وجود

... loading ...

وجود

لیبیا میں امن کی امید

منگل 07 ستمبر 2021 لیبیا میں امن کی امید

(مہمان کالم)

ڈاکٹرعظیم ابراہیم

2011ء میں معمر قذافی کا تختہ الٹنے کے بعد سے بے لگام خانہ جنگی کا شکار لیبیا عملی طور پر ایک ناکام ریاست بن چکا ہے۔ قذافی سے متعلق کچھ بھی کہا جائے، کم از کم یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ اس نے نسلی، قبائلی اور نظریاتی بنیادپر منقسم لیبیا کو متحد رکھا ہوا تھا۔ اس کے ہتھکنڈے بہیمانہ ہو سکتے ہیں، پھر بھی وہ ملک کو جوڑنے والی ایک قوت تھے۔ لیبیا میں جاری خانہ جنگی کی تفصیل میں جایا جائے تو مستحکم و خوشحال لیبیا سے متعلق ناامیدی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ لیبیا میں اس وقت طاقت کے کئی مراکز ہیں، ہر مرکز کی اپنی ملیشیا ہے؛ داعش اور القاعدہ کے جنگجو بھی ملک میں کھلے عام گھوم رہے ہیں۔
لیبیا کے اس وقت بظاہر 2 علیحدہ اور نیم قابل عمل حکومتی ڈھانچے ایک دوسرے کے متوازی چل رہے ہیں دونوں پورے ملک پر حکمرانی کے دعویدار ہیں، ان کے اپنے اپنے مرکزی بینک اور کرنسی ہے۔ روس اور مغربی دنیا اپنے اپنے پراکسیوں کے ذریعے کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں، عرب ریاستیں بھی مختلف پراکسیوں کی حمایت کر رہی ہیں۔ ان حالات میں خانہ جنگی کے کبھی نہ ختم ہونے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس شورش کا قابل ذکر پہلو چند امور ہیں جن کے خلاف اہل لیبیا ایک دکھائی دیتے ہیں؛ جیسے کہ تمام مقامی تنظیموں کی داعش کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت کرنا۔ 2014ئ￿ میں داعش نے سرت شہر اور چند قصبوں پر قبضہ کر لیا تھا اور شام کی طرح وہاں بھی اپنی اتھارٹی قائم کی مگر جلد ہی لیبیا کے تمام گروپ داعش کے خلاف متحد ہو گئے اور کئی علاقے اس سے خالی کرا لئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لیبیا میں اتحاد کا امکان پہلی بار داعش کی وجہ سے دیکھنے میں آیا تھا۔
لیبیا کے انتہائی شورش زدہ ماحول کا دوسرا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ 2011ء کے بعد محض چند گروپوں نے ہی ایک دوسرے کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ ہر گروپ، ملیشیا اور حکومتی ادارے کی کوشش ہے کہ اپنے اثر و رسوخ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے، اس کے لیے متعدد مواقع پر بعض گروپوں نے دیگر فریقین سے کبھی نہ کبھی تعاون ضرور کیا اور آئندہ بھی کریں گے۔ صرف چند گروپوں کے درمیان مفاہمت کا امکان کم ہے، جس کی وجہ ذاتی مفادات، نجی جھگڑے، عزائم اور نظریاتی اختلافات ہیں۔ لیبیا میں اس وقت ایسے فریق کی کمی ہے جو کہ قذافی کی طرح ملک میں طاقت کے استعمال پر مکمل اجارہ داری رکھتا ہو۔ تاہم لیبیا میں ایسے حلقوں کی کمی نہیں جو کہ لیبیا ایک اکائی کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں جس میں سب مل کر چلیں، تمام اختلافات بھلے برقرار رہیں مگر تشدد کا وجود نہ ہو، بلکہ اختلافات کا مثبت انداز میں فائدہ اٹھایا جائے۔
اس مقصد کیلئے لیبیا میں اس وقت واحد ممتاز رہنما ڈاکٹر عارف علی نیاد ہیں، جو کہ کینیڈا کے تعلیم یافتہ انجینئر، فلاسفر، اسلامی سکالر اور یو اے ای میں لیبیا کے سفیر رہے ہیں۔ شاندار تعلیمی پس منظر کے علاوہ ڈاکٹر نیاد ایک بڑے تاجر اور فلاحی سرگرمیوں میں کھل کر حصہ لیتے ہیں؛ سب سے بڑھ کر لیبیا سے متعلق ایک واضح ویڑن رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عارف علی نیاد کو لیبیا کے دیہی اور شہری رہن و سہن اور تمدن، مختلف علاقوں کے منفرد ثقافتی اور تاریخی ورثے کا اچھی طرح ادراک ہے، مرکزی حکومت کو ان تمام حلقوں کے مابین باہمی مفاد پر مبنی پْرامن روابط کا ایسا ماحول پروان چڑھانا ہے کہ وہ ایک دوسرے کیخلاف ہتھیار اٹھانے کی ضرورت محسوس نہ کریں۔
لیبیا جیسا ملک جو کہ اپنی روایات اور ماضی پر فخر کرنیوالے مختلف آزاد خیال قبائل اور اکائیوں میں بٹا ہوا ہے، ان سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے ایک ٹھوس ویڑن کی ضرورت ہے۔ اس ویڑن کا مشکل حصہ وسائل کی تقسیم سے متعلق ہو گا، کیونکہ مختلف گروپوں کی قیادت کی بظاہر ہٹ دھرمی کی وجہ ذاتی انا نہیں بلکہ مخصوص معاشی مفادات ہیں جس کی وجہ سے لوگ ان کیلئے لڑنے اور جان دینے کو تیار رہتے ہیں۔ اگر انہیں بہتر مواقع کی یقینی دہانی اور ضمانت دی جائے تو صورتحال میں خاطر خواہ تبدیلی لائی سکتی ہے۔ امن و استحکام کے اس ویڑن کو ڈاکٹر علی نیاد لیبیا میں غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر