمر نے اپنا رومال اُٹھایا ، اللہ پر کامل یقین کے ساتھ ایک طویل جدوجہد کے لیے کھڑے ہوگئے۔اُن کے نزدیک افغانستان کی حکومت اللہ کے حکم کے آگے اُس رومال کے برابر بھی نہ تھی جو اُٹھنے سے پہلے اُنہوں نے ہاتھوں میں اُٹھالیا تھا۔ اِسے اگلے دنوں میںایک پرچم بننا تھا۔ تاریخ کے دوام میں جسے ہمیشہ اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ لہرائے رہنا تھا۔ اس گفتگو کے ذرا بعد دو واقعات اور بھی تھے، جو اللہ پر توکل کے نتیجے میںایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جسے جدید ذہن قبول نہیںکرتے۔” ترقی” کا مرض جسے برداشت نہیں کرتا۔ امریکی افغان فضاؤں میںاڑتے ، نیچے اُترنے پر کمربستہ ہوئے تو نگاہیں قندھار پر گاڑیں، جہاں ملاعمر اپنے گھر میںمقیم تھے۔ ایک روزمیزائلوں کی بارش میں وہ نیچے اُترے، چند لمحے قبل ہی وہ گھر چھوڑ آئے تھے۔ ابھی طویل سفر کے نئے پڑاؤ طے ہونے تھے۔ فضاؤں سے اُنہیں گھورا جارہا تھا، وہ جس راستے پر تھے، میزائل اُن پر داغے گئے۔ اسی آنکھ مچولی میں وہ لمحہ آیا جب ملاعمر نے اپنا وہی رومال ایک جگہ بچھایا اور نگاہیں آسمان پر مرکوز کیں: زندگی اور موت کے فیصلے اللہ کرتا ہے ، بش نہیں”۔ توکل ، اللہ پر توکل۔فضاؤں میں اڑتے طیارے اس اللہ کے بندے کو پھر تلاش ہی کرتے رہ گئے۔ حضرت علامہ اقبال فرماگئے:
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
کوئی نہ تھا، بخدا کوئی دوسرا نہ تھا، جو اللہ پر توکل کی ایسی مثال بنے۔ ملا عمر مجاہد نے دورِ جدید میں ترقی کے تمام شکوہ اور ٹکنالوجی کے تمام فسوںکو اللہ پر توکل سے شکست دی۔ ملا عمر جس گھر میں اپریل 2013 ء تک رہے، وہاں ایک وقت ایسا بھی آیا ، جب امریکی فوج گھس آئی۔ میزبان گبھرائے ہوئے تھے، مگر اللہ کا مہمان بے پرواہی رہا۔ امریکی فوجی جنہیں ڈھونڈنا چاہ رہے تھے، ایک چھوٹے سے گھر میں بھی ڈھونڈ نہ پائے۔تب ملا عمر نے وہ فقرہ کہا جو ایمان والوں میں یقین کا نور بھر دیتا ہے، جسے تاریخ کے دوام میں مثالوں میں سنایا جانا ہے: توکل محض کا یہی فائدہ ہے، مگر یہ ہے بہت سخت”۔ کہاں ہیں وہ کان جو آزمائش کے کڑے امتحان میں ملاعمر کی ایمان افروز گفتگو سنتے تھے ؟ عبدالجبار عمری دستیاب نہیں تو کیا ہوا؟خاموشی کی معتبر تہ میں اُبھرتی آوازیں کان نہیں دل سنتے ہیں اور تنہائیوں کے مقدس جلوے آنکھ سے کہاں، عشق سے دیکھے جاتے ہیں۔ملا عمر نے مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی سازشوں کی گزشتہ تین صدیوں پر محیط تھکن اُتار دی۔ اُنہوں نے اپنے مطلعِ جاں سے سحر کے ظہور کی بشارت دی ۔ آج کا 11 ستمبر ملاعمر کے ایمان کا ثمر ہے۔ جنہوں نے ایک ناممکن تصویر کو کامل ایمان سے سچا کرکے اُبھار دیا۔وہ تصویر جسے ”کشف” سے عریض اور ”مراقبے” میں وسیع ہونا ہے۔ جسے بحرِ بلا کی موج اور قہرِ قضا کی اوج میں استقامت سے جبل بننا ہے۔ اس راز کو وہ نہیں پاسکتے جن کا ایمان نفاق کے بستر پر کروٹیں بدلتا ہے۔ جی ہاں کہلاتے وہ دوست ہیں، مگر کہاں؟اس قبیل کا ایک پجاری یہاں بھی تھا، جو دہشت کے دیوتا کی بھوک مٹانے کے لیے اپنوں کے کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا۔ وہ اور اُس کے حواری د عویٰ دوستی کا رکھتے تھے۔کبھی تھے بھی ،معلوم نہیں۔ آخری بار دُشمنوں کے ساتھ ساز باز کرتے دیکھے گئے۔ کسی گم گشتہ دوزخ کی راکھ میں دھنسے دغابازوں کی طرح کا انجام لے کر تاریخ میں اب گُم ہیں۔ وہ ”ڈرتے ورتے” کسی سے نہ تھے، مگر چراغ کے نقلی شعلے اور سمندر کی جھوٹی لہر یں تھے۔ اُن کے قدم ہمیشہ دلدلی زمینوں پر رہے، مختلف صحائف میں سنائی گئی تمام لعنتوں کے مستحق بنے۔ تب اُن کا بس نہ چلا وگرنہ بش کے سابقے میں ” حضرت” اور لاحقے میں” علیہ السلام” کہنے اور لکھنے کا آمرانہ حکم بھی جاری فرمادیتے۔ کیا وہ جانتے ہیں ایمان کا امتحان کیا ہوتا ہے؟توکلِ محض کیا ہوتا ہے؟
ملا عمر ایک باپ بھی تھا۔ ایمان کی سب سے بڑی آزمائش اولاد سے کی جاتی ہے۔ملا عمر کی بھی ہوئی۔ ملا عمر نے13نومبر 2001ء کو افغانستان پر امریکی قبضے سے پہلے اقتدار چھوڑ دیا تھا ۔ ایک مقدس مقصد کی خاطر وہ اپنے خاندان سے بھی دور ہو گئے۔ دس برس گزر گئے۔ تب ملاعمر کو اُن کے میزبان نے فرزند ملا یعقوب کی دستار بندی کی تصویر دکھانا چاہی۔ وہ گیارہ برس کے تھے جب ملا عمر اُنہیں اللہ کے بھروسے پر چھوڑ آئے تھے۔ اب تصویر میںوہ اکیس برس کے تھے۔ باپ کا دل کیسا مچلا ہوگا۔ مگر یا للعجب ملاعمر نے تصویر سے منہ پھیر لیا۔ آنسو سمندر بھی ہوں تو اس درد کی ترجمانی نہیں کرسکتے، ملا عمر نے کہا:مجھے مت دکھاؤ!ایسا نہ ہو بیٹے کی محبت مجھے اپنے مشن سے دور کردے”۔ملا عمر اپنی قوم اور مقد س مشن کے لیے خاموشی سے قبر میں جا اُترے۔ اُس روز کون رویا ہوگا؟ اُس روز کون رویا نہ ہوگا؟ کیا پہاڑ ،کیا پتھر!!مگر قبر میں اُترتے ہوئے کوئی آنسو نہ ہوں گے، وہاں فرشتے ہوں گے، وہ کہہ رہے ہوں گے:
اے عاشقاں، اے عاشقاں، آیا ہے امرِ ناگہاں
جو لوگ ہیں نظّارہ جو، وہ مشقِ حیرانی کریں
٭٭٭٭٭٭