... loading ...
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمان کالم
موت زندگی کی سب سے کڑوی حقیقت ہے ۔ اس پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اسے کیا کہا جائے کہ کچھ لوگوں کی موت دلوں میں رنج وغم کے جذبات پیدا نہیں کرتی۔ یو پی کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ بھی شاید ایسے ہی لوگوں میں تھے ۔ ان کی موت پر جہاں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے حلقوں میں سوگ منایاگیا تو وہیں مسلم حلقوں میں اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، بلکہ جن مسلمانوں نے کلیان سنگھ کو اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت خراج عقیدت پیش کیا ، انھیں عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلران لوگوں میں شامل ہیں جنھیںکلیان سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرنا مہنگا پڑا ہے ۔وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کلیان سنگھ کی موت پرنہ صرف یہ کہ اظہار افسوس کیا بلکہ انھوں نے آنجہانی کی رہائش گاہ پر جاکران کی تصویر پر پھول چڑھائے ۔ان کے اس عمل پریونیورسٹی کی طلباء برادری نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اوروائس چانسلر کے خلاف یونیورسٹی میں کئی جگہ پوسٹر چسپاں کیے گئے ۔ان میں لکھا تھا کہ ’’ یہ اے ایم یو کی روایت اور تہذیب کی خلاف ورزی ہے ۔ کلیان سنگھ نہ صرف بابری مسجد گرانے کے مجرم تھے بلکہ انھوں نے سپریم کورٹ کے حکم کی بھی خلاف ورزی کی تھی‘‘۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کلیان سنگھ کے دور اقتدار میں ہی بابری مسجد کی شہادت کا انتہائی شرمناک اور دردناک واقعہ رونما ہوا تھا۔خیال کیا جاتا ہے کہ بابری مسجد کا انہدام ایک منصوبہ بند حکمت عملی کا نتیجہ تھا، جسے کلیان سنگھ نے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔وہ سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرنے کے باوجود بابری مسجد کا تحفظ نہیں کرسکے ۔ انھوں نے اپنی دستوری ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی بجائے مسجد کے انہدام میں ہاتھ بٹایااور اپنے اس غیرقانونی اور غیراخلاقی عمل پر فخر کا اظہار کیا۔ایک ریاست کا وزیراعلیٰ ہونے کے ناطے ان پر قانون اور دستور کے نفاذ کی جو ذمہ داری عائد ہوتی تھی ، انھوں نے اس سے چشم پوشی ہی نہیں کی بلکہ ایک قطعی غیرقانونی سرگرمی میںشرکت پر فخر کا اظہار بھی کیا۔
کلیان سنگھ کوگزشتہ 4جولائی کو لکھنؤ کے پی جی آئی اسپتال میں نازک حالت میں داخل کرایا گیا تھا، جہاں انھوں نے گزشتہ 21اگست کوآخری سانس لی۔ خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اسپتال کے ذرائع سے جو خبر جاری کی ہے ، اس میں بتایا گیا ہے کہ ان کی موت جسم کے سڑجانے اور کئی اعضاء کے کام بند کردینے کے باعث ہوئی۔کلیان سنگھ ان32 افراد میں شامل تھے جن پر بابری مسجد انہدام سازش کیس میں مقدمہ چلا ، لیکن گزشتہ سال ستمبر میں انھیں دیگر ملزمان کے ساتھ اس مقدمہ میں ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے بری کردیا گیا تھا۔سابق وزیراعلیٰ کلیان سنگھ کے جسد خاکی پر وزیراعظم سمیت بی جے پی کے تمام بڑے لیڈروں نے عقیدت کے پھول چڑھائے اور انھیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا ۔ ان کی خواہش کے مطابق ان کے جسد خاکی کو بی جے پی کے جھنڈے میں لپیٹا گیا۔انھوں نے اپنی ایک تقریرمیں کہا تھا کہ ’’میں نے اپنی زندگی بی جے پی کو وقف کی ہے اور چاہتا ہوں کہ مروں تو میری لاش بھی بی جے پی کے جھنڈے میں جائے‘‘ ۔ اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا گیا اور قومی پرچم میں لپٹے ہوئے ان کے جسد خاکی پر بی جے پی کا جھنڈا چڑھایا گیا ۔کلیان سنگھ 1991 میں یوپی کی گدی سنبھالنے والے بی جے پی کے پہلے وزیراعلیٰ تھے ۔ یہ وہ دور تھا جب ایودھیا تنازع شباب پر تھااور بی جے پی رام مندر آندولن میں گردن تک ڈوبی ہوئی تھی۔ کلیان سنگھ نے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلے اپنی کا بینہ کے ساتھ سیدھے ایودھیا کا راستہ پکڑا اور وہاں یہ ’ سنکلپ ‘ لیا کہ ’’ قسم رام کی کھاتے ہیں ، مندر یہیں بنائیں گے ‘‘۔
89سال کے کلیان سنگھ دومرتبہ یوپی کے وزیراعلیٰ رہے ۔ان کے دوراقتدار میں ہی 6دسمبر 1992کو بابری مسجد کا انہدام ہوا ۔ حالانکہ انھوں نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے مسجد کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی ، لیکن انھوں نے اس کا پاس نہیں کیااور اس کی پاداش میں سپریم کورٹ نے انھیں ایک دن کی سزا دے کر تہاڑ جیل بھی بھیجا۔کلیان سنگھ کے چیف سیکریٹری رہے یوگیندر نرائن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ جیسے ہی متنازع عمارت کی آخری اینٹ گری، کلیان سنگھ نے اپنا رائٹنگ پیڈ منگوایا اور خود اپنا استعفیٰ تحریر کیااور پھر گورنر کے یہاں پہنچ گئے ‘‘۔کارسیوکوں پر گولی نہ چلوانا وہ اپنی سب سے بڑی حصولیابی سمجھتے تھے ۔ اس کا تذکرہ انھوں نے اپنی ایک تقریر میںاس طرح کیا تھا۔’’ میرے پاس مرکزی وزیرداخلہ شنکر راؤ چوہان کا فون آیا ۔ انھوں نے کہا کہ ڈھانچے کے گنبد پر کارسیوک چڑھے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ’’ کارسیوکوں نے گنبد توڑنا بھی شروع کردیا ہے ، لیکن میں ان پر گولی نہیں چلواؤں گا۔ نہیں چلواؤں گا۔نہیں چلواؤں گا‘‘۔
کلیان سنگھ کی آخری خواہش یہ تھی کہ ان کی زندگی میں عالیشان رام مندر بن کر تیار ہوجائے ۔ انھوں نے رام مندر پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کہا تھا ’’ اب یقین ہے کہ مندر بننے جارہا ہے ۔ میں امن وچین سے موت کی تیاری کرسکتا ہوں ۔ ہاں یہ خواہش اور ہے کہ میری زندگی میں عالیشان مند ربن کر تیار ہوجائے ‘‘۔ کلیان سنگھ کی آخری خواہش پوری نہیں ہوسکی اور وہ عالیشان رام مندر کا درشن کئے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔کلیان سنگھ کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ۔21 ؍فروری 1998کو اترپردیش کے اس وقت کے گورنر رومیش بھنڈاری نے راتوں رات کلیان سنگھ کو برخاست کرکے جگدمبیکا پال کو وزیراعلیٰ کا حلف دلادیا تھا۔ لوگ صبح کو بیدار ہوئے تو کلیان سنگھ کی برخاستگی کی خبر پڑھ کر حیرت زدہ رہ گئے ۔لکھنؤ سے دہلی تک بی جے پی نے تحریک چھیڑ دی۔خود اٹل بہاری باجپئی گورنر کے فیصلے کے خلاف تامرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے ۔ معاملہ عدالت پہنچا اور عدالت نے گورنر کے فیصلے کو خارج کرکے پہلے کی صورتحال بحال کردی۔ جگدمبیکا پال کو جوفی الحال بی جے پی کے لوک سبھا ممبر ہیں ، آج بھی ’ایک دن کا وزیراعلیٰ ‘ کہا جاتا ہے ۔
کلیان سنگھ نے یوں تواپنی زندگی بی جے پی کے نام وقف کی تھی ، لیکن کسی زمانے میں وہ اس پارٹی سے اتنے بددل ہوگئے تھے کہ انھوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت تک بنائی اور بی جے پی کو ہرانے کے لیے ملائم سنگھ یادو کی سماجوادی پارٹی میں شامل ہوگئے ۔دراصل ہوا یوں کہ 1997 میں جب وہ دوسری بار وزیراعلیٰ بنے تو بی جے پی نے دوسال بعد انھیں ہٹاکر رام پرکاش گپتا کو وزیراعلیٰ بنادیا۔ اس کے بعد انھوں نے بی جے پی چھوڑکر راشٹریہ کرانتی پارٹی بنائی ۔ 2004میں وہ دوبارہ بی جے پی میں شامل ہوگئے ، لیکن پارٹی قیادت سے اختلافات کے سبب انھوں نے 2009 میں پھربی جے پی چھوڑدی اور سماجوادی پارٹی کے قریب ہوگئے ۔انھوں نے اس کی مدد سے ایٹہ لوک سبھا سیٹ سے آزاد امیدوار کے طورپر چناؤ لڑا۔ بعد کو سماجوادی پارٹی سے بھی دوری ہوگئی اور انھوں نے 5 ؍جنوری 2010کو’ جن کرانتی پارٹی‘ بنالی۔ 2013میں کلیان سنگھ پھر بی جے پی میں شامل ہوگئے ۔ 2014 میں مودی سرکار بننے کے بعد انھیں راجستھان کا گورنر بنایا گیا۔کچھ وقت کے لیے وہ ہماچل کے کارگزار گورنر بھی رہے ۔وہ بچپن میں ہی آرایس ایس میں شامل ہوگئے تھے اور پوری زندگی اسی کے نام وقف کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔