... loading ...
‘‘ ذرا غورکرو سب آج ضرور غورکریں۔۔ آج درویش معمول سے زیادہ سنجیدہ تھے ان کے چہرے پرفکرو تدبر نمایاں تھا انہوں نے ایک آہ بھرکرکہا کچھ باتیں تنہائی میں غورکرنے کی ہوتی ہیں لیکن پھر بھی غوروفکر ہمارے معمولات کا حصہ نہیں حالانکہ قرآن میںواضح کہاگیا ہے کہ غور وفکر کرنے والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں ہمارے آس پاس روزانہ کتنے ہی جھگڑے اور لڑائیاں معمولی معمولی باتوں پرہوتی ہیں دیکھا اور سنا بھی ہوگا بچوںکی لڑائیوں سے قتل بھی ہوجاتے ہیںیہ سب جہالت کی نشانیاں ہیں لیکن یادرکھو درگزرکرنا اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے ایک لفظ سوریSorry سے بڑے سے بڑا جھگڑا ختم کیا جاسکتاہے ، معذر ت کہنے میں بڑی قوت ہے یہ الفاظ دلوںمیں نرمی پیدا کرتے ہیں ورنہ لڑائی جھگڑوں سے اتنی تفرتیں جنم لیتی ہیں کہ عمر بھرکا پچھتاواپیچھا نہیں چھوڑتا اکثر اناکی تسکین کے لیے دوسروں کو حقیرجانتے ہیں اور دوسروںکو حقیر جاننا اتنی بڑی خطاہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں۔درویش نے کہا چلو آج میں آپ سب کو ایک واقعہ سناتاہوں اسے تاریخ کی سب سے طاقت ور ترین معذرت سے بھی تعبیرکیا جا سکتا ہے دو صحابیوں حضرتِ ابوذرؓ اور حضرت بلالؓ حبشی کے درمیان کسی بات پر تکرارہوگئی حضرت بلالؓ حبشی نے بظاہر سمجھانے کے اندازمیں حضرت ابوذرؓکو کچھ کہاجو سن کر وہ مزید طیش میں آگئے اور انتہائی غصہ سے کہا: “اے کالی کلوٹی ماں کے بیٹے! اب تو بھی میری غلطیاں نکالے گا؟تیری یہ مجال؟
یہ سن کرحضرت بلال ؓ حبشی سکتے میں آگئے ان کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آنکھوںمیں نمی تیرنے لگی وہ بے قرار ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے انہوں نے انتہائی افسوس اور صدمے سے کہا اللہ کی قسم! میں یہ معاملہ ضرور بالضرور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اٹھاؤں گا!
حضرت بلالؓ حبشی۔۔ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام ماجراکہہ سنایا حضرت ابوذرؓ کی بات سن کر سرورِ کونین ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا فوری طور پر حضرت ابوذر کو طلب فرمایا ۔ آپ ﷺ نے ا س سے استفسار فرمایا: ابوذر! کیا تم نے اسے ماں کی عار دلائی؟
حضرت ابوذر نے اثبات میں سر جھکادیا
نبی ٔ اکرم ﷺ نے بڑے سنجیدہ ہوکر پوچھا اس کا مطلب ہے تمہارے اندر کی جہالت اب تک نہ گئی!!
اتنا سننا تھا کہ ابوذرؓ یہ کہتے ہوے رونے لگ گئے دلگیرہوکر کہایارسول اللہ! میرے لیے دعائے مغفرت کر دیجئے اور پھر روتے ہوئے مسجد نبوی سے باہر نکل گئے انہوں نے دیکھا دور سے حضرت بلالؓ حبشی تشریف لارہے ہیں وہ لپک کر ان کے راستے میں زمین پر لیٹ گئے اور اپنا رخسار مٹی پر رکھ دیا اور حضرت بلال سے مخاطب ہو کر کہا: *”بلال! جب تک تم میرے رخسار کو اپنے پاؤں سے روندکر نہ گذر جائو میں یونہی مٹی پر لیٹا رہوں گا یقیناً میں غلطی پر تھا یقین جانو تم معزز و محترم ہو اور میں ذلیل و خوار!!یہ دیکھ کر حضرت بلالؓ حبشی دوڑ تے ہوئے آئے اور ابوذر ؓکو زمین سے اٹھا کر گلے لگا لیا اور فرط ِ محبت سے ان کے رخسار کو چوم لیا۔ اور بے ساختہ گویا کہنے لگے خدائے پاک کی قسم! میں اس رخسار کو کیسے روند سکتا ہوں، جو اللہ کے حضورسجدہ ریزہوتاہو۔ پھر دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر بہت روئے! لوگ حیرت سے انہیں دیکھنے لگے ۔
درویش نے کہا آج کا سارا منظرنامہ آپ سب کے سامنے ہے آج اکثر ہم ایک دوسرے کی درجنوں بار ہتک کرتے ہیںیابرے القاب سے پکارتے ہیں ،مذاق بناتے ہیں ،ٹریفک میں پہلے جانے کے چکر میں ایک دوسرے سے ٹکرا کربھی کوئی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں اور لڑائیوں میں سر پھٹول ہوجاتی ہے مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ “بھائی! معاف کریں۔ بہن! معذرت قبول کریں”۔ یہ سچ ہے کہ ہم آئے دن لوگوں کے بنیادی عقائد اور زندگی کی گراں قدر اشیاء کے سلسلے میں ان کے جذبات کو چھلنی کر دیتے ہیں؛ مگر ہم معذرت یا سوریSorry کے الفاظ تک زبان سے ادا نہیں کرتے اور دلوں میں بغض رکھتے ہیں جو کینہ بن کر ہماری شخصیت پر حاوی ہوجاتاہے حقیقتاً معاف کر دیجئے ایک ایسا لفظ ہے جو دل میں نرمی اور گدازپیدا کرتاہے معذرت سو الجھنوں کی ایک سلجھن ہے لیکن یہ کہتے ہوئے بھی ہمیں شرم آتی ہے حالانکہ معافی مانگنا عمدہ ثقافت اور بہترین اخلاق ہے یہ خود احتسابی کی جانب بڑھتے ہوئے آپ کے قدم بھی ہو سکتے ہیں جبکہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بے عزتی اور اہانت ہے سوچیں تو احساس ہوگا اس دنیا میں ہم سب مسافر ہیں اور سامانِ سفر نہایت تھوڑا ہے۔ ہم سب دنیا و آخرت میں اللہ سے معافی اور درگزر کا سوال کرتے ہیں لیکن بندے ایک دوسرے کو معاف کرنے کوتیارنہیںاسی بناء پر رشتہ داروں اور کئی بہن بھائیوں نے ایک دوسرے کی زندگیاں جہنم بناکررکھ دی ہیں یاد رکھو جسے درگذر کا سلیقہ نہیں جو دوسروںکو معاف کرنے کو تیار نہیں اللہ تعالیٰ سے کیونکر معافی کا طلب گارہے ہمیں تو حادی ٔ برحق نے یہ نوید سنائی ہے جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے میں اسے قیامت کے روز ایک محل عطا کرنے کی ضمانت دیتاہوں۔۔ کمال ہے ہم مسلمان پھربھی کسی کو معاف کرنے یا درگذرکے لیے تیارنہیں۔درویش نے آہ بھرکرکہا اس بات کو گرہ دے لیں جو کسی سے درگذرنہیں کرتا یا جس کے دل میں صلہ ٔ رحمی نہیں جودوسروں کو معاف کرنے کے ہنرسے واقف نہیں وہ جاہل ہے کیا تم نہیں جانتے حادی ٔ برحق ﷺ دنیا سے جہالت کا خاتمہ کرنے ہی تو آئے تھے اور جہالت کو سینے سے لگا کر جینا بھی کیسا جیناہے یہ رات کے سناٹے میں تنہائی کے عالم میں غورکرنے کی بات ہے آپ غورکریں گے؟ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔