... loading ...
(مہمان کالم)
میتھیو ایکنز
سابق افغان حکومت کے انٹیلی جنس چیف کے گھر میں بیٹھے مولوی حبیب توکل‘ جن کی گود میں بریٹا سب مشین گن رکھی تھی‘ نے بتایا کہ وہ اور ان کے جنگجو ساتھی اس بات پر سخت حیران تھے کہ 15 اگست کو ہمیں کتنی جلد بازی میں کابل پہنچنے کا حکم دیا گیا جبکہ طالبان ابھی تیزی سے پورے افغانستان میں پیش قدمی کر رہے تھے۔ اسی صبح حبیب توکل کا طالبان یونٹ کابل کے نواح میں پہنچ چکا تھا، اسے شاید کئی ہفتے کے لیے وہیں کیمپ لگانا تھا جس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ متوقع تھا مگر انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ حیران کن طور پر صدر اشرف غنی اور ان کے کئی قریبی رفقا ملک سے فرار ہو رہے تھے۔ اس نے بتایا ’’اسی سہ پہر ہماری قیادت نے لوٹ مار روکنے کے لیے ہمیں شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا‘‘۔ طالبان کے انٹیلی جنس چیف حاجی نجیب اللہ نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کے ہیڈ کواٹر پہنچ کر تمام ریکارڈ اور ا?لات اپنے قبضے میں لے لیں۔ یہاں حوالات، دفاتر، سکیورٹی پوسٹس‘ ہر شے خالی پڑی تھی۔ حبیب توکل نے بتایا ’’وہاں ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کے سوا کوئی نہیں تھا۔ وہ بھی صرف یہ عمارت ہمارے سپرد کرنے کے لیے بیٹھا تھا۔ تمام قیدی پہلے ہی وہاں سے فرار ہو چکے تھے‘‘۔
اب جبکہ دو ہفتے گزر چکے ہیں‘ طالبان اپنی نئی حکومت کا اعلان کرنے والے ہیں‘ جس میں افغان طالبان کے سربراہ شیخ ہب? اللہ اخونزادہ افغانستان کے سپریم لیڈر ہوں گے۔ مولوی حبیب توکل اور دیگر طالبان کے خیال میں‘ حکومتی اراکین کے ناموں کے اعلان اور باقاعدہ حکومت سنبھالنے میں ابھی اہم خلا پایا جاتا ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح‘ کابل میں بھی‘ حکومتی عملداری نظر نہیں آتی، سوائے اس کے کہ چند سکیورٹی اہلکار سڑکوں پر ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ طالبان نے سرکاری اہلکاروں کو ہدایا ت جاری کی ہیں کہ وہ اپنے سابقہ عہدوں پر فرائض انجام دیتے رہیں۔ کچھ افراد کام کر بھی رہے ہیں مگر آنے والے دنوں میں ایک سنگین مالی بحران پیش آنے والا ہے جس میں سب سے اہم مسئلہ نقد رقوم کی قلت ہے۔ نقد رقم کے بغیر تیل‘ خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور حصول ناممکن ہے۔ گزشتہ دو ہفتے تو طالبان کو عوامی سطح پر اور عملی طور پر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں ہی لگ گئے۔
چونکہ طالبان کے سابقہ دور کی سختیاں عوام کو یاد ہیں‘ اس لیے عوام کی اکثریت ابھی عدم اطمینان کا شکار نظر آتی ہے۔ اگرچہ طالبان بھی افغان حکومت کے اس قدر تیزی سے خاتمے پر حیران ہیں مگر وہ گزشتہ ایک عشرے سے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی ایک شیڈو حکومت بھی قائم کر رکھی تھی۔ ایک سال سے انہوں نے صحتِ عامہ اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کے لیے قومی کمیشن قائم کر رکھے تھے اور ملک بھر میں ضلعی سطح پر انہوں نے اہم تقرریاں بھی کر رکھی تھیں۔ مولوی بختار شرافت‘ جو طالبان کی سابق حکومت میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں‘ تین سال قبل قائم ہونے والے پبلک ورکس کمیشن کے سربراہ ہیں۔ وہ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر اور مرمت کے انچارج ہیں۔
سقوطِ کابل کے ایک دن بعد‘ 16 اگست کو بختار شرافت قندھار میں تھے اور وہ مغربی افغانستان میں تعمیر ہونے والے انفرا سٹرکچر کا معائنہ کرنے کے لیے جانے والے تھے مگر انہیں ایک سینئر طالبان لیڈر‘ مولوی محمد یعقوب‘ جو ملا محمد عمر کے بڑے بیٹے ہیں اور اس وقت ایگزیکٹو اتھارٹی کے طور پر کام کر رہے ہیں‘ کی طرف سے اہم پیغام موصول ہوا۔ مولوی بختار شرافت نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز کو اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ مجھے حکم ملا ’’براہ کرم آپ کابل پہنچ کر اپنی وزارت کا چارج سنبھال لیں‘‘۔ ان کے ہمراہ سابق حکومت کے کچھ عہدیدار اور ا سٹاف ممبرز بھی تھے۔ مولوی بختار شرافت جب حکم کی تعمیل میں کابل پبلک ورکس آفس پہنچے تو اس کا سابق انچارج وزیر ملک سے فرار ہو چکا تھا۔ وہ پبلک ورکس وزارت کے باقی ماندہ ا سٹاف سے ملے اور تمام لوگوں کو طالبان کی طرف سے اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ سابق حکومت کے دور میں فرائض انجام دینے والے تمام سرکاری حکام کو عام معافی دے دی جائے گی۔ عام معافی کی اس یقین دہا نی کا مقصد یہ تھا کہ سرکاری ملازمین، سکیورٹی اہلکاروں اور عوام کی طرف سے طالبان حکومت کے لیے زیادہ سے زیادہ تعاون حاصل کیا جا سکے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لوگوں کو یقین دہانی کرائی کہ انہیں گھبرانے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم سب نے مل جل کر یہیں اپنے ملک میں ہی رہنا ہے۔
اگرچہ افغان طالبا ن کی آمد کا سن کر افغانستان کی اشرافیہ کی اکثریت ملک سے فرار ہو چکی ہے مگر بعض اہم سرکاری حکام نے یہیں اپنے ملک میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ افغانستان کے وزیر برائے صحت عامہ واحد مجروح نے بتایا کہ مجھے بھی صدر اشرف غنی کی طرف سے فرار کی پیشکش موصول ہوئی تھی مگر میں نے یہ آفر ٹھکرا دی تھی۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے بتایا ’’میں اپنے دفتر میں ہی مقیم رہا اور اس طرح اپنی زندگی کا ایک سنگین رسک لیا۔ اگر میں ملک چھوڑ کر بھاگ جاتا تو میرے ڈائریکٹرز اور دیگر مشیر بھی میری پیروی کرتے ہوئے فرار ہو جاتے‘‘۔
جس رات افغان طالبان دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے تھے تو وزیر برائے صحت عامہ واحد مجروح حسبِ سابق اپنے دفتر گئے‘ جہاں ان کی ہمسایے صوبے لوگر کے طالبان کے صوبائی کمشنر برائے صحت سے ملاقات ہوئی۔ واحد مجروح نے بتایا ’’صوبائی کمشنر مجھے وہاں دیکھ کر حیران ہو گیا۔ اس کا میرے ساتھ رویہ بہت احترام اور ادب کا تھا؛ تاہم اس نے مجھے کوئی واضح پیغام نہیں دیا‘‘۔ واحد مجروح کو تشدد یا ایسے حملوں کی توقع تھی جس میں بڑے پیمانے پر بے گناہ عوام کے قتل عام کا خدشہ لاحق تھا۔ ان کی پوری خواہش تھی کہ ان کی وزارت کے ماتحت کام کرنے والے تمام سرکاری ہسپتال دن رات کھلے رہیں۔ انہوں نے یہ تجویز دی کہ میں اور طالبان حکام اکٹھے مغربی کابل میں ہزارہ علاقے میں واقع دو ہسپتالوں میں جاتے ہیں اور وہاں کام کرنے والے سٹاف کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں کیونکہ یہاں کا ہسپتال عملہ طالبان کی آمد کا سن کر انتہائی خوفزدہ تھا۔ واحد مجروح کو یاد آیا کہ میں نے کہا ’’زبردست آئیڈیا ہے‘ چلو چلتے ہیں‘‘۔
سقوطِ کابل کے بعد‘ یعنی گزشتہ دو ہفتے سے واحد مجروح اور طالبان کے ہیلتھ کمیشن کے سربراہ مولوی یعقوب ایک ہی دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ مولوی یعقوب ان کے اس کردار کو بہت سراہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہسپتال کا سابق عملہ بدستور اپنے سرکای فرائض سر انجام دے رہا ہیسابق افغان حکومت کے وزیر صحت واحد مجروح نے بتایا کہ ’’زیادہ تر وزراء اس وقت طالبان کے زیر حراست ہیں، انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ جہاں تک محکمہ صحت کا تعلق ہے تو اس کا 90 فیصد ا سٹاف فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنی ڈیوٹی پر واپس آ چکا ہے‘‘۔ مگر اس وقت وزارتِ صحت بھی حکومت کے دیگر شعبوںکی طرح‘ ایک سنگین مالیاتی بحران کا سامنا کر رہی ہے اور افغانستان کے بینک فنڈز اور دیگر مالیاتی وسائل کو امریکا اور مغربی ممالک نے یکطرفہ طور پر منجمد کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں ہیلتھ کیئر کا شعبہ زیادہ تر عطیات سے چلتا ہے اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ڈونرز کی سپورٹ کا محتاج ہے۔ جن تنظیموں کے ساتھ مل کر ہم کام کرتے ہیں‘ ان میں سے زیادہ تر نے یہاں اپنے آپریشنز معطل کر دیے ہیں اور کنٹریکٹس پر کام بھی بند کر دیا ہے۔ واحد مجروح کا کہنا ہے ’’ہمیں ان سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس قدر اچانک ہماری فنڈنگ روک دیں گے۔ اس وقت صورت حال اس حد تک ابتر ہو چکی ہے کہ مجھے ہسپتالوں سے کالز موصول ہو رہی ہیں کہ ہمارے پاس ایندھن، آکسیجن اور بجلی کے لیے فنڈز ختم ہو چکے ہیں‘‘۔
اگرچہ طالبان نے افغانستان کے تما م اداروں پر اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا ہے مگر ان کی قیادت حکومتی امور چلانے کے لیے زیادہ تر روایتی طریقوں کا استعمال کر رہی ہے جس میں عامر خان متقی کی سربراہی میں کام کرنے والے ’’انویٹیشن اینڈ گائیڈنس کمیشن‘‘ کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتے کمیشن نے کابل کے لویہ جرگہ ہال میں ایونٹس منعقد کرائے جن میں مذہبی علماء کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس ہال کے سٹیج کے عقب میں افغان جمہوریہ کا سابق سہ رنگا پرچم بھی بنایا گیا تھا۔ کابل میں وزارتِ امن کے دفتر میں طالبان کے ڈپٹی لیڈر سراج الدین حقانی کے چچا‘ خلیل حقانی نے افغان عمائدین کے ساتھ ملاقاتوں کا ایک سلسلہ منعقد کیا جن میں سابق حکومتی اہلکاروں اور فوجی پائلٹوں سے کہا گیا کہ وہ نئی طالبان حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اس کی حمایت کریں۔
گزشتہ ہفتے خلیل حقانی نے ایک اجتماع کی صدارت کی تو ان کے اردگرد امیریکن M4 کاربینز تھامے گارڈز کھڑے تھے۔اس اجتماع میںکابل سے پارلیمنٹ کے ایک سابق رکن اللہ گل مجاہد بھی شریک تھے اور انہوں نے سامعین سے درخواست کی کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔ خلیل حقانی نے اجتماع سے کہا ’’ہم سب اس سب سے بڑے قانون کو مانتے ہیں جو قرآنِ مجید ہے۔ اپنے ہاتھ اٹھائو!‘‘۔ تحریک طالبان کے سپریم لیڈر کے نمائندہ خصوصی کے طور پر انہوں نے شرکاء سے بیعت کرنے کے لیے کہا جو اسلام میں ایک طرح سے اپنے امیر کی اطاعت کا حلف ہوتا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوںکے دوران ان کی موجودگی میں متعدد افغان پاور بروکرز نے بیعت کی جن میں قندھار کے سابق گورنر گل آغا شیرازی اور سابق افغان صدر اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی بھی شامل تھے۔
طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ نئی حکومت اسلامی شریعہ کے مطابق تشکیل دی جائے گی۔ گزشتہ ہفتے کابل میں اپنے دفتر میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے طالبان ترجمان نے کہا ’’افغان عوام نے گزشتہ 20 سال کی مسلح جدوجہد میں جتنی بھی مشکلات برداشت کی ہیں‘ ان کا ایک ہی مقصد تھاکہ افغانستان میں اسلامی شریعہ کا نظام اور قانون نافذ کیا جائے۔ ہمارے ہاں پانچ مرتبہ الیکشن منعقد ہوئے اور ان سب میں دھاندلی اور بدیانتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ہر الیکشن میں ایک امریکی وزیر افغانستان آتا تھا اور وہ الیکشن کے نتائج کا فیصلہ سناتا تھا۔ ہمارے پاس حکومت میں عوام کی نمائندگی اور شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اسلا م کا شوریٰ کا اصول موجود ہے‘‘۔ ذبیح اللہ مجاہد اور ان کی پریس ٹیم کی پوری کوشش تھی کہ اس انٹرویو کے دوران دنیا اور افغان عوام کے سامنے اپنا ایک ایسا چہرہ پیش کیا جائے جس سے عالمی ممالک اور اپنے عوام کے سامنے ایک تعاون کرنے والی حکومت کا تاثر جائے۔ یہ تبدیلی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ 1990ء کی دہائی میں جب طالبان کی سابق حکومت برسرِ اقتدار آئی تھی تو ایک طرف افغان خواتین اور افغانستان میں بسنے والی دیگر مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے ساتھ انتہائی سخت طرز عمل اپنایا گیا تھا، انہیں سخت سزائیں دی گئی تھیں تو دوسری طرف جنگ کے دوران سویلین اہداف کے خلاف بھی تشدد کا بے رحمانہ استعمال کیا گیا تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے اس انٹرویو میں مزید کہا ’’ہمارے پاس بہت سے ایسے نکات ہیں جن پر ہمارے مفادات ایک جیسے ہیں اور ہم مل کر کام کر سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے ان نکات کی ایک فہرست بھی گنوائی جن میں دہشت گردی، افیون کی پیداوار، منشیات کی سمگلنگ کے علاوہ مہاجرین کا سیلاب جیسے نکات شامل تھے‘ جن پر مغربی ممالک کے ساتھ تعاون کیا جا سکتا ہے اور اس تعاون کی اشد ضرور ت بھی ہے۔
خواتین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگرچہ ا سکولوں اور جائے ملازمت پر طالبان کی حکومت یقینا خواتین کے لیے بعض امتیازی اور احتیاطی حدود مقرر کرے گی مگر انہیں تعلیم حاصل کرنے، ملازمت کرنے کے ساتھ ساتھ محرم کے بغیر اپنے گھر سے باہر جانے کی مکمل آزادی حاصل ہو گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سابق حکومت کے دور میں صرف مالیاتی کرپشن ہی نہیں‘ ہر طرح کہ اخلاقی کرپشن بھی پائی جاتی تھی۔ اگر ہم مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ حدود مقرر کر دیں گے تو لوگ اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو ملازمت یا تعلیم کے لیے بھیجتے ہوئے آزادی اور اطمینان محسوس کریں گے۔ بدھ کے روز کابل میں طالبان عہدیداروں نے اعلان کیا کہ افغانستان کی نئی اسلامی حکومت کا جلد اعلان کر دیا جائے گا اور اس حکومت میں شیخ ہیبت اللہ اخونزادہ کو سپریم اتھارٹی حاصل ہو گی؛ تاہم اپنے انٹرویو میں ذبیح اللہ مجاہد نے بہت واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ طالبان کے ذہن میں جمہوریت پر مبنی حکومت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے نزدیک جمہوریت کے بعض اصول اسلام کے بنیادی اصولوںسے متصادم نظر آتے ہیں مثال کے طور پر جمہوریت میں مطلق حکمرانی کا استحقاق عوام کے پاس ہوتا ہے مگر اسلام میں مطلق اقتدار اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہوتا ہے اور اسلام کی الہامی کتاب قرا?ن مجید کے احکامات حرفِ آخر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔