وجود

... loading ...

وجود

پی ڈی ایم کا پاورفیلیئر

جمعه 03 ستمبر 2021 پی ڈی ایم کا پاورفیلیئر

جس طرح ،فقط نمک شامل نہ ہونے سے اچھے ،خاصے صحت بخش اور لذیذ اجزاء سے بنائے گئے پکوان کا ستیاناس مارا جاتاہے بالکل ایسے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کی غیر موجود گی میں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس المعروف پی ڈی ایم کا کراچی کے جلسے میں جو سوا ستیاناس ہوا ہے۔ یقینا یہ ’’سیاسی پکوان ‘‘ پاکستانی سیاست سے دلچسپی رکھنے والوںکو اپنی بدمزہ گی کا مدتوں احساس دلاتا رہے گا۔ حالانکہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی کراچی میں ’’ریکارڈ ساز‘‘ جلسے ،جلوس اور ریلیاںمنعقد کرنے کی کوئی زیادہ قابل فخر سیاسی تاریخ نہیں رکھتی، لیکن پھر بھی چونکہ گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل سندھ کی صوبائی حکومت، پیپلزپارٹی کے پاس ہے اور صوبہ کی سب سے بڑی عوامی اور جمہوری سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز بھی اسی جماعت کو ہی حاصل ہے۔
اس لیے اگر پی ڈی ایم کے کراچی میں ہونے والے حالیہ جلسے میں پیپلزپارٹی بطور اپوزیشن جماعت شریک ہوتی تو یقینا اپوزیشن اتحاد کی کراچی میں ایک فقید المثال ناکام سیاسی جلسہ کرنے کی وجہ سے جو ’’سیاسی عزت‘‘ تار تار ہوئی ہے ۔وہ نہ صرف باآسانی بچ سکتی تھی، بلکہ پیپلزپارٹی کی اپوزیشن اتحاد میں موجود گی سے تحریک انصاف کی حکومت کی صفوں میں ’’سیاسی سراسیمگی ‘‘ پھیل جانے کے وافر’’سیاسی اسباب‘‘ بھی پیدا ہوسکتے تھے۔ لیکن جس طرح کا سیاسی جلسہ پی ڈی ایم نے کراچی میں منعقد کرکے دکھایا ہے ، اُسے ہم جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی مذہبی و سیاسی طاقت کا کامیاب مظاہر ہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس جلسے کو پی ڈی ایم کی سیاسی قوت کا مظاہرہ کہنا خود پی ڈی ایم کی ’’احتجاجی صلاحیت‘‘ کی توہین کرنے کے مترادف ہوگا۔
لطیفہ ملاحظہ ہو کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے کراچی جلسے کی ناکامی کی وجہ سے وفاقی وزراء کے بے رونق چہروں کی رونقیں بھی طویل مدت کے بعد واپس لوٹ آئی ہیں اور حکومتی وزراء الیکٹرانک میڈیا پر ایسے ایسے چہک چہک کر پی ڈی ایم اتحاد کے متعلق گفتگو اور تبصرے فرمارہے ہیں جیسے پی ڈی ایم اتحاد اُن کی حکومت کو گرانے کے لیے نہیں بلکہ عمران خان کے اقتدار کو مزید ’’سیاسی قوت‘‘ مہیا کرنے کے لیے بنایا گیا ہو۔وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید نے تو اپوزیشن اتحاد کو اسلام آباد کی جانب احتجاجی مارچ کرنے کے لیے تمام ضروری انتظامی و سیاسی خدمات فراہم کرنے کی فراخدلانہ’’سیاسی پیشکش ‘‘بھی کر ڈالی ہے۔ کیونکہ شیخ رشید ،ایک انتہائی کایاں سیاست دان ہیں ،جو بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی حکومت کے اختتامی ایام میں ہونے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک اور مارچ کا سب سے زیادہ فائدہ برسرِ اقتدار سیاسی جماعت کو ہی پہنچتاہے۔
شاید اسی لیے شیخ رشید پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد کی جانب احتجاجی مارچ کرنے روکنے کے بجائے اُلٹا ،اُنہیں اپنے مٹھی بھر سیاسی لاؤ لشکر سمیت دارلحکومت پر ’’سیاسی حملہ ‘‘ کرنے کے لیے اُکسا رہے ہیں ۔ اگر اپوزیشن اتحاد میں شامل سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے سیاسی ستارے واقعی گردش میں ہوئے یا مسلم لیگ ن کے رہنما ، ایک بار پھر سے مریم نواز کے لارے لپوں میں آگئے تو مولانا فضل الرحمن ،عمران خان سے ’’سیاسی بغض و عناد‘‘ میں اسلام آباد کی سمت پی ڈی ایم اتحاد کو لے کر پہنچ بھی سکتے ہیں ۔ حالانکہ مسلم لیگ ن میں شامل اکثر رہنما اس ’’سیاسی ایڈونچر‘‘ کے سخت مخالف ہوں گے لیکن مریم نواز نے پہلے کون سے ’’سیاسی بلنڈرز‘‘مسلم لیگی رہنماؤں سے مشاور ت کرنے کے بعد کیے تھے ،جو وہ اَب اِن سے پوچھ کر کریں گی۔
بظاہر اس وقت مسلم لیگ ن کی انتظامی و سیاسی باگ میاں شہباز شریف کے ’’دستِ مفاہمت‘‘ میں ہے ،لیکن جس طرح سے انہوں نے کراچی کے مجمع عام میں آنسو بہائے ہیں ۔ اُس کے بعد یہ عین قرین قیاس لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن میں اُن کی صدارت جلد ہی جانے والی ہے ۔ جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ ’’بنیئے کا لڑکا ، گرتا بھی ہے تو وہیں جہاں اُسے فائدہ نظر آتاہے‘‘۔ اسی مصداق میاں شہباز شریف کے آنسو بھی تب ہی نکلتے ہیں ،جب انہیں اپنی سیاسی و خاندانی حیثیت کے بے مایاں اور دو کوڑی کے ہونے کا قوی امکان ہو۔یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کراچی کے اہم ترین رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا استعفا بھی زبان حال سے چغلی کھا رہاہے کہ مسلم لیگ ن میں اندرونی اختلافات، تقسیم اور خلفشار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ،اور شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ دراصل مسلم لیگ ن کے اکثر رہنما مریم نواز کے ’’مزاحمتی بیانیے‘‘کا علم بلند کرنے کو اپنی سیاسی موت سمجھتے ہیں ۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ مریم نواز ’’مزاحمتی بیانیہ ‘‘ سے دستبردار ہونے کو کسی بھی صورت تیار نہیں ہیں ۔جبکہ مسلم لیگ ن کے متوالے اگلے انتخابات میں’’مزاحمتی بیانیہ ‘‘کی چکر میں یقینی شکست کا مزہ چکھنا نہیں چاہتے۔
اس لیے جیسے جیسے اگلے انتخابات کا وقت قریب آتا جائے گا، مسلم لیگ ن میں اہم ترین سمجھے جانے والے رہنما ؤں کے استعفے ایک ،ایک کر کے سامنے آتے جائیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن کے یہ رہنما اپنی جماعت سے علحیدہ ہوکر پاکستا ن تحریک انصاف یا پھر پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل ہونا چاہیں گے۔ البتہ ! اِن مسلم لیگی رہنماؤں کی یہ خواہش ضرور ہوگی کہ مریم نواز کے ’’مزاحمتی بیانیہ ‘‘ سے وقتی طور پر قطع تعلقی اختیار کر کے آزانہ حیثیت میں اگلے انتخابات میں حصہ لیا جائے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن کے ہر رہنما کے سامنے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے انتخابی نتائج عبرت حاصل کرنے کے لیے موجود ہیں ۔ جہاں مسلم لیگ ن کی حکومت ہونے کے باوجود صرف اس وجہ سے اُسے بدترین شکست کا سامنا کرنا کہ مریم نواز کا ’’مزاحمتی بیانیہ ‘‘عام لوگوں کو پسند نہ آسکا ۔ اس لیے یقین سے کہا جاسکتا ہے آنے والے چند ماہ مسلم لیگ ن اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے لیے سخت مشکل ثابت ہوں گے۔ جس کا ایک ہلکا سا اندازہ اپوزیشن اتحاد کے کراچی میں ہونے والے جلسہ کی ناکامی سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر