وجود

... loading ...

وجود

آپ بزی تو نہیں؟

جمعه 03 ستمبر 2021 آپ بزی تو نہیں؟

دوستو، آج کی نئی نسل میں یہ بات تو اچھی ہے کہ وہ کسی کو کسی بھی قسم کا کام بولنے سے قبل یہ معلوم ضرور کرلیتے ہیں کہ ۔۔ آپ بزی تو نہیں؟؟ ہمارے زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اگر کسی نے کام کہہ دیا اور سامنے والے نے اپنی مصروفیت کی وجہ سے انکار کردیا تو سمجھ لیں خاندانی دشمنی شروع ہوگئی، سوشل بائیکاٹ ہوجاتا تھا۔۔چلیں اگر آپ بزی نہیں تو ہماری اوٹ پٹانگ باتوں سے تھوڑی دیر لطف اندوز ہولیں۔
امریکا میں کیے گئے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ خبروں کیلیے سوشل میڈیا پر بھروسہ کرنے والوں کی بڑی تعداد کورونا ویکسین لگوانا نہیں چاہتی۔دی کووِڈ اسٹیٹ پروجیکٹ کے عنوان سے جاری ایک وسیع منصوبے کے تحت کیے گئے اس سروے میں امریکا کی 50 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ کولمبیا سے مجموعی طور پر 20,669 افراد نے حصہ لیا۔واضح رہے کہ کووِڈ 19 کی حالیہ عالمی وبا میں سوشل میڈیا سے پھیلنے والی افواہوں نے دنیا بھر میں بے یقینی کی فضا نہ صرف پیدا کی ہے بلکہ اب تک اس فضا کو قائم بھی رکھا ہوا ہے۔اسی بناء پر عالمی ادارہ صحت نے پچھلے سال ہی بے تحاشا معلومات کے اس سیلاب کو ’’انفوڈیمک‘‘ (اطلاعات کی وبا) کا نام دے دیا جبکہ کووِڈ 19 کو اس کے بعد عالمی وبا قرار دیا گیا۔تازہ امریکی سروے میں جہاں عمومی طور پر یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا کی ’’خبروں‘‘ پر بھروسہ کرنے والوں کی بڑی تعداد کورونا ویکسی نیشن کے خلاف ہے اور دوسروں کو بھی یہ ویکسین لگوانے سے روک رہی ہے، وہیں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایسی خبروں کے پھیلاؤ میں فیس بُک اور اس سے وابستہ دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یعنی واٹس ایپ اور انسٹاگرام کا کردار سب سے نمایاں ہے۔یہ کیفیت ایسے افراد میں سب سے زیادہ (تقریباً 21 فیصد) تھی جو خبروں کیلیے صرف ’’فیس بُک‘‘ کو واحد ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ان کے برعکس وہ لوگ جو مختلف ذرائع سے خبریں حاصل کررہے تھے، ان میں سے صرف 7 فیصد میں کورونا ویکسین مخالف (اینٹی ویکس) خیالات مشاہدے میں آئے۔واضح رہے کہ فیس بُک انتظامیہ نے کووِڈ 19 اور ویکسی نیشن کے بارے میں افواہیں پھیلانے والے اکاؤنٹس اور گروپس بند کرنے کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے لیکن پھر بھی یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا۔اگرچہ یہ سروے امریکا میں کیا گیا ہے لیکن اس کے نتائج ان ہی عوامی رویّوں کی تائید کرتے ہیں جو پاکستان سمیت دنیا بھر کے عام لوگوں میں نمایاں ہیں۔ایک حالیہ تحقیق سے یہ خدشہ بھی سامنے آیا ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر انسانوں کے انفرادی اور اجتماعی طرزِ عمل کو درست طور پر نہ سمجھا گیا تو یہی سماجی میڈیا، انسانی سماج کیلیے خطرہ بھی بن سکتا ہے۔کورونا ویکسین کے بارے میں افواہوں اور ویکسین مخالف رجحان کے فروغ سے متعلق ویب سائٹ ’’ہیلتھ لائن‘‘ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ناول کورونا وائرس (سارس کوو 2) سے مرنے والے 99 فیصد افراد وہ ہیں جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی۔
اگر آپ نے ویکسین لگوا لی ہے تو کوئی بات نہیں، نہیں لگوائی تو فوری لگوالیں۔۔ٹینشن میں آنے کی ضرورت نہیں۔ شوہرنے بیوی کی کال کاٹتے ہوئے کہا۔۔بیگم میں بزی ہوں فری ہو کر کال کروں گا۔شوہر نے فون بند کیا ہی تھا کہ پڑوسن کی کال آ گئی،پڑوسن نے بڑے لگاوٹ سے پوچھا، آپ بزی تو نہیں؟ شوہر نے کہا، نہیں جی، آپ حکم کریں۔۔ پڑوسن جلدی سے بولی، جی وہ آپ کی بیگم بات کرنا چاہ رہی تھیں ۔ اگلے ہی لمحہ بیگم کی دھاڑ کانوں میں گونجی،شام کو ذرا جلدی گھر آنا اور آتے ہوئے آئیو ڈیکس ضرور لیتے آنا۔۔ڈرائیورکی زندگی بھی جب کھیل ہے، موت سے بچ گیا تو سینٹرل جیل ہے۔ ایک ڈرائیور صاحب نے انکشاف کیا کہ۔۔صبح صبح جب میں اپنی وین نکالتا ہوں تو گانا لگاتا ہوں۔۔ محبت بھی ضروری تھی، بچھڑنا بھی ضروری تھا۔۔ سب مسافر چلانے لگتے ہیں۔۔ خدا کا خوف کرو استاد صبح صبح کا ٹائم ہے۔۔ پھرمیں قوالی لگادیتا ہوں۔۔ یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، تیری نظر کا قصور ہے کہ شراب پینا سکھا دیا۔۔سب لوگ عقیدت سے جھومنے لگے۔۔ایک سردار جی کے گھر رات کے دو بجے بیٹا پیدا ہوا،پیدا ہوتے ہی سردار نے تھپڑ دے مارا،بیوی چیخ کر بولی ۔۔کوئی بچے کو بھی ایسے مارتا ہے،سردار بولا۔۔ یہ پہلی رات ہی دو بجے گھر آیا کل جوان ہوگا تو نجانے کس وقت آئے گا۔۔اب باباجی کی کچھ باتیں اور یادیں تازہ کرلیتے ہیں۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔قطع تعلقی، کتا تعلقی سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ۔۔کچھ لوگ اتنے سمجھدار ہوتے ہیں آپ انہیں سمجھدار کہیں تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔قومی لباس سے متعلق باباجی کا فرمانا ہے۔۔شلوارقمیض اس لیے ہمارا قومی لباس ہے کہ اس میں جھولی اٹھا کر بددعا دینے کا آپشن موجود ہے۔۔باباجی نے ایک روز ہم سے ایک سوال بڑے معصومانہ انداز میں کیا، پوچھنے لگے، یہ پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں لوگ آفس ہی کیوں جاتے ہیں؟ کیا ان کی دکانیں وغیرہ نہیں ہوتیں؟؟باباجی کا کہنا ہے کہ۔۔اُدھار دیں مگر سوچ سمجھ کر اپنے ہی پیسے بھکاری بن کر مانگنے پڑتے ہیں، اور ادھار لینے والا جج بن کر تاریخ پہ تاریخ دیتا رہتا ہے۔۔پاکستانی قوم کے حوالے سے باباجی کا فرمان عالی شان ہے۔۔پاکستانی قوم زیادہ گرمی اور زیادہ سردی میں کام نہیں کرسکتی،اور جب موسم خوشگوار ہو تو ان کا ویسے ہی کام کرنے کا دل نہیں کرتا۔۔
آج جمعہ ہے تو اسی حوالے سے ایک واقعہ بھی سن لیجئے۔۔ایک یمنی دوست کہتے ہیں کہ ان کے صنعا شہر میں ایک یہودی بزرگ رِبی رہتا تھا جسے سب لوگ چچا کے نام سے جانتے تھے۔ ایک دفعہ چچا نے جمعے والے دن صنعا سے کافی دور والے اہک شہر ریدہ میں اپنی یوم السبت (ہفتہ والے دن کی عبادات) کی تقریبات میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ چچا نے ایک ٹیکسی والے سے بات کی اور کرایہ پانچ ہزار یمنی ریال طے ہو گیا۔ ٹیکسی والے نے چچا سے کہا۔۔ چچا، جمعہ کا خطبہ ہونے میں آدھا گھنٹہ رہتا ہے، آپ مجھے جمعہ پڑھ لینے دو، پھر میں آپ کو پہنچا آتا ہوں۔ ۔ چچا نے ٹیکسی والے سے کہا، تجھے کرایہ پانچ کی بجائے دس ہزار ریال دونگا تو مجھے بس ابھی ہی لے چل۔ ٹیکسی والے نے بلا تردد چچا کی بات مانی اور چل پڑے۔ راستے میں گپ شپ کے دوران ٹیکسی والے نے چچا سے کہا۔۔ چچا، آپ کی چل چلاؤ کی عمر ہے، آپ اسلام کیوں نہیں قبول کر لیتے؟چچا نے ٹیکسی والے کی بات سنی، قہقہہ لگا کر ہنسے اور کہا۔۔ پُتر اوئے، پہلے تو خود تو اسلام قبول کر لے۔ میں نے اپنے ہفتے کو بچانے کے لیے دس ہزار خرچ کیے ہیں اور تو نے دس ہزار کے لیے اپنا جمعہ بیچ دیا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔نیند اور جہالت جتنی گہری ہوگی، جگانے پر اتنا ہی زیادہ غصہ آئے گا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر